سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا … (32)

سکھر کا وزٹ ختم ہوا۔ دکھ‘ درد‘ مایوسی‘ ٹوٹے پھوٹے گھر‘ دور تک پھیلا ہوا سیلابی پانی۔ پھر بھی لوگوں کے دل میں اُمید کی شمع جلتی رہی لیکن وہ جو غالب نے کہا: کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔ ان کے شادوآباد ہونے میں نجانے کتنا وقت صرف ہو۔ علی الصبح ناشتہ ہوا اور واپسی کا بگل بجا۔ رات تک ہمیں لاہور پہنچنا تھا لیکن راستے میں دو جگہ رکنا بھی تھا۔ خانیوال اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک شہر رجانہ۔ بارش یا سیلاب کی وجہ سے نہیں‘ اخوت کے سٹاف سے ملاقات کے لیے۔ طویل سفر کے بعد جب بھی تھکاوٹ غالب آتی ہے تو راستے میں ساتھیوں کو ملنے کے لیے رک جاتے ہیں۔ انہیں دیکھ کے ذوق و شوق‘ ہمت اور حوصلہ پھر سے بڑھ جاتا ہے۔ ان گم نام سپاہیوں نے مواخات کی شمع‘ خونِ جگر سے روشن کی ہے۔ صبح و شام وہ ایک ہی عزم رکھتے ہیں۔
خونِ دل دے کے نکھاریں گے رُخِ برگِ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
گاڑی فراٹے بھر رہی تھی۔ ارد گرد سبزہ اور ہریالی تھی۔ آم کے درخت جو ملتان کی پہچان تھے‘ اب رفتہ رفتہ کم ہورہے ہیں۔ آبادیاں ان درختوں کو نگل رہی ہیں۔ کاش ہم ایک شجر کاٹیں تو دس لگا بھی دیں۔ مختلف موضوعات پر باتیں اور پھر گفتگو دوبارہ موجودہ تباہی پہ آکے رک گئی۔ سیلاب‘ بارشیں اور موسمی تبدیلیاں‘ اب یہ صرف ہمارے ملک کا مسئلہ نہیں۔ اب یہ دنیا میں سب سے بڑا موضوع بن چکا ہے۔ حال ہی میں مصر میں اس موضوع پہ ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ امریکہ کی ایک یونیورسٹی کی ریسرچ فیلو بنیتھنی ٹائجن‘ جو بدلتے ہوئے موسمی حالات پر گہری نظر رکھتی ہیں‘ اس کانفرنس کے بارے میں لکھتی ہیں کہ ''مختلف ممالک کے رہنما 2022ء کی اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس کے لیے مصر میں جمع ہو رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے دوچار دنیا کے بہت سے ایسے ممالک ہیں جن کا اس تباہی میں بہت معمولی ہاتھ ہے مگر اس کے باوجود وہ شدید گرمی کی لہروں‘ سیلابوں اور آب و ہوا سے متعلق دیگر آفات کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے نقصان کی تلافی کے لیے مالدار ممالک آگے بڑھیں کیوں کہ یہ ممالک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے سب سے بڑے ذرائع ہیں۔اس کی ایک واضح مثال پاکستان ہے جہاں 2022ء کے موسمِ گرما میں گلیشیرز پگھلانے والی گرمی کی لہر اور طوفانی بارشوں کے سبب ملک کا تقریباً ایک تہائی حصہ شدید متاثر ہوا۔ سیلاب نے پاکستان کے کھیت کھلیانوں کو میلوں چوڑی جھیلوں میں تبدیل کر دیا جس سے وہاں آباد بستیاں کئی ہفتوں تک پانی میں گِھر کر رہ گئیں‘‘۔
یہ ہم نہیں کہہ رہے‘ بیرونی محقق کہہ رہے ہیں۔ ''پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا باعث بننے والی عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں صرف ایک فیصد حصہ ڈالتا ہے لیکن گرین ہاؤس گیسیں قومی سرحدوں کے اندر نہیں رہتیں‘ ان کا اخراج کہیں بھی ہو اس سے پوری دنیا کی آب و ہوا متاثر ہوتی ہے۔ گرم موسم کے سبب بارشیں کہیں زیادہ ہوتی ہیں اور کہیں کم۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی نے پاکستان میں بارش کی شدت میں 50 فیصد تک اضافہ کیا ہے۔ 1995ء سے لے کر آج تک ہر سال منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنسوں میں نقصان کی تلافی کا سوال مدت سے زیر بحث چلا آ رہا ہے لیکن بین الاقوامی موسمیاتی معاہدوں میں اس نقصان کی ادائیگی کے لیے مالیاتی طریقہ کار کے معاملے میں بہت کم پیش رفت ہوئی ہے‘‘۔ خاتون محقق کی یہ باتیں فکر اور تدبر کی نئی جہت سے آشنا کررہی تھیں۔
