فائل کا سفر

محسن حکومتِ پاکستان کا انتہائی ذہین‘محنتی اور فرض شناس افسر ہے۔ اس کے شاندار کیریئر کے پیشِ نظر ایک بین الاقوامی یونیورسٹی نے اسے سکالرشپ دینے کا فیصلہ کیا تو وہ بہت خوش ہوا اور اس نے فوراً چھٹی کی درخواست پیش کر دی۔ یہ اگست کا آخری ہفتہ تھا۔ یونیورسٹی سیشن کا آغاز جنوری میں ہونا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ سارے کام دو تین ہفتے میں طے پا جائیں گے۔ چھٹی کی اس درخواست کے ساتھ جو کچھ ہوا ‘آئیے اس کی کہانی سنتے ہیں۔
محسن کی درخواست سب سے پہلے اس کے محکمہ کے سیکرٹری کے پاس گئی ۔ سیکرٹری کو یہ بات بالکل اچھی نہ لگی کہ اس کا ماتحت اس سے زیادہ پڑھنا چاہتا ہے تاہم اس نے یہ درخواست منظوری کے لئے سیکرٹری سروسز کو بھجوا دی۔ وہاں سے یہ درخواست ایڈیشنل سیکرٹری‘ڈپٹی سیکرٹری اور سیکشن آفیسر سے ہوتی ہوئی اسسٹنٹ تک گئی۔ اسسٹنٹ نے درخواست کوپڑھا‘متعلقہ قوانین کا مطالعہ کیااور ایک ''نوٹ‘‘ بنا کر درخواست کے ساتھ منسلک کیا اور درخواست فائل کی صورت میں واپس سیکشن آفیسر کو بھیج دی گئی۔سیکشن آفیسر نے درخواست کے مندرجات سے اتفاق کیا اور چھٹی کی منظوری کی سفارش بھی کردی۔ وہاں سے یہ فائل ایڈیشنل سیکرٹری اور پھر سیکرٹری تک پہنچی۔ سیکرٹری نے چیف سیکرٹری سے اجازت لینا بھی ضروری سمجھا اور یوں یہ فائل سیکرٹریٹ کے بلند ترین مقام تک جا پہنچی۔ چیف سیکرٹری نے بخوشی اس درخواست کو منظوری کا شرف بخشا اور فائل واپسی کا سفر طے کرنے لگی ۔ سیکرٹری‘ایڈیشنل سیکرٹری‘سیکشن آفیسر اور پھر 
اسسٹنٹ۔ محسن چونکہ وفاقی حکومت کا ملازم ہے اس لئے حتمی منظوری تو وہیں سے ملنا تھی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھیجنے کے لئے وزیراعلیٰ کی منظوری بھی درکار ہے۔ اسسٹنٹ نے ''حالات و واقعات‘‘ پر مشتمل ایک سمری بنائی تاکہ وزیراعلیٰ کو سیاق و سباق سے آگاہ کیا جا سکے۔ سمری بنی۔ انڈر سیکرٹری کے پاس گئی۔ ایڈیشنل سیکرٹری کے پاس گئی۔ انہوں نے غور سے سمری کو پڑھا تو اس میں کچھ غلطیاں تھیں۔ یہ غلطیاں حالات و واقعات کی نہیں بلکہ املا سے متعلقہ تھیں۔ ایڈیشنل سیکرٹری نے سوچا کہ فائل افسرانِ بالا تک جانی ہے۔ ان غلطیوں سے تو اس کی اپنی نالائقی ظاہر ہوتی ہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری نے اپنے پی اے کوبلا کر دوبارہ سمری لکھوانا شروع کی۔ کئی دن سمری کے ہجے ٹھیک ہوتے رہے۔ جب مضمون کی نوک پلک سنور گئی تو فائل نے پھر سے سفر شروع کیا۔ سیکرٹری‘چیف سیکرٹری اور پھر وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ۔ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کا ایک اپنا نظام ہے۔اسسٹنٹ‘انڈر سیکرٹری‘ایڈیشنل سیکرٹری‘پرنسپل سیکرٹری اور پھر وزیراعلیٰ۔ سیڑھی کا ہر قدم طے کرتے ہوئے یہ فائل وزیراعلیٰ تک پہنچی۔ انہوں نے درخواست پر قبولیت کی مہرثبت کی اور فائل کی واپسی کا سفر شروع ہو گیا۔ پرنسپل سیکرٹری‘ایڈیشنل سیکرٹری‘انڈر سیکرٹری۔ پھر یہ فائل پیام رساں کے حوالے ہوئی۔ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کی 
خوبصورت روشوں سے نکل کر فائل دوبارہ سول سیکرٹریٹ پہنچ گئی۔ چیف سیکرٹری‘سیکرٹری سروسز‘ایڈیشنل سیکرٹری‘سیکشن آفیسر اور اسسٹنٹ۔ یاد رہے کہ ابھی چھٹی منظور نہیں ہوئی۔ ابھی صرف اس بات کی منظوری ملی ہے کہ یہ کیس وفاقی حکومت کو بھجوایا جائے گا۔ اسسٹنٹ نے دوبارہ قلم اٹھایا ٗقانون کی کتابیں کھولیں۔ کچھ سوچ بچار کی۔ افسر کی شہرت چونکہ اچھی تھی اس لئے اسسٹنٹ کو رحم آگیا اور وہ وفاقی حکومت کے لئے ''مثبت‘‘ نوعیت کا نوٹ تیار کرنے لگا۔وہ چاہتا تو محکمہ ریگولیشن کو بھجوا کران کی رائے بھی لے سکتا تھا۔ ''شاید اس افسر کے خلاف ماضی میں کبھی کوئی کاروائی عمل میں لائی گئی ہو‘‘ تاہم اس نے اس سے احتراز کرنا مناسب سمجھا اور یہ نوٹ سیکشن آفیسر‘ایڈیشنل سیکرٹری اور سیکرٹری سے ہوتا ہوا چیف سیکرٹری تک چلا گیا۔ ہر جگہ منظور ہونے کے بعد بالآخر یہ فائل دوبارہ اسسٹنٹ کے پاس آگئی تاکہ اسے اسلام آباد بھیجنے کی تیاری کی جاسکے۔
فائل کا اگلا پڑائواسٹیبلشمنٹ ڈویژن تھا۔محسن کے تعلقات زیادہ تر صوبہ کی بیوروکریسی تک محدود تھے۔ وہاں تو وہ فائل کے ساتھ ساتھ حرکت کرتا رہا اور یہ فائل پہیوں کے بغیر بھی حرکت کرتی رہی لیکن اسلام آباد جا کے فائل کے ساتھ رہنا اس کے لئے ممکن نہ تھا۔ مجبوراََ اس نے کیس قسمت کے حوالے کر دیا۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں انڈر سیکرٹری‘ڈپٹی سیکرٹری اور پھر جائنٹ سیکرٹری۔ وفاقی حکومت میں جائنٹ سیکرٹری بہت بڑا عہدہ ہوتا ہے۔ جائنٹ سیکرٹری نے فائل پہ لکھ دیا۔ Put up with rules. ۔حالانکہ جائنٹ سیکرٹری کا کمرہ قانون کی کتابوں سے بھرا رہتاہے۔ وہ ایک لمحے کے لئے کرسی سے اٹھ کرآسانی سے وہ کتاب پکڑ سکتا ہے جس میں سارے قانون درج ہیں لیکن اس تردد سے کہیں آسان ہے کہ یہ تکلیف ماتحت کو دے دی جائے۔ اس کیس میں انہیں قانونی شہادت کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اس کی وجہ کا علم نہیں۔ بہرحال قانون دکھایا گیا۔ موصوف کی تسلی ہوئی اور فائل ایڈیشنل سیکرٹری کے پاس چلی گئی۔ ایڈیشنل سیکرٹری کو ایک نیا نکتہ سوجھا۔ ''درخواست گزار عام چھٹی نہیں بلکہ تعلیمی چھٹی مانگ رہا ہے۔ اس طرح کی چھٹی میں تنخواہ کا کچھ حصہ بھی دینا پڑتا ہے۔ کیوں نہ وزارتِ خزانہ حکومتِ پاکستان سے بھی رائے لے لی جائے۔‘‘ ایڈیشنل سیکرٹری نے یہ لکھا اور فائل ایک بار پھر واپس پلٹی۔ جائنٹ سیکرٹری‘ڈپٹی سیکرٹری‘انڈر سیکرٹری وغیرہ وغیرہ۔ اب یہ فائل اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے نکل کر وزارتِ خزانہ میں جائے گی۔ انڈر سیکرٹری‘جائنٹ سیکرٹری‘ایڈیشنل سیکرٹری‘سیکرٹری۔ حکومتِ پاکستان کے یہ تمام افسر اس درخواست پر مزید غوروفکر کریں گے۔ اگر کوئی اور اعتراض نہ لگا تو فائل پھر سے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کے پاس پہنچے گی۔ وہاں سے زینہ در زینہ نشیب کا سفر طے کرتے ہوئے انڈر سیکرٹری کے پاس اور پھر اسلام آباد سے نکل کر واپسی کا سفر شروع ہوگا یعنی دوبارہ سے صوبائی دارالحکومت۔ چیف سیکرٹری‘ سیکرٹری سروسز‘ایڈیشنل سیکرٹری‘انڈر سیکرٹری اور اسسٹنٹ۔ اگر یہ تمام مراحل بخوبی طے پا گئے تو وزیراعلیٰ سے ازسرِ نو منظوری لی جائے گی اور سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کا ایک اسسٹنٹ دو فقروں پہ مشتمل چھٹی کا حکم نامہ جاری کرے گا۔
آج نومبر کی دس تاریخ ہے۔ فائل نے اپنا سفراگست میں شروع کیا تھا ۔بیسیوں کاغذوں پہ بکھر ی یہ گہر افشانی۔کم از کم سترافسران کی نظروں سے گزرنے کے بعد ابھی یہ فائل صرف حکومت پاکستان کے محکمہ خزانہ تک پہنچ پائی ہے۔ واپسی کے سفر میں ابھی اور کتناوقت لگے گا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ دو ماہ یاتین ماہ۔ وہ بھی اگر اس نے فائل کی پیروی کا بھرپور فیصلہ کیا۔ محسن کو جنوری کے پہلے ہفتے میں یونیورسٹی پہنچنا تھا۔ خدا جانے کیا بنے گا۔'' بیوروکریسی چھٹی کی ایک درخواست کا فیصلہ کرنے میں تین ماہ صرف کردیتی ہے۔ ان فیصلوں میں کتنا وقت لگتا ہو گا جن پہ قوم کی زندگی کا انحصار ہے۔ ‘‘محسن کی سرگزشت میں واقعی بہت سے سبق ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں