5فروری کوجماعتِ اسلامی کے قائدعبدالقادرمُلا کو 1971ء کی خانہ جنگی کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم کی پاداش میں عمر قید کی سزا سنائے جانے کے بعد بنگلہ دیش میں فسادات اور بد امنی کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں کئی افراد قتل اور زخمی ہو چکے ہیں۔ ان ہنگاموں کے پسِ منظر میں گزشتہ چند برسوں کے دوران لا تعداد عام ہڑتالیں اور محنت کشوں کے پرتشدد مظاہرے شامل ہیں۔حالیہ مہینوں میں بنگلہ دیش کی برآمدات اور معیشت کی اہم بنیاد کپڑے کی صنعت کی فیکٹریوں میں آتش زدگی کے دوران بہت سے محنت کش جل کر ہلاک ہوئے جن میں اکثریت خواتین کی تھی۔ 1971ء کی جنگ کے بعد بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا۔ عوامی لیگی حکومت کے مطابق اس جنگ میں تیس لاکھ انسان مارے گئے اور کئی ہزار بنگالی عورتیں مشرقی پاکستان میں عوامی بغاوت کو کچلنے پر مامور فوجیوں کے ہاتھوں زیادتی کا نشانہ بنیں۔ دسمبر کے مہینے میں بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا اور13روزکی جنگ کے بعد پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے اور ترانوے ہزار افراد جنگی قیدی بنا لیے گئے۔یہ چالیس برس قبل کے ہنگامہ خیز واقعات کے بارے میں بھارت اور بنگلہ دیشی حکمران طبقات اور دانشوروں کا سرکاری نکتہ نظر ہے۔ پاکستانی ریاست کی کہانی میں حسبِ معمول بھارت کو جارحیت کا مرتکب اور پاکستان کے دو لخت ہونے کا ذمّہ دار بتایا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ طرفین اپنی حکمران اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے واقعات کو مسخ کر کے پیش کرتے ہیں۔ متحدہ پاکستان میںحکومت کے خلاف اُٹھنے والی تحریک کا آغاز مشرقی پاکستان سے نہیں بلکہ مغربی پاکستان کے فوجی شہر راولپنڈی میں ہوا تھا جہاں شہر کے مضافات میں طلباء کے ایک مظاہرے پر پولیس کی فائرنگ سے پولی ٹیکنیک کالج کا ایک طالبِ علم ہلاک ہو گیا۔اس واقعہ نے ایک عوامی تحریک کو مشتعل کر دیا جو ملک کے دونوں حصّوں میں پھیل گئی۔جلد ہی یہ انقلابی طبقاتی جدوجہد میں بدل گئی۔مشرقی پاکستان میںایک مائو نواز اور نیشنل عوامی پارٹی کے لیڈر مولانا عبدالحمید بھاشانی اس تحریک کے مرکزی رہنما کی صورت میںسامنے آئے۔تحریک میں تیزی کے ساتھ ریاستی ڈھانچے اور نظام کو خطرہ لاحق ہونا شروع ہو گیا۔ایوب خان نے چینیوں کا سہارا لیا جنہوں نے بھاشانی کو پیچھے ہٹنے کی ہدایت کی۔سوشلسٹ انقلاب کے داعی بھاشانی کی کنارہ کشی طبقاتی جدوجہد کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا جو اس جدوجہد کے راستے سے ہٹ جانے کی وجہ بنا۔ مشرقی پاکستان میں بنگالی عوام سخت ریاستی جبر کا شکار تھے۔ قومی محرومی کا احساس شدید تھا۔اس وجہ سے جدوجہد طبقاتی بنیادوں سے ہٹ کر قومی بنیادوں پر چلی گئی۔سامراجیوں اور بھارت کے حکمران طبقے نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ وہ مشرق میں جاری طبقاتی جدوجہد کی پر زور موجوں کے مغربی بنگال میں داخل ہونے سے خوفزدہ تھے جہاں پہلے ہی بہت بے چینی تھی۔ایسا ہونے کی صورت میں سارا جنوبی ایشیا اور برِ صغیر ایک انقلابی طوفان کی لپیٹ میں آ جاتا۔ان حالات میں ایک بورژوا نعرہ باز رہنما شیخ مجیب الرحمٰن قومی جدوجہد کی قیادت میں آ گیا۔وہ سرمایہ داری کا سخت حامی تھا اور اسکے ہندوستانی بورژوازی کے ساتھ مراسم تھے۔ 31مارچ 1971ء کو پیرس سے شائع ہونے والے با اثر اور کثیر الاشاعت فرانسیسی اخبار ’’لے مون‘‘ میں شائع ہونے والے اے ایف پی کو دیے گئے انٹر ویو میں مجیب نے شکوہ کیا کہ ’’کیا مغربی پاکستان کی حکومت نہیں جانتی کہ صرف میں ہی مشرقی پاکستان کو کمیونزم سے بچا سکتا ہوں‘‘۔ مشرقی بنگال پر ہندوستانی فوج کے قبضے کا مقصد اسے آزاد کرانا نہیں تھا۔ اس کا حقیقی مقصد محنت کشوں، کسانوں اور نوجوانوں کی سوویتوں یا پنچائتوں کو کچلنا تھا جو جے ایس ڈی اور بائیں بازو کی دیگر تنظیموں کی قیادت میں عوامی جدوجہد کے ذریعے آزاد کرائے گئے علاقوں میں خود رو‘ طور پر قائم ہو گئی تھیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ پاکستانی فوج کی جانب سے عوامی تحریک کو کچلنے میں البدر اور الشمس نامی مسلح جتھوں میں شامل جماعت اسلامی کے کارکن شریک تھے۔ پاکستانی فوج کے اس ’آپریشن بلِٹز‘ میں جماعت کی شمولیت کو اس وقت مشرقی پاکستان کے ضلع دنیا پور میں بٹالین کمانڈر میجر جنرل ارشد حکیم نے اپنی کتاب ’پاک و ہند کی جنگ‘ میں ان الفاظ میں بے نقاب کیا ہے کہ ’’ فوجی کارروائی کے بعد جماعتِ اسلامی کے (امیر) مولانا طفیل محمدہم سے ملاقات کرنے آئے…مولانا اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے مقامی ’رضاکاروں‘ کی کارکردگی کے متعلق بہت فکرمند تھے…انہوں نے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی کے کیڈروں نے ہمیشہ مشکل وقت میں فوج کو بچایا ہے‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعتِ اسلامی کے جن لیڈروں پر جنگی جرائم کی عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے وہ آزادی کی جنگ کے دوران بنگالی عوام کی تحریک کُچلنے میں ملوث رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ مقدمات بیالیس برس بعد کیوں چلائے جا رہے ہیں اور جدوجہدِ آزادی کے دوران اس کے لیڈروں کی غداری کے باوجود جماعت اب بھی بنگلہ دیش میں ایک قابلِ ذکر سیاسی قوت کیوں ہے ؟سیکولر آئین اور منظرِ عام کے لیڈروں کی سیکو لر ظاہریت کے باوجودسرمایہ دارانہ بنیادوں پر بنگلہ دیش کی آزادی یہاں کے عوام کو محرومی، اذیت اور غربت سے نجات دلانے میں ناکام ہو چکی ہے۔شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ اور خالدہ ضیا ء کی بی این پی، دونوں بڑی سیاسی جماعتیں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ریاست اور معیشت کا کنٹرول سنبھالنے والے بنگالی حکمران طبقے کی نمائندہ ہیں۔موجودہ وقت پر اِن مقدمات کو چلانے کا مقصد طبقاتی جدوجہ کی اٹھتی ہوئی نئی لہر کو روکنا ہے۔ بنگلہ دیش کے تجربے سے ثابت ہوتا ہے کہ بورژوا بنیادوں پر حاصل کی گئی آزادی سرمایہ دارانہ استحصال اور سامراجی لوٹ مار کی وجہ سے سماج کو برباد کرنے والے سلگتے ہوئے مسائل کو حل نہیں کر سکتی۔تحریک میں جمود اور سماج کی بدحالی سے پیدا ہونے والی پژمردگی میں بنیاد پرستی فروغ پاتی ہے۔شاہ باغ چوک میں مظاہرے کرنے والے ہزاروں افراد کی اکثریت کا تعلق پیٹی بورژواز ی سے ہے جو ایک طرح سے اپنی جھنجھلاہٹ کے جذبات کا ا ظہار کر رہے ہیں جس کی وجہ بڑھتا ہوا سماجی و معاشی بحران ہے جس کی زد میں اب درمیانے طبقات بھی آنے لگے ہیں۔ اسلامائیزیشن کے پر زور حامیوں کا تعلق بھی ایسے ہی طبقات سے ہے اور انہیں بھی ایسی ہی بے چینی ہے۔بد قسمتی سے بائیں بازو کی قیادت کی اکثریت سیکولرازم اور جمہوریت کے نام پر بنگالی عوام کی نجات کی خاطر درکار سماجی و معاشی تبدیلی سے دستبردار ہو چکی ہے۔گزشتہ چار دہائیوں میں بنگلہ دیش میں نوجوانوں اور پرولتاریہ نے استحصال کے خاتمے کے لیے بہت جدوجہد کی اورکئی لڑائیاں لڑی ہیں۔ جس حقیقی سماجی و معاشی آزادی کی انہیں جستجو ہے، اسکے حصو ل کی خاطر انہیں ایک ا نقلابی پروگرام، پارٹی اور قیادت کی ضرورت ہے۔