میڈیا اورسیاست پر براجمان ارباب اختیار،سول سوسائٹی او ر مختلف نوعیت کی این جی اوز پر مشتمل ’سیاسی تنظیمیں‘ میاں نواز شریف کی جانب سے ڈاکٹر عبدالمالک کو بلوچستان کا وزیر اعلیٰ نامزد کرنے پر بہت خوش ہیں۔ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ اب بلوچستان کے سب مسائل حل ہو جائیں گے۔ نو منتخب وزیر اعظم کی‘ جو کہ پاکستان کے حکمران سرمایہ دار طبقے کے نمائندے ہیں، بہت تعریفیں کی جا رہی ہیں ۔ دائیں بازو پران کے سابقہ وزیر داخلہ اور موجودہ حریف چودھری شجاعت حسین سے لے کر سرمایہ داری کے آگے گھٹنے ٹیک دینے والے سابقہ بائیں بازو کے دانشوروں تک ، سب اُن کی فیاضی کے دلدادہ ہو گئے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانیت کا درد رکھنے والا کوئی بھی انسان بلوچستان میں جاری خون ریزی اور تباہی کا خاتمہ چاہے گا۔بلوچ سیاسی کارکنوں کے وحشیانہ قتل کے بعد ملنے والی مسخ شدہ لاشیں،ہزارہ برادری کی نسل کشی، مختلف گروہوں اور نسلی اقلیتوں کی ٹارگٹ کلنگ اور دیگر وحشتیں‘ بلوچستان اور بلوچ عوام کو تاراج کر رہی ہیں‘ لیکن عوام کو اس خوش فہمی میں مبتلا کرنا کہ محض سیاسی قیادت کی تبدیلی سے یہ وحشیانہ ظلم ختم کر کے اس بدقسمت سرزمین پر امن قائم کیا جا سکتاہے، زیادتی ہے۔ بلوچستان میں جاری جبر کی وجوہ اتنی سادہ نہیں ہیں۔ بلوچستان میں جاری کئی پراکسی (بالواسطہ)جنگوں کے پیچھے متعددریاستی، غیر ریاستی اور سامراجی عناصر کارفرما ہیں۔وسائل سے مالا مال اس خطے کے بیابانوں میں کھیلی جانے والی اس نئی بے رحم گریٹ گیم کے اندر بڑے پیمانے کے مادی، مالیاتی اور سٹریٹجک مفادات کار فرما ہیں۔د ر حقیقت اس خطے کے معدنی وسائل کی دولت اور سٹریٹیجک اہمیت کو سرمایہ داری نے بلوچ عوام کے لئے رحمت کی بجائے زحمت بنا دیا ہے۔ریاست کے موجودہ ڈھانچے اور معاشی نظام کی بنیاد ہی بلوچستان کے وسائل کے استحصال پر قائم ہے‘ جسے جاری رکھنے کے لئے بلوچ عوام پر جبر ناگزیر ہوجاتا ہے‘ اس استحصالی نظام میں کچھ اور ممکن بھی نہیں۔موجودہ سماجی اور معاشی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے ان مجبور عوام کی رنجشوں کا حل تو درکنار، ان کے حقیقی مسائل اور ایشوز پر بات تک نہیں ہو سکتی۔ میاں نواز شریف کی طرف سے بلوچ قوم پرستوں کے ایک دھڑے کو اقتدار دینے کا مقصد سامراجیوں اور پاکستانی اشرافیہ کی جانب سے بلوچستان کی لوٹ مار کا خاتمہ نہیں ہے۔ان کی یہ ’فیاضی‘ دراصل ریاست کی گود میں کھیلنے والی بلوچ قیادت کے چہرے اور قومیت بدل کر انہیں رام کرنے کا معاملہ لگتا ہے۔ بلوچستان کی صورتحال بہت تشویش ناک اور پیچیدہ ہے۔ کئی غیر ریاستی عناصر اس بربادی میں شریک ہیں جنہیں ریاست کے مختلف دھڑوں کی حمایت حاصل ہے۔ متحارب سامر اجی قوتیں لوٹ مار میں مزید حصہ بٹورنے کی غرض سے اپنے کارندوں کے ذریعے اس لڑائی کو اور زیادہ خونی بنا رہی ہیں۔قرب و جوار کی کچھ حکومتیں بالادستی حاصل کرنے کے لئے اُن بنیاد پرستوں کو بڑے پیمانے پر مالی معاونت فراہم کر رہی ہیں جو خطے کے عوام کو تاراج کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں جاری مسلح بغاوت میں وقت گزرنے کے ساتھ تیزی آتی جارہی ہے۔ طبقاتی جبر کے خلاف ہونے والی جدوجہد کو روکنے کی کوششیں چھ دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جاری ہیں۔ اس جدوجہد میں کئی مرتبہ ٹھہرائو بھی آیا جس کی وجہ تھکاوٹ،غداریاں اور منصوبہ سازوں کی چالبازیاں تھیں۔ فوجی آمر ضیاالحق نے 1977ء میں مارشل لا لگانے کے بعدستر کی دہائی کی بلوچ مسلح جدوجہد کی قیادت کرنے والے لیڈروں اور اس جدوجہد میں شریک کارکنوں کی اکثریت کو رہا اور حیدر آباد سازش کیس کو ختم کر دیاتھا۔ معافی کا مقصد آمریت کے خلاف جاری مزاحمتی تحریک میں دراڑیں ڈالنا تھا؛ حالانکہ طبقاتی استحصال ضیا آمریت کے دور میں بھی جاری رہا۔ پھر ضیا دور کے اسباق دہرائے جا رہے ہیں۔ آخری تجزیے میں: یہ ڈاکٹر مالک کی اچھی خواہشات اور نیک نیتی کا سوال نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بہترین خواہشات بھی ایک بانجھ نظام سے کچھ حاصل نہیں کر سکتیں۔ایک بہترین، ذہین ترین اورمنجھا ہوا سیاستدان بھی اس نظام کے گہرے ہوتے ہوئے بحران کے ہاتھوں مفلوج معاشی بنیادوں اور شکستہ سماجی ڈھانچے میں سماجی استحکام اور خوشحالی نہیں لا سکتا۔’کاسمیٹک اصلاحات‘بھی کسی بہتری کو جنم نہیں دے سکتیں۔بالوں پر خضاب لگا لینے سے انسان جوان نہیں ہو جاتا۔1960ء کی دہائی میں عالمی سرمایہ داری کے ابھار کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے تھے۔ پاکستانی معیشت نے تیز رفتار ترقی کی اور نو فیصد تک کی معاشی شرح نمو حاصل کی گئی۔لیکن اس وقت بھی بلوچستان میں صنعتکاری نہ ہونے کے برابرتھی۔کوئی بڑا انفراسٹرکچر تعمیر نہیں ہوا۔اسلام آباد میں بیٹھی حکومت مضبوط ترین معیشت کے ادوار میں بھی بلوچستان کے محروم عوام کو صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ آج سرمایہ داری کا عالمی بحران شدید تر ہوتا جارہا ہے۔ ترقی یافتہ یورپی ملکوں کے عوام بھی معاشی کٹوتیوں سے گھائل ہیں۔ان حالات میں اس نظام میں رہتے ہوئے بلوچستان کے عوام کی غربت اور محرومی کے خاتمے کی باتیں فریب ہیں۔ سامراج کی گماشتہ بورژوازی بھلا بلوچستان میں سامراجی لوٹ مار کیسے روک سکتی ہے؟ یوں لگتا ہے کہ مختلف دھڑے اس خطے کی دولت لوٹنے والے متحارب سامراجی گروہوں کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اتحاد کئے ہوئے ہیں۔ماضی کی حکومتوں کی جانب سے بلوچستان کے عوام کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اصلاحات کی کوششیں پہلے بھی کی جاچکی ہیں۔ان کوششوں میںتازہ ترین ’آغازِ حقوقِ بلوچستان‘ پیکج تھا۔اس وقت بھی آج کی طرح بڑاشور مچایا گیا تھا کہ بلوچستان کا مسئلہ بس حل ہونے کو ہے لیکن یہ پیکیج صرف زبانی جمع خرچ ثابت ہوا۔ اگر ڈاکٹر مالک اٹھارہویں ترمیم کے تحت تمام اختیارات اور فنڈز حاصل کر لیں تو بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ اس سے تضادات شدید تر ہوں گے اور بلوچ عوام مزید بے چین ہو جائیں گے۔ لیکن بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ قرض زدہ اور معاشی مسائل کی شکار ریاست کے پاس خرچ کرنے کے لیے فنڈز ہیں ہی نہیں۔ قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دیگر اخراجات کے بعد کچھ نہیں بچتا۔ بلوچستان کی معدنیات، دولت اور وسائل کو صرف اس صورت میں بلوچستان کے عوام کی فلاح کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جب وہ عام شہریوں کی اجتماعی ملکیت میں ہوںیعنی سامراجی اور نجی اثاثہ جات کوفوراً ضبط کیا جائے۔ سرمایہ داری میں ایسا نہیں ہو سکتا۔کیا ڈاکٹر مالک سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینک سکتے ہیں؟اس بار ’درمیانے طبقے کے بلوچ لیڈر‘کواستحصال کا آلہ کاربنایا جارہا ہے۔متوسط یا غریب طبقے کے افراد جب سرمایہ دارانہ نظام میں انفرادی طور پر اقتدار میں آتے ہیں تو وہ نظام کو نہیں بدلتے بلکہ ریاست انہیں بدل کراس نظام کا مطیع بنا دیتی ہے۔ بلوچستان میں کی گئی ڈیل اگرچہ سرمایہ داروں ہی کے فائدے کے لئے ہے لیکن یہ نظام شدید انتشار اور بحران کا شکار ہے۔جلد ہی اس کا معاشی بحران سماج میں سلگتے ہوئے تضادات کو دھماکہ خیز انداز میں پھاڑ دے گا۔