''قومی سطح پر‘ کم ترین گرین ہاؤس گیسیں خارج کرنے والے ممالک میں افریقہ کے ملک سرفہرست ہیں لیکن اس کے باوجود یہ براعظم موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید ترین متاثر ہونے والے ممالک کا گڑھ ہے۔ افریقہ نے 2019ء میں فی کس کے حساب سے تقریباً 1.1 میٹرک ٹن‘ آب و ہوا کو گرم کرنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کیا جو کہ عالمی اوسط 4.7 سے بہت کم ہے۔ اس کے برعکس امریکہ نے 16.1 میٹرک ٹن فی کس کے حساب سے ان گیسوں کا اخراج کیا ہے‘‘۔ ہمارے وطن میں کوئی ہے جو عالمی استعمار کے اس طرزِ عمل پہ بات کرے۔ کوئی ہے جو چند ممالک کی طرف سے ہونے والے اس ظلم کے خلاف سوال اٹھائے۔ مصنفہ کی جرأت کی داد دینا پڑی۔ وہ پھر کہتی ہیں کہ ''موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ان ممالک کو جن میں دنیا کے غریب ترین ممالک شامل ہیں‘ سرمایہ کاری کی ضرورت پڑے گی‘ جیسا کہ سمندری دیواریں تعمیر کرنا یا کارآمد موسمیاتی زراعت اور انفراسٹرکچر کی طرف بڑھنا جو زیادہ گرمی اور شدید طوفانوں کو برداشت کرنے کے قابل ہو۔ تین نومبر‘ 2022ء کو جاری ہونے والے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی ایک رپورٹ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے جو امداد دولت مند ممالک فراہم کر رہے ہیں‘ اس کی نسبت مزید پانچ سے 10گنا زیادہ امداد کی ضرورت ہے۔مصر اور دیگر ممالک اس کانفرنس کے ذریعے دولت مند ممالک پر زور دے رہے ہیں کہ وہ موسمیاتی موافقت اختیار کرنے اور خسارے اور نقصان کی تلافی کے لیے مالی امداد فراہم کریں۔ خسارے اور نقصان کا جب بھی ذکر ہو‘ فطری طور پر مساوات کا اصول لاگو ہوتا ہے کہ جس نے جتنا غلط کیا وہ اتنا نقصان اٹھائے گا۔ جن ممالک نے گلوبل وارمنگ میں بہت کم کردار ادا کیا وہ دولت مند ممالک کے گیسوں کے اخراج کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کے ذمہ دار کیوں ہیں؟ مذاکرات کار جانتے ہیں کہ خسارے اور نقصان کی ادائیگی کا خیال تاریخی ناانصافیوں پر توجہ مبذول کروا دے گا‘‘۔
گویا وہ یہ کہہ رہی تھی کہ بات نکلے گی تو پھر رکنے نہیں پائے گی بلکہ بہت دور تک جائے گی۔ صد ہا برس کے مظالم منظر عام پر آئیں گے۔ مغربی ممالک کو خدشہ ہے کہ اس کے بعد مزید مالی معاوضے کے بارے میں بات چیت کا راستہ کھل سکتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں غلامی یا یورپی طاقتوں کے استعماری استحصال کے دوران ہونے والے نقصانات‘ سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں منعقد ہونے والی 2021ء کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس میں مذاکرات کاروں نے گیسوں کے اخراج کے اہداف اور ترقی پذیر ممالک کے لیے مالیاتی وسائل کو دوگنا کرنے کے وعدے کیے لیکن ان وعدوں کا کچھ نہ بنا۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ طاقتور کے وعدے پہ اعتبار نہیں کیا جاتا۔ انسانی اقدار کی بات کرنے والے سب سے پہلے اپنے مفاد کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اپنی سرحدوں کے حصار سے کون بلند ہوتا ہے۔ بہت کم لوگ ہوں گے جن کے دل پہ اس وقت چوٹ پڑتی ہو جب کہیں اور بستیاں تہ و بالا ہونے لگیں۔ کسے کیا خبر کہ اپنے بچے کو ڈھونڈتی ہوئی ماں کا انتظار کب ختم ہوگا اور پانی کی لہروں میں گم ہوتے ہوئے بہن بھائی کب واپس آئیں گے۔ پاکستان کی دور افتادہ بستیوں میں آنے والی قیامت پہ سوا ہمارے کوئی اور آنکھ اشکبار نہیں ہوگی۔ ہمیں بین الاقوامی مدد پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنی مدد کے لیے خود ہی اٹھنا پڑے گا۔ اب تک ہم نے اس سفر میں جو کچھ دیکھا اس کا حاصل یہی تھا۔ اگر ہم نے یہ سب نہ کیا تو امید کی یہ کشتی ساحل پہ نہیں پہنچے گی۔ پھر وہی شعر:
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں