"DLK" (space) message & send to 7575

بلوچستان کی بیگانگی

گزشتہ ہفتے منعقد ہونے والے ’صاف اور شفاف‘ عام انتخابات میں کچھ پولنگ سٹیشنوں پر سو فیصد سے زیادہ اور کچھ جگہوں پر دو سو فیصد ٹرن آئوٹ سُننے میں آیا۔ بلوچستان میں خاص طور پر صورتحال اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز رہی۔ اخبارات میں چھپی ایک رپورٹ کے مطابق ’’اگرچہ الیکشن کمیشن کے مطابق ووٹ ڈالنے کی شرح 50فیصد سے زیادہ تھی؛ تاہم مقامی بلوچ سیاسی کارکنان کے مطابق یہ شرح محض 3فیصد رہی۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے دھمکیوں اور بلوچستان نیشنل فرنٹ، بلوچ ری پبلیکن پارٹی جیسی قوم پرست جماعتوںکی جانب سے بلوچ اکثریتی علاقوں میں پہیہ جام ہڑتالوں کی وجہ سے انتخابات سے قبل جلسے جلوس ممکن نہیں ہو سکے اور الیکشن کے روز صوبے بھر میں ووٹ ڈالنے والوںکی شرح بہت ہی کم رہی۔ مورخین کے مطابق بلوچستان کے زیادہ تر حصے کو 1948ء میں پاکستان میں شامل کیا گیا اور تب سے یہ صوبہ میدانِ جنگ بنا ہوا ہے جہاں مسلسل خلفشار اور مسلح لڑائیاں معمول بن چکی ہیں۔ 1970ء کی دہائی تک اس صوبے میں بائیں بازو کے رجحانات اور سوشلسٹ نظریات حاوی تھے۔ بیرونی حمایت سے فوجی آپریشن کے ذریعے ان عناصر کو بے دردی سے کچلا گیا۔حالیہ عرصے میں بلوچستان میں ریاستی جبر میں اضافہ ہوا۔ حالیہ انتخابات کے نتائج بد انتظامی کا شکار نظر آتے ہیں جس کی وجہ اندرونی طاقتوں اور بیرونی مفادات میں ٹکرائو ہے۔ دائیں بازو کی ایک جماعت کا برسراقتدار آنا سامراجی آقائوں کے لیے خطرنات صورتحال کو جنم دے سکتا ہے کیونکہ اس صورت میں سامراجی اداروں کے تباہ کن احکامات، پچھلے پانچ سالوں کی نسبت زیادہ بے دردی سے سماج پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائے گی جس سے سطح کے نیچے پنپتا ہوا عوامی غم و غصہ اشتعال انگیز سطح تک پہنچ سکتا ہے۔ اسی طرح ریاست اور سیاسی اشرافیہ کے مابین اندرونی تضادات بھی پھٹ سکتے ہیں۔ اس صورت میں سماج میں عدم استحکام اور انتشار بڑھے گا اور یہ سامراجیوں اور حکمران طبقے کے مفادات کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ مسلم لیگ )ن) بلوچستان کی صوبائی حکومت میںپختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے ساتھ شریک اقتدار ہو گی۔ کچھ مخصوص عناصر بلوچستان میں بلوچ پشتون تنازعے کو ہوا دیتے رہے ہیں۔ اس عمل کو بہت آگے تک نہیں لے جایا گیا، لیکن موجودہ صورتحال میں یہ اختلاف بے قابو ہو کر بلوچستان کے عوام کو برباد کردینے والی خونریز لڑائی میں ایک نئی جہت کا اضافہ کر سکتا ہے۔اپنے پیش رو کی طرح ہو سکتا ہے میاں نواز شریف بھی ’آغازِ حقوقِ بلوچستان‘ جیسا کوئی اعلان کریں۔ یہ ماضی میں ریاست کے مختلف اداروں کی جانب سے روا رکھے گئے جبر پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہو گی۔ بلوچستان کے عوام پہلے ہی، درپردہ (پراکسی) جنگوں کے ہاتھوں تاراج ہو رہے ہیں۔ماضی میں سماجی آزادی کے حصول کے لیے بلوچ نوجوانوں اور مجبور عوام کی یہ لڑائی بعض ریاستی قوتوں کے خلاف تھی لیکن موجودہ عہد میں کئی دوسرے عناصر کی شمولیت نے صورتحال کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔سامراجی قوتوں کے جنگجو گروہ مختلف نظریاتی لبادے اوڑھ کر جبر اور بربریت کر رہے ہیں۔ہزارہ برادری کا قتلِ عام اسی پاگل پن کا نتیجہ ہے۔ ان جنونی دہشت گرد گروہوں کو نہ صرف اندرونی سطح پر حمایت حاصل ہے بلکہ بعض بیرونی ممالک بھی ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی انہدام کے بعد سے سرمایہ دارانہ نظام کے بڑھتے ہوئے بحران کے باعث کارپوریٹ کمپنیاں گِدھوں کی طرح وسائل کی لوٹ مار اورمختلف زمینی خطوں کا استحصال کرنے کے لیے نئے علاقوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔معدنی وسائل سے مالا مال بلوچستان بھی ان میں سے ایک ہے۔ چین نے پاکستانی ریاست کے اندر کلیدی جگہ بنا لی ہے۔ پاکستانی فوج اسلحے اور سازو سامان کا42فیصد چین جبکہ36فیصد امریکہ سے خریدتی ہے۔ چین سونے، تانبے، لتھیئم اور دیگر معدنی ذخائر میں اپنی سرمایہ کاری بڑھانا چاہتا ہے جس کی مالیت 1.5ہزارسے لے کر 3 ہزار ارب ڈالر ہے۔ اس کے ساتھ ہی چین گوادر کی بندر گاہ کے ذریعے خلیج اور مشرقِ وسطیٰ کی منڈیوں تک زیادہ منافع بخش تجارتی راستے بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ گوادر سینکیانگ شاہراہ‘ جسے نئی شاہراہِ ریشم بھی کہا جارہا ہے ، کی تعمیر سے چین اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان تجارتی فاصلہ 2000کلو میٹر کم ہو جائے گا۔چین کا خطے میں بڑھتا ہوا اثرورسوخ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ بلوچستان میں جاری نئے گریٹ گیم میں امریکہ و چین، مغربی کانکنی کی کمپنیاں، ہندوستانی اور روسی کارپوریشنیں، سب حصہ دار ہیں۔ امریکی سامراج کچھ آزادی پسند مسلح گروہوں کی پشت پناہی کررہا ہے۔گزشتہ برس ریاست کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے دائیں بازو کے امریکی رکنِ پارلیمان ڈانا رور بیکر اور پارلیمانی سب کمیٹی برائے خارجہ امور کے رکن نے امریکی کانگریس میں ایک قرارداد پیش کی جس کی رو سے’’بلوچستان کے عوام کو حقِ خود ارادیت اور علیحدہ ملک کا حق حاصل ہونا چاہیے۔‘‘ افغانستان اور عراق کو تاراج کرنے والے امریکی سامراج کے ایک نمائندے کا ایسا بیان، بلوچستان کے نوجوانوں اور عوام کی توہین ہے جو نسل در نسل اپنی قومی اور سماجی و معاشی نجات کے لیے جدوجہد کرتے اور عظیم قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔جدوجہد میں شامل بلوچ نوجوان آج ایک بار پھر 1960ء اور1970ء کی دہائی کے نظریات کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔وہ سامراج کی مکارانہ لفاظی اور دعووں کے فریب میں نہیں آئیں گے۔تاریخ گواہ ہے کہ سامراج نے ہمیشہ قومی سوال کو ملک بنانے اور توڑنے کے لیے استعمال کیا جس کا مقصد منڈیوں کو پھیلانا، منافعے کے حصول ، وسائل کی لوٹ مار اور دولت پر قبضے کے لیے سیاسی بالادستی کا حصول ہوتا ہے۔ پاکستان کی نئی حکومت ملکی تاریخ کے بدترین سماجی اور معاشی حالات میں بر سرِ اقتدار آ رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں رہنے سے بلوچستان میں غربت، ذلت اور محرومی میں اضافہ ہوگا۔ قومی محرومی اور سماجی و معاشی استبداد کے جذبات مسلح جدوجہد کو ہوا دیں گے۔ کئی مخالف قوتوں کی کئی سمتوں اور کئی محاذوں پر جاری لڑائی کے بیچ میں مسلم لیگ نواز کی حکومت جلد ہی خود کو دلدل میں دھنسا ہوا پائے گی ۔ سیاسی حل اور مذاکرات کے ذریعے امن کا حصول تقریباً نا ممکن ہے اور اس کے نتیجے میں تشدد، ظلم اور جبر میں اضافہ ہو گا۔سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے بلوچ نوجوان اور عوام اپنے قومی اور معاشی حقوق کبھی بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ بلوچستان میں جاری ظلم میںبھی وہی رجعتی قوتیں ملوث ہیں جو ملک کے دیگر حصوں میں بہیمانہ طبقاتی جبر اور استحصال کر رہی ہیں۔قومی آزادی کی جدوجہد کے دریا کو طبقاتی جدوجہد کے ساگر میں شامل ہونا ہو گا۔صرف ان بنیادوں پر ہی جابر نظام کا تختہ الٹا جا سکتا ہے۔یہ انقلابی فتح جنوبی ایشیا کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کی بنیاد بنے گی جہاں ہر قومیت کو حقِ خود ارادیت کے استعمال کی مکمل آزادی حاصل ہو گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں