"DLK" (space) message & send to 7575

انقلابِ مصر کی نئی لہر

مصر میں انقلاب نے ایک اور انگڑائی لی ہے اور محمد مرسی کو اپنی صدارت کے صرف ایک سال بعد ہی اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ مرسی کی صدارت کا ایک سال پورا ہونے پر 30 جون کو ’’تمرد‘‘ نامی تحریک کے اراکین نے مرسی کے خلاف تحریر سکوائر میں احتجاج کی کال دی تھی اور مرسی سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔ عوامی تحریک نے مصری سماج اور ریاست کو پہلے دن ہی ہلا کر رکھ دیا۔ عوام دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئے۔ فوج گزشتہ تحریک میں ہونے والی دھڑے بندی سے اس قدر خوفزدہ تھی کہ اس کے پاس عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی حمایت جیتنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا۔ ریاستی خلفشار جس نہج پر پہنچ چکا تھا ایسے میں ریاستی اداروں کو برقرار رکھنے کا واحد راستہ فوجی مداخلت سے مرسی کی حکومت کا خاتمہ اور عبوری حکومت کا قیام تھا۔ تحریک کی شدت نے ناصرف مصری حکمران طبقے بلکہ سامراجی ممالک کو بھی ایک خوفناک اذیت میں مبتلا کر دیا تھا لہٰذا ان کو بھی چاروناچار مرسی حکومت کے سر سے ہاتھ اٹھانا پڑا۔ یہ مصر ی تاریخ کے سب سے بڑے عوامی مظاہرے تھے۔ مصری وزارتِ داخلہ کی اپنی رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگ پورے ملک میں سڑکوں پر موجود تھے۔ بعض عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق مظاہرین کی تعداد تین کروڑ تک تھی۔ اس طرح یہ تحریک 2011ء سے کئی گنا بڑی تھی۔ مظاہرین نے قاہرہ میں واقع اخوان المسلمون کے مرکزی دفتر کو نذر آتش کر دیا۔ پورے مصر میں اخوان المسلمون کا شاید ہی کوئی دفترایسا ہو جسے عوام نے اپنے قہر کا نشانہ نہ بنایا ہو۔ ریاست ہوا میں معلق ہو چکی تھی۔ اس سے قبل مرسی کے کئی وزراء کابینہ سے استعفیٰ دے چکے تھے۔ فوج نے مورسی حکومت کو مظاہرین کے مطالبات پورے کرنے کے لیے 48 گھنٹے کی مہلت دی تھی۔ اتوار 30 جون کو شروع ہونے والے مظاہروں سے پیشتر صدر مورسی کے خلاف ایک پٹیشن پر 2 کروڑ 20 لاکھ افراد دستخط کر چکے تھے۔ اس پٹیشن میں اخوان المسلمون کی حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 2012ء کے صدارتی انتخابات کے سرکاری نتائج کے مطابق مورسی نے ایک کروڑ 30 لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے۔ یوں ٹھیک ایک سال بعد اس پٹیشن کے ذریعے انتخابات کی نسبت 90 لاکھ اضافی لوگوں نے مورسی کے خلاف ووٹ دیا۔ مشہوربرطانوی صحافی رابرٹ فسک نے 2012ء کے صدارتی انتخابات کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ پہلے مرحلے میں مصر کی ناصرآئٹ سوشلسٹ پارٹی کے امیدوار حمدین صباحی کو دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا تھا۔ رابرٹ فسک کے مطابق آخری مرحلے میں فوج کا حمایت یافتہ امیدوار احمد شفیق واضح طور پر الیکشن جیت چکا تھا لیکن امریکی دباؤ پر مصری فوج کو پسپائی اختیار کرنی پڑی اور محمد مورسی الیکشن جیت کر صدر کے عہدے پر فائز ہوگیا۔ حسنی مبارک کے مستعفی ہونے کے فوراً بعد اور انتخابات سے کئی ماہ قبل ہی امریکی سامراج کے کئی دانشور ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے برعکس مصالحت پسندی اور ’ری کونسلی ایشن‘ کی حکمت عملی کے تحت نئی خارجہ پالیسی کو پروان چڑھانے پر زور دے رہے تھے۔ امریکی سامراج کی ’ری کونسلی ایشن‘ پر مبنی خارجہ پالیسی کا آغاز بل کلنٹن کے دور حکومت میں ہوا تھا۔ جارج بش حکومت نے بھی کسی حد تک اس پالیسی کو جاری رکھا تھا۔ پاکستان، افغانستان اور عرب ممالک میں اس پالیسی کا اطلاق کروانے میں سی آئی اے کے منجھے ہوئے پالیسی ساز اور اوباما کی حالیہ حکومت کے مشیر خاص بروس ریڈل نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے سے کہیں پہلے بروس ریڈل نے امریکی سامراج کے پرانے حلیف مذہبی بنیاد پرستوں سے نئے ناتے استوار کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ عرب انقلاب کا آغاز تیونس میں ایک بے روزگار نوجوان بو عزیزی کی خود سوزی سے ہوا تھا۔ بو عزیزی کی خود سوزی نام نہاد ’جمہوریت‘ کے لیے نہیں تھی بلکہ یہ بے روزگاری، غربت، تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی، محرومی اور ناداری کے خلاف ایک احتجاج تھا۔ تیونس، مصر اور دوسرے عرب ممالک میں پھٹنے والے انقلابات کی قوت محرکہ معاشی بدحالی اور طبقاتی استحصال تھا۔ لوگ اپنے سلگتے ہوئے معاشی مسائل اور حکومتوں کی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے خلاف بغاوت کررہے تھے۔ عرب انقلابی تحریکوں کے اس بنیادی پہلو کو عالمی ذرائع ابلاغ نے چھپانے کی بھرپور کوشش کی۔ عوام کے حقیقی مسائل کی بجائے ’جمہوریت‘ اور ’انسانی حقوق‘ کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا تاکہ اس نظام کی تبدیلی کے سوال کو دبایا جاسکے جو یہ مسائل حل کرنے سے قاصر ہے۔ زندگی اور وقت سے ہارے ہوئے سابق بائیں بازو کا کردار بھی افسوسناک تھا۔ سوشلزم سے ’الرجک‘ ان حضرات نے پہلے تو تیونس اور مصر کی عوامی بغاوتوں کو ’سازش‘ قرار دے کر انقلاب ماننے سے ہی انکار کر دیا