’’بدعنوانی‘‘ کا اتنا شور ہے لیکن جتنا یہ شور بڑھتا جاتا ہے بدعنوانی میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔ بدعنوانی کا خاتمہ کرنے والے ادارے‘ محکمے اور اشخاص خود سب سے زیادہ بدعنوان ہو کر رہ گئے ہیں۔ سماج کا معاشی دھارا اسی بدعنوانی اور کالے دھن کی رقم سے گردش کر رہا ہے جس کے بارے میں اس سے مستفید ہونے والے ہی سب سے زیادہ واویلا کر رہے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں سرکاری اور سماجی زندگی کا ہر پہلو بدعنوانی کی دولت سے چل رہا ہو وہاں اس کو ایک ایشو بنا کر کس طرح اصل مسائل اور ان کے حل سے توجہ ہٹانے کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میںکرپشن اور معیشت پر کالے دھن کا غلبہ بنیادی طور پر وہاں پھیلی ہوئی بے پناہ ذلت اور محرومی کی شدت کی پیداوار ہوتا ہے۔ درحقیقت یہ بدعنوانی بحران کی وجہ نہیں بلکہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی مہلک بیماری کی ایک علامت ہے۔ وہ نظام جو جدید صنعتی معاشرہ نہ بنا سکے‘ سماجی ترقی میں مکمل ناکام ہو جائے اور خوشحالی کی بجائے تباہ کاریوں کا اکھاڑا بن جائے۔ ایک کرپٹ معاشرے میں کرپشن کے خاتمے کو ہی مسائل کا حل بتا اور بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ گو اس سے حکمران طبقات کے کچھ افراد انفرادی طور پر بدنام تو ضرور ہوتے ہیں لیکن عمومی طور پر اس نظام‘ جو اس محرومی اور ذلت کو جنم دیتا ہے‘ میں بدعنوانی کے بغیر زندگی گزارنا محال ہو جاتا ہے۔ اس نظام میں بدکاری‘ جبر‘ استحصال اور بربادیوں کی پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ اس کے خلاف ہونے والی طبقاتی جدوجہد کو تذبذب کا شکار اور گمراہ کیا جاتا ہے۔ اس اذیت ناک بحران کے خاتمے کے لیے اس کی جڑوں اور بنیادوں کو محفوظ بنا لیا جاتا ہے۔ اس معاشرے میں کون کرپٹ نہیں۔ بدعنوانی اس معاشرے کی رگوں اور شریانوں میں کینسر کی طرح سرایت کر چکی ہے۔ اس کے بغیر گزارا ہی نہیں۔ حکمران طبقات صرف اس لیے اپنے مالیاتی، سماجی اور سیاسی رتبے کو قائم رکھ سکتے ہیں کہ اس بیمار نظام میں وہ بدعنوانی میں ملوث ہونے پر ’’مجبور‘‘ ہیں لیکن ان کی ہوس کی یہ ’’مجبوری‘‘ ان کی عادت‘ ان کی خصلت اور ان کا کردار بن جاتا ہے۔ ریاست اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے کرپشن کو تحفظ بھی فراہم کرتی ہے اور اس کے عوض اس میں حصہ داری کو مسلسل بڑھانے کے درپے بھی رہتی ہے۔ اس کے اہل کار اوپر سے نیچے تک بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں اور اس عمل کے کئی دہائیوں سے مسلسل اضافے سے یہ ہر ادارے میں باقاعدہ اور منظم متوازی ادارہ بن چکی ہے جبکہ ہر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ واحد ایماندار اور رشوت نہ لینے والا ہے۔ مختلف اداروں کے بارے میں مختلف تاثرات پائے اور پھیلائے جاتے ہیں لیکن کرپشن کے بغیر اب کسی ادارے کا چلنا‘ اس کا وجود اور کارکردگی ممکن نہیں رہی۔ ہر رقم جوکہیں پر لگتی ہے وہ کہیں سے نکلتی بھی ہے۔ پولیس بدنام تو بہت ہے لیکن جو حوالدار یا تھانیدار رقم لیتا ہے اس کو اس کا بڑا حصہ اوپر تک پہنچانا بھی ہوتا ہے۔ بدعنوانی کو بے نقاب کرنے کا بیڑا اٹھانے والوں کا اپنا وجود کرپشن کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ وہ ان موضوعات سے عوام کی رائے بنانے کی کوشش کرتے ہیں جن کی زندگی اسی نظام کی بندش کے اندر شروع اور اسی میں ختم ہوتی ہے۔ محنت کشوں کا استحصال ہو‘ غربت اور ذلت کی کیفیات ہوں‘ سیلاب زدگان کی بدحالی ہو‘ بے روز گاری اور مہنگائی ہو‘ خواتین پر جبر اور ان کا جنسی استحصال ہو‘ مزدوروں اور دہقانوں کی اذیت ناک مشقت ہو یا اس نظام کی دوسری بربادیاں ہوں، ان کے ’’حل‘‘ اسی بدعنوان نظام معیشت میں مقید کر کے رکھ دیئے جاتے ہیں۔ کرپشن کے ایشوز کو ابھار کر اسی کرپٹ نظام میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ درمیانے طبقات میں کرپشن کا بہت شور ہوتا ہے۔ یہ لااُبالی طبقات اس شوروغل میں مختلف قسم کی بدعنوانیوں میں بھی اسی انہماک سے عمل پیرا ہوتے ہیں جتنی شدت سے یہ اس بدعنوانی کے خلاف چلاّ رہے ہوتے ہیں۔ اساتذہ ٹیوشن کے ذریعے کرپشن پر مجبور ہوتے ہیں‘ نوکریاں بکتی ہیں اور بک کر پھر اپنے اخراجات پورے کرتی ہیں۔ فن‘ ادب اور فیشن کی دنیا میں تو پتہ نہیں کس کس قسم کی رشوت دے کر شہرت حاصل کی جاتی ہے اور پھر یہ شہرت اپنے بھائو لگواتی ہے اور یہ مشہور شخصیات پھر اسی شہرت کی ذلت میں غرق ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ دولت کا ذریعہ بن چکی ہوتی ہے۔ مالیاتی اور تکنیکی طور پر کمزور اور لاغر صنعت کار اور سرمایہ دار اگر ٹیکس چوری نہ کریں تو پھر ان کا منافع خسارے میں بدل جاتا ہے۔ آڑھتی‘ چھوٹے کاروباری اور دکاندار اگر ذخیرہ اندوزی اور ناپ تول میں ہیرا پھیری نہ کریں تو گزارا کیسے کریں۔ لیکن محنت کش طبقہ جن حالات میں اس نظام نے مجبور اور محکوم کر دیا ہے اس کے لیے بدعنوانی کرنا اگر وہ چاہے بھی تو ممکن نہیں۔ جہاں ان کا دائو لگتا ہوگا تو اس سماجی اخلاقیات و اقدار کی دلدل میں وہ بھی شاید گریز نہیں کرتے ہوں گے لیکن ان کے لیے اس کے مواقع بہت محدود ہوتے ہیں۔ ان کے پاس اپنی محنت بیچنے کے سِوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ اس کیفیت میں بدعنوانی کا خاتمہ ایک دھوکہ اور فریب بن کر رہ گیا ہے۔ ہندوستان کے سب سے امیر آدمی مکیش انبانی نے ایک نجی محفل میں کہا تھا: ’’کانگریس میری دکان ہے‘‘۔ اسی طرح پاکستان میں بھی حکمران اشرافیہ کی سیاسی پارٹیاں جو تمام کی تمام کہیں نہ کہیں اقتدار میں رہتی ہیں سرمائے کے مختلف جغادریوں کی دکانیں بن چکی ہیں۔ کرپشن کے ایشو پر ہونے والی سیاست خود اس کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ پارٹیاں اب نظریات پر نہیں پیسے کے زور پر چلتی ہیں۔ پارٹی ٹکٹوں سے لے کر الیکشن لڑنے تک کے نرخ اسلحے کی طرح سب سے زیادہ چڑھ گئے ہیں لیکن یہ سب سے منافع بخش کاروبار بھی بن گیا ہے۔ اسی لیے جہاں صنعتی پیداوار اور زراعت سے زیادہ منافع حاصل نہ ہو سکے وہاں قبضہ گروپوں‘ منشیات کے کاروبار اور دوسرے جرائم کے ذریعے تیزی سے دولت حاصل کر کے سیاست میں آنا ایسا فن بن گیا ہے جس میں سبقت زیادہ تر مجرم لے جاتے ہیں چنانچہ بعض نو دولتیے اور بدعنوان ترین افراد سیاست دان بن چکے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہاں کی بورژوازی جہاںگماشتہ ہے وہاں اس سے زیادہ ایک لمپن (غنڈہ گرد) کردار کی بھی حامل ہو چکی ہے۔ حکمرانوںکی یہ ’ثقافت‘’تہذیب‘اور اقدار و اخلاقیات عام حالات میں پورے سماج کی تمام پرتوں پر حاوی ہو جاتی ہیں۔ اسی لیے یہاں سیاست نظریات سے عاری ہے۔ سماجی قدریں بدتمیزی اور بدتہذیبی پر مبنی ہیں۔ اخلاقیات‘ منافقت اور فریب بن چکی ہے۔ سچ کو جھوٹ بنا دیا گیا ہے اور جھوٹ اور دھوکہ دہی کامیابی اور کامرانی کا نشان ہو گئے ہیں۔ رشتوں سے خوشیاں نکل گئی ہیں‘ جذبوں کے احساس مر رہے ہیں‘ تہواروں اور میلوں کی رونقیں دلشاد نہیں رہیں۔ لگتا ہے جیسے پورے معاشرے سے خوشیاں لُٹ گئیں ہوں۔ ایسے نظام میں جہاں انسانیت سسک رہی ہو‘ اجتماعی خاندانی خود کشیاںوبا بن رہی ہوں‘ لاعلاجی اور اذیت مقدر بنا دیا جائے، اس میں بڑا آدمی بننا اور صاحب اقتدار ہونے کے لیے ان بربادیوں کو تقویت دینا لازم ہے۔ ایسی ذلت اور رسوائی کے سماج میں اقتدار ایک لعنت کے سوا کچھ نہیں۔ ساحر لدھیانوی نے کہا تھا : یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے لیکن اتنی بربادی چل نہیں سکتی۔ اتنا دکھ‘ اتنا عذاب یہ محنت کش لمبے عرصے تک برداشت نہیںکر سکتے۔ لاوا سلگ رہا ہے۔ ایسی بربادیوں اور ذلتوں میں بھی لوگ سچ پر کھڑے ہیں۔ لڑ بھی رہے ہیں۔ منظم بھی ہو رہے ہیں۔ شاید ان کا وقت کسی اگلی گلی کے موڑ پر ہی کھڑا ہو؟