"DLK" (space) message & send to 7575

سربجیت سنگھ کا قتل: تخریب یا ترکیب؟

گزشتہ جمعہ کے روز کوٹ لکھپت جیل میں چند قیدیوں کی جانب سے سزائے موت کے ہندوستانی قیدی سربجیت سنگھ پر کیے گئے شدید حملے اور جناح ہسپتال لاہورکے انتہائی نگہداشت یونٹ میں اس کی موت کے بعد ایک مرتبہ پھر ہندوستان اور پاکستان کے باہمی تعلقات تنائو کا شکار ہو گئے ہیں۔سربجیت پر اینٹوں سے حملہ کیا گیا جس سے اس کے سر کی ہڈی کئی جگہ سے ٹوٹ گئی اور وہ شدید زخمی ہوگیا۔ سربجیت پاکستانی پنجاب میں1990ء میں ہونے والے دھماکوں میں ملوث تھا جن میں 14 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس کے خاندان کے مطابق وہ شراب کے نشے میںغلطی سے سرحد پار کر گیاتھا۔ سربجیت کے وکیل کے مطابق، 2001ء میں اسلامی بنیاد پرستوں کی جانب سے ہندوستانی پارلیمان پر حملے کے مبینہ مجرم کشمیری علیحدگی پسند محمد افضل گرو کو دہلی میں دی جانے والی پھانسی کے بعد سے سر بجیت سنگھ کو دھمکیاں مل رہی تھیں۔ 2001ء کے حملے میں 13افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات بہت کشیدہ ہو گئے اور دونوں ممالک میں جنگی جنون کو ہوا دی گئی۔ سرحدوں پر فوجیں آمنے سامنے تھیں اور وزیرِ اعظم واجپائی کی بی جے پی سرکار پر رجعت پسند میڈیا اور دائیں بازو کی مذہبی پارٹیوں کی جانب سے پارلیمان پر مسلح حملے کے جواب میں پاکستان پر حملہ کر دینے کے حوالے سے بہت دبائو تھا۔ایک موقع پر دونوں ایٹمی طاقتوں کے مابین جنگ ناگزیر دکھائی دے رہی تھی لیکن امریکی سامراج کی مداخلت نے واجپائی کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔تاہم ایسا بہت سخت کوششوں کے بعد ہی ممکن ہو سکا اور کئی سامراجی کارپوریشنوں کو واجپائی کو جنگ کی صورت میں ہندوستان سے اپنا سرمایہ باہر نکالنے کی دھمکی دینا پڑی۔ تصادم کی صورت میں دونوں ممالک میں سرمایہ کاری کرنے والی سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو یقینا بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑتا۔ اسی طرح پاکستان میں بھی دایاں بازو جنگی جنون کو ہوا دینے میں پیش پیش تھا،یہاں تک کہ پاکستان میں نام نہاد سیکو لر اور لبرل پارٹیاں بھی نفرت، جنگ اور بربادی پھیلانے کی اس مہم میں شامل تھیں۔ پاکستان میں مذہبی جماعتوں اور انتہا پسند تنظیموں کو کبھی وسیع تر سماجی بنیادیںحاصل نہیں ہو سکیں۔ ملک بھر میں انتہا پسندوں کے ہاتھوں ہونے والے بے گناہ انسانوں کے قتل عام اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے اس کی خاموش حمایت کی وجہ سے ان کا سیاسی اثرو رسوخ اب اور بھی کم ہوگیا ہے۔2001ء میں بھی ان کے رجعتی غبارے سے بہت جلد ہوا نکل گئی تھی۔ منموہن سنگھ کی موجودہ حکومت ماضی کی بی جے پی سرکاروں سے زیادہ مختلف نہیں‘ جس کا اظہار افضل گرو کی آدھی رات کو عجلت میں پھانسی اور جیل میں ہی اس کی تدفین سے ہوتا ہے۔آخری ملاقات تو درکنار گرو کے خاندان کو اس کی پھانسی کے بارے میںمطلع تک نہیں کیا گیا۔ افضل گرو کی پھانسی متنازعہ تھی اور ہندوستان کے غالب میڈیاکے کچھ حصوں نے اس سے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کیا جبکہ دانشوروں کے ایک قابلِ ذکر حلقے‘ جن میں زیادہ تر بائیں بازو کے لوگ شامل ہیں‘ نے اس فیصلے کو سراسر تعصب پر مبنی قرار دیا۔ سربجیت سنگھ کے قتل کی کہانی بھی اتنی ہی مبہم ہے۔وہ کون سے ’قیدی‘ تھے جنہوں نے اس پر جان لیوا حملہ کیا؟ایک درجن سے زائد افراد کی موت کے ذمے دار ایک غیر ملکی جاسوس کو عام قیدیوں کے ساتھ رکھا ہی کیوں گیا؟ کئی متضاد توجیحات سامنے آرہی ہیں۔ سیکولرازم کا راگ الاپنے والی ہندوستانی ریاست بھی کچھ مختلف نہیں۔ غرضیکہ مذہبی اور قومی شائونزم کے تعصبات دونوں اطراف کی اشرافیہ اور ان کی ریاستوں میں صاف ظاہر ہیں۔ دونوں طرف حکمران اشرافیہ ان نفرتوں کو استعمال کر تے ہوئے مصنوعی بیرونی خطرات اور مذہبی منافرت کو ہوا دے کر د اخلی بغاوتوں کو کچلتی ہے۔ یہ کوئی نیا طریقہ نہیں۔ برطانوی سامراج نے بھی مذہب کے نام پر ’تقسیم کرو اور حکومت کرو ‘کی پالیسی اپنا کر بر صغیر میں اپنے نو آبادیاتی اقتدار کو طول دیاتھا۔یہاں سے جاتے ہوئے بھی طبقاتی جدوجہد کو دبانے اور سرمایہ دارانہ لوٹ مار اور سامراجی استحصال کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے انہوں نے اسی پالیسی پر عمل کیا ۔انتہائی شاطر سامراجی رہنماونسٹن چرچل نے ہندو مسلم مخالفت کو ’’ہندوستان میں برطانوی حکمرانی کی بنیاد‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھاکہ’’اگر یہ حل ہو جائے تو وہ متحد ہو کر ہمیں نکال باہر کریں گے۔‘‘ریڈ کلِف لائن کے دونو ں جانب مذہبی رجعت کا پنپنا تقسیم کا ناگزیر نتیجہ ہے اور سامراجی ’پلان‘ کے عین مطابق ہے۔ تقسیم کے بعد ہندوستان میں ہونے والی معاشی ، سماجی اور سیاسی زوال پذیری کا اعتراف خود ہندوستان کے بانی وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو نے کیا۔ نہرو نے مائونٹ بیٹن کے بعد ہندوستان کے گور نر جنرل بننے والے بنگالی راجا گوپال اچاریہ کو مئی1948ء میں لکھا کہ ’’ہماری سیاست ہر طرح کے اصل کردار اور اخلاقی بنیادوں سے عاری ہو چکی ہے اور ہم مکمل طور پر موقع پرست بن چکے ہیں… مجھے کوئی شک نہیں کہ ہم تیزی سے گرتے ہوئے اپنے نقطۂ نظر اور عمل میں رجعتی ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘نام کے سیکولر ہونے کے باوجود، تب سے ہندوستان میں صورتحال بد ترہی رہی ہے۔پاکستان میں سول سوسائٹی اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد ’لبرل‘ ہوجانے والے سابق بائیں بازو کو لے دے کے قائداعظم محمد علی جناح کی ایک تقریر ہی ملتی ہے جس میں سیکولر ازم کا ذکر ہے۔ 7ستمبر1947ء کو قائداعظم نے کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھاکہ ’’اسلام کی سرزمین میں کمیونزم نہیں پنپ سکتا… دو عظیم جمہوری (سرمایہ دار) ممالک سے دوستی پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے جو برطانیہ اور امریکہ ہیں۔‘‘ گزشتہ پینسٹھ برسوں میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ساڑھے چارجنگیں لڑی جا چکی ہیں۔مذاکرات برائے مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔لیکن ہر مرتبہ شروع سے آغاز کرنا پڑتا ہے اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ درحقیقت دونوں ممالک کے حکمران طبقات نہ تو مکمل جنگ کر نے کے متحمل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی وہ امن برقرار رکھ سکتے ہیں۔اس چکر کے ذریعے کروڑوں انسانوں کو متذبذب اور محکوم رکھا جاتا ہے جو پہلے ہی ذلت، غربت، بیماری، دہشت گردی اور محرومی کے مارے ہوئے ہیں۔جب بھی بحران گہرا ہوتا ہے رجعتی قوم پرستی کو ابھارنے کے لیے افضل گرو اور سربجیت سنگھ جیسے ’واقعات‘ رچائے اور استعمال کیے جاتے ہیں جن کا مقصد مجبور عوام کو مایوس کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان سامراجی عسکری صنعت سے اسلحہ خریدنے والے چھ بڑے ممالک میں شامل ہیں؛ چنانچہ سامراج کا مفاد اس تنائو کو دھماکہ خیز سطح سے کچھ نیچے رکھنے میں ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ ان دو مخالف ریاستوں کے درمیان امن کی ہر کاوش کا بھی خیر مقدم کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن جعلی لڑائی اور جعلی دوستی کی یہ کیفیت زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔مجبور عوام کو اشرافیہ کی غداری کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہو گا جس نے انہیں نسل در نسل برباد کیا ہے۔ لیکن وہ سیکولر ازم، امن، عوام کے ملاپ، سرمایہ داروں کی جمہوریت اور بورژوا لبرل ازم کے کھوکھلے نعروں پر نہیں اٹھیں گے۔ان کے سلگتے ہوئے سماجی اور معاشی مسائل اور ان کے حل کی انقلابی جدوجہد ہی برصغیر کے عوام میں تحرک پیدا کرے گی۔یہ مسائل اور ان کی وجوہات پورے برصغیر بلکہ پوری دنیا میں ایک ہیں۔جب محنت کش عوام یہ جان لیں گے کہ ہندوستان اور پاکستان کے حکمرانوں کے مفادات مشترکہ ہیں تو وہ بھی طبقاتی بنیادوں پر متحد ہو کر اس ذلت، تکلیف، غربت اور محرومی کے خاتمے کی جدو جہد کریں گے۔ یہ اتحاد اشرافیہ کے استحصالی نظام کے لیے موت کا پروانہ ہو گا جوبرِ صغیر کے ڈیڑھ ارب سے زائد محکوم انسانوں کا خون، پسینہ اور آنسو نچوڑ رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں