آج کے عام انتخابات کا پاکستان کے محروم طبقات کی خواہشات اور ان کے مفادات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔کوئی بھی سیاسی جماعت سماج میں موجود طبقاتی تقسیم و تضادات پر بات کرنے کو تیار نہیں۔اس استحصالی نظام کے رکھوالے سیاست دان طبقاتی کشمکش سے اس حد تک خوفزدہ ہیں کہ کوئی بھی بڑی پارٹی انتخابی مہم میں خود کو ’غریبوں کی پارٹی‘ کہنے کی جرأت بھی نہیں کرسکی۔ مذہبی جماعتیں اور دایاں بازو جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہیںاور بنیاد پرست انتخابی مہم میں دہشت کا بازار گرم کیے خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔اطلاعات کے مطابق جماعتِ اسلامی کے سربراہ منور حسن نے کراچی میں قائداعظم محمد علی جناح کے مزار پر ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خود کو لبرل کہلانے والوں کو اقلیت قرار دے دینا چاہیے۔اس بیان نے جماعتِ اسلامی کے عزائم کو مزید واضح کر دیا ہے۔ دائیں بازو کی مسلم لیگ (ن) بھی بنیاد پرست مذہبی رجحانات کی حامل ہے، اس کے بنیاد پرست تنظیمو ں سے قریبی تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔اگرچہ اس جماعت کے کچھ لیڈر خود کو لبرل بنا کر پیش کرتے ہیں لیکن اس’ ظاہری لبرل ازم ‘سے ان کے اندر کا ملاّ چُھپ نہیں سکتا۔ عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریکِ انصاف بھی اسلامی انتہا پسندوں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ درمیانے طبقے کے نوجوانوں اورفیشن ایبل خواتین کی نمائندگی کرنے والی یہ جماعت نظریاتی اور سماجی طور پر تضادات کا ملغوبہ ہے جس سے اس کے نازک وجود اورداخلی عدم استحکام کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتاہے۔عوامی نیشنل پارٹی بنیادی طور پر پشتون قوم پرست جماعت ہے جو کچھ عرصے سے امریکی سامراج کی اتحادی بن کر طالبان کے خلاف خونریز لڑائی میں شامل ہے۔دہشت گردی کے کئی حملوں میں اس کے لیڈر اور کارکن ان رجعتی جنونیوں کے ہاتھوں ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔ایم کیو ایم ایک لسانی جماعت ہے جو1947ء میں ہندوستان سے آئے اردو بولنے والے مہاجرین میں مقبول رہی ہے۔یہ پارٹی گزشتہ بیس برس سے فوجی اور سول حکومتوں میں اقتدار کا حصہ رہی ہے۔ فی الوقت اس کی سماجی بنیادیں بڑی حد تک کمزور ہو چکی ہیں لیکن ریاستی اقتدار اور مسلح کارکنوں کے سہارے اپنا تسلط قائم رکھنے کی کوشش میں ہے۔ ایم کیو ایم خود کو سیکولر اور لبرل قرار دیتی ہے اور کراچی میں جاری صورتحال کا اہم فریق ہونے کے باوجود خود کو جارح کی بجائے مجروح بنا کر پیش کرتی رہی ہے، یہ ایم کیو ایم کا پرانا طریقہ واردات ہے۔ کچھ عرصے قبل کراچی میں جاری بھتہ اورقبضہ مافیا کی باہمی لڑائی میں ایک نئے فریق کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ طالبان ہیں ،جن سے کراچی میں نہ صرف ایم کیو ایم اور اے این پی بلکہ دوسرے سیاسی عناصر کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام ایک اور فرقہ وارانہ مذہبی پارٹی ہے جو رجعت پسندی اور امریکی سامراج کے درمیان موقع پرستی کا کھیل رچا کر جمہوریت کے نام پر ریاستی اقتدار میں شراکت کے ذریعے لوٹ مار میں زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کرنے میں مگن ہے۔ان کی انتخابی ریلیوں پر بھی حملے ہوئے ہیں جس کے پیچھے دہشت گرد گروہوں کی باہمی چپقلش کارفرما ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں آزاد امیدوار ہیں جو اپنی سیٹوں کے لیے سب سے اونچی بولی کے منتظر رہیں گے۔کالے دھن کی معیشت میں حصہ دار سرکاری اور غیر سرکاری آقا انہیں اپنی لوٹ مار میں معاون سیاسی جماعتوں کے لئے منہ بولے دام دے کر خریدیں گے۔در حقیقت یہ تمام لبرل اور دائیں بازو کی جماعتیں حکمران طبقے کے مختلف حصوں اور دھڑوں کی نمائندگی کر تی ہیں جو اس ملک کی گھٹتی ہوئی دولت اور وسائل میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لیے مسلسل بر سرِ پیکار رہتے ہیں۔ روایتی طور پر محنت کش طبقات اور غریبوں کی نمائندہ سمجھی جانی والی پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت نے خصوصاً گزشتہ پانچ سالہ دورِ حکومت میں بڑی حد تک اپنے غریب دوست ہونے کے مبہم سے تاثر کو بھی ختم کر ڈالا ہے ۔قیاد ت کولاحق خطرات کی وجہ سے پیپلزپارٹی نے جلسے جلوسوں کی کوئی روایتی انتخابی مہم نہیں چلائی۔اس کی انتخابی مہم الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میںاربوں روپے کے اشتہارات تک محدود رہی ہے۔انتخابی مہم پر بے پناہ اخراجات کرنے والے کچھ ’’کاروباری حضرات‘‘اس کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی صورت میں ملنے والی مراعات اور لوٹ مار کے مواقع پر نظر لگائے بیٹھے ہیں۔پیپلز پارٹی کی میڈیا مہم بھی ٹھوس معاشی و سیاسی پروگرام کی بجائے نوحوں ، مرثیوں اور نان ایشوزپر مشتمل ہے۔ آئینی ترامیم، سٹاک مارکیٹ کا ابھار، خیراتی پروگرام اورگزشتہ حکومت کی جانب سے کئے گئے دوسرے سطحی اقدامات سے عوام کا کیا تعلق ہے؟انقلابی سوشلزم کے نظریے کی بنیاد پر قائم ہونے والی جماعت نے انتخابی منشور سے ’سوشلزم‘ کے لفظ کو بھی حذف کردیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دلانے والے ضیاء الحق کی باقیات کے ساتھ سیاسی اتحاد اور پارٹی کے اہم عہدوں پر ان عناصر کو براجماں کر کے پیپلز پارٹی کی قیادت نے ثابت کردیا ہے کہ وہ پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ منشور سے انحراف کر کے موقع پرستی کی آخری حدوں تک چلی گئی ہے۔حالیہ انتخابات میں اس قیادت نے پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کو انتخابی ٹکٹ دینے سے صاف انکار کر دیا حالانکہ ان کی جیت کے روشن امکانات موجود تھے۔اس کی اہم ترین مثال حلقہ این اے 35 ملاکنڈ سے امید وار غفران احد ، این اے257ملیر کراچی سے ریاض حسین لُنڈ اور این اے150سے الیاس خان ہیں۔غفران احد ملاکنڈ کے ضلع ناظم رہے ہیں اور انہوں نے 2009ء کی خانہ جنگی میں عوام کی خدمت کے لیے دن رات ایک کئے رکھا۔ہر مقامی شہری ،طالبان اور فوجی جارحیت کے خلاف ان کی جدوجہد کا گواہ ہے۔ریاض لُنڈ کے حلقے میں 2002ء میں پیپلز پارٹی کا ووٹ17000تھا جسے ریاض لُنڈ 2008ء میں بڑھا کر47000تک لے گئے۔ 2008ء کے انتخابات میں ایم کیو ایم کے خلاف ریاض حسین لُنڈ کی شاندار انتخابی مہم آج بھی ملیر کے عوام کے ذہنوں پر نقش ہے۔ الیاس خان نے1993ء کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر27000ووٹ حاصل کیے اور اس مرتبہ حلقہ این اے150میں وہ فیورٹ امیدوار تھے۔یوں پیپلز پارٹی پر مسلط اس رجعتی ٹولے نے اس سخت ترین الیکشن میں پارٹی کے اندر انقلابی سوشلزم کے نظریات کو دبانے کے لئے قومی اسمبلی کی تین اہم نشستوں کی بلی چڑھانے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ ایسے کئی اور کارکن موجود ہیں جنہوں نے پارٹی قیادت پر براجمان ٹولے کے ہاتھوں پارٹی کے سوشلسٹ نظریات سے وفاداری کی سزا پائی ہے۔ ان انتخابات سے کوئی تبدیلی نہیں آنے والی۔بوسیدہ پاکستانی سرمایہ داری بکھرتی جا رہی ہے۔آنے والے وقت میں سماجی اور معاشی بحران بد تر ہو گا جس سے مجبور عوام کی اذیت اور تکالیف میں اضافہ ہو گا۔جب تمام راستے بند ہو جائیں گے تو محنت کش عوام اور نوجوانوں کے پاس سوشلسٹ انقلاب کے سوا کوئی اور متبادل نہیں ہو گا۔