سیلاب 2022 اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا… (30)

سفینۂ غم کی اگلی منزل۔اسلام آباد سے واپسی کے بعد ہماری اگلی منزل سکھر‘ شکار پور‘ جیکب آباد‘ جعفر آباد‘ ڈیرہ مراد جمالی اور بلوچستان کے کچھ دیگر علاقے تھے۔ وہ دور دراز قصبے اور گاؤں جہاں پانی ابھی تک موجود ہے اور لوگ سٹرکوں پہ لگے خیموں میں محصور ہیں۔ یہ نومبر کا دوسرا ہفتہ ہے بارشوں کو گزرے دو ماہ سے زیادہ گزر گئے لیکن یہ لوگ ابھی تک خانہ بدوش ہیں۔ کبھی اِدھر کبھی اُدھر۔ وہ جو حفیظ جونپوری نے کہا:
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
غریب الوطنی کا یہ کیا عالم ہے۔ خانہ بدوشوں کے پاس بھی رہنے سہنے کا کچھ سامان ہوتا ہے۔ بستر‘ برتن‘ روٹی‘ کپڑا‘ جانور‘ خیمے‘ لحاف۔خانہ بدوشوں کے لیے تو نقل مکانی بھی کچھ مشکل نہیں لیکن سیلاب سے متاثر لوگ اس زندگی کے کب عادی ہیں۔ یہ گھر سے نکل کے کہاں جائیں۔ کوئی گھنی چھاؤں‘ کوئی شجرِ سایہ دار۔ میجر(ر) امان اور جنرل (ر) فیض جیلانی حسبِ پروگرام ملتان موجود تھے اور ہمیں ایک بار پھر مل کر سکھر پہنچنا تھا۔دکھ کا وہی بھنور‘ درد کی وہی گونج۔ آنسوؤں کی وہی برسات۔ ملتان کے قریب موٹروے پہ ملاقات ہوئی۔ آدھا رستہ یہی بات ہوتی رہی کہ ہم نے اتنے بڑے سانحہ کو کس قدر جلد بھلا دیا۔ رات سندھ کے شہر پنو عاقل میں گزری اور علی الصبح ہم سکھر کی طرف روانہ ہوئے۔ سکھر‘ شکار پور‘ جیکب آباد اور بلوچستان میں ڈیرہ اللہ داد‘ (جسے جھٹ پٹ بھی کہتے ہیں) ضلع جعفر آباد۔ گویا ایک دن میں ایک طویل سفر روبرو تھا۔مقصد ان لوگوں سے ملنا تھا جنہیں ہم بھول چکے ہیں یا بھولنے کے قریب ہیں۔
پنو عاقل سے ہم سکھر شہر پہنچے۔سکھر ایک قدیم شہر ہے۔نجانے سکھر کے معنی کیا ہیں لیکن میرے ذہن میں اس نام سے دو لفظ گونجنے لگے۔'' سکھ‘‘یعنی خوشی اور اطمینان یا پھر '' سکھی‘‘ یعنی سہیلی‘ دوست اور ساتھی۔ قدیم عمارتیں‘ پُر پیچ گلیاں‘ یادِ رفتگاں۔ سب سے پہلے اخوت کے دفتر میں ساتھیوں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے مشکل کے ان ایام میں غیر معمولی کام کیا۔ریجنل منیجر کامران نے بتایا کہ وہ اب تک صرف سکھر کے قرب و جوار میں 5000 گھرانوں کو پانچ سے چھ ہفتے کے لیے راشن اور 12000 گھرانوں کی نقد رقوم کے ذریعے مدد کر چکے ہیں۔ اس کی نگرانی میں ریجن میں 1000 گھر زیرِ تعمیر ہیں اور ان میں سے اکثر مکمل ہو چکے ہیں۔ شکر ہے کچھ لوگوں کو تو پناہ ملی۔ وہ چھت جو بارش کی نذر ہو چکی تھی پھر سے تعمیر ہوگئی۔ دفتر میں گفتگو کے بعد ہم وہ گھر دیکھنے گئے جو بارش کا نشانہ بنے اور مکینوں نے تعمیر کے لیے بھیک نہیں مانگی‘بلاسود قرضے لے کر تعمیر کا کام شروع کردیا۔ مکمل ہونے والے گھر دیکھ کے بے حد اطمینان ہوا۔ اتنی ہی مسرت ان گھروں کو دیکھ کے ہوئی جو تکمیل کے قریب تھے۔ لوگوں کے چہروں پہ پھیلی ہوئی خوشی۔ یہ احساس کیسا دل گداز تھا۔ وہ لوگ کس اپنائیت سے ہمارے گلے لگ رہے تھے۔ یہ سب کچھ کہنے کے لیے شاید لفظ کم پڑ جائیں۔
سکھر کا قدیم شہر۔ پُر پیچ گلیاں‘'' سکھ‘‘ اور'' سکھی‘‘ کا امتزاج‘ بازاروں میں گہماگہمی۔یہ سب اپنی جگہ لیکن گلی کوچوں میں گندگی کے ڈھیر دیکھ کے دُکھ ہوا۔ غلاظت اور بدبو کے عین درمیان بچوں کا ایک سکول بھی نظر آیا۔ سکول کے دروازے کے ساتھ گندگی کا ڈھیر سب سے بڑا تھا۔ بچے کتابیں اٹھائے‘ بستے کندھوں پہ لٹکائے اسی دروازے سے گزر کر سکول میں داخل ہوتے ہیں۔ میں نے نذیر تونیو اور دیگر ساتھیوں کی طرف دیکھا۔مجھے یاد آیا سکھر سے کہیں دور میں بھی ایسے ہی سکول میں پڑھتاتھا۔ لیکن ان دروازوں کے سامنے گندگی نہیں تھی۔در و دیوار اور کھڑکیاں پرانے ضرور تھے مگر اس قدر خستہ حال نہ تھے۔ہاں‘ وہ میرا پہلاسکول جس کی پیشانی پہ ایک شعر درج تھا:
اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
قسمتِ نوعِ بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں
لیکن مجھے یہ دیکھ کے دُکھ ہوا کہ اس سکول کی پیشانی پہ یہ شعر درج نہ تھا۔ پھر خیال آیا گندگی کے ڈھیر پہ یہ شعر ہونابھی نہیں چاہیے۔ گندگی اور غلاظت سے قسمتِ نوعِ بشر میں تبدیلی نہیں آتی۔
سکھر ایک بڑا شہر ہے۔ یہاں بڑے بڑے سیاستدان رہتے ہیں۔ بہت سے وزیر بھی ہوں گے۔ علمائے کرام‘ دانشور‘ ادیب‘ شاعر۔ سماجی کارکن‘ ڈپٹی کمشنر اور محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران۔ کیا آج تک ان لوگوں میں سے کوئی اس سکول کی طرف نہیں آیا۔ کیا آج تک کسی کو یہ گندگی نظر نہیں آئی۔ صفائی اگر نصف ایمان ہے تو آدھا ایمان تو یہیں کھو گیا۔ دھن‘ دولت کما بھی لیں تو کیا۔دین کا تقاضا تو کچھ اور ہے۔ مجھے اس محلے کا نام یاد نہیں لیکن اس محلے میں جگہ جگہ بکھری گندگی کے درمیان سے گزرنا کوئی آسان مرحلہ نہ تھا۔ اوپر سے نکاسی ٔ آب کی کھلی نالیاں جن میں پڑے پلاسٹک کے لفافے مستقل رکاوٹ بن چکے تھے اور سارابدبو دار پانی گلی میں پھیلا ہو ا تھا۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ گھر‘ دروازے سے نہیں گلی سے شروع ہوتا ہے اور گلی کی ساری گندگی ہم اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے بتایا کہ جب بھی بارش ہوتی ہے ساری غلاظت ان کے صحن میں پہنچ جاتی ہے لیکن اس بار تو حد ہوگئی‘ گندا پانی کمروں میں بھی جاپہنچا۔ چار چار‘ پانچ پانچ فٹ پانی۔ ہمارے پلنگ‘ چارپائیاں‘ بستر اور باورچی خانے کے برتن‘ سب کچھ گندگی میں تیر رہا تھا۔
یہ صرف سکھر کے اس محلے کی کہانی نہیں۔ یہ ہر چھوٹے شہر اور قصبہ کی کہانی ہے جہاں بارش ہوئی۔ ہمارے ایک ساتھی نے سکول کا ذکر دوبارہ چھیڑتے ہوئے کہا: اس سکول کے بچوں کو نہیں‘ اصل میں اساتذہ کو پڑھانے کی ضرورت ہے۔ تہذیب‘ تمدن اور سلیقہ۔ کیا وہ ان بچوں کے ساتھ مل کے ایک گلی بھی صاف نہیں کرسکتے۔ چلیں گلی چھوڑیں‘ اپنے سکول کا دروازہ ہی سہی۔ وہ دروازہ جہاں سے گزر کے قسمتِ نوعِ بشر تبدیل ہوتی ہے۔ اے اہلِ وطن‘ اے صاحبانِ فہم و ذکا‘ علم خواہ کتنا ہی کیوں نہ ہو‘ عمل کے بغیر ادھورا ہے۔
یہ سب دیکھ کے جی چاہا‘کچھ دیر آنسو ہی بہالیں۔ آنسو تو بہت بہے بس آنکھ تک نہیں آئے۔ ایک بار پھر گاڑیوں میں سوار ہوئے اور سکھر سے نکل کر جیکب آباد کا رخ کیا۔خلافِ توقع سٹرک بہت شاندار تھی۔ کچھ اشک شوئی ہوئی۔ پہلا قیام جیکب آباد کے قریب ایک گاؤں کی مسجد میں تھا۔ چند باتیں اور پھر دعا کے لیے اُٹھے ہوئے ہاتھ۔ چھوٹی سی بستی کی چھوٹی سی مسجد۔ وہی کمزور اور لاغر بچے جن کے بدن کپڑوں سے اور پاؤں جوتوں سے محروم تھے۔ پھٹے پرانے‘ بوسیدہ کپڑے اور بے نور آنکھیں۔کہیں کہیں امید کا کوئی ستارہ۔ کس موقع پر حبیب جالب کی یاد آئی:
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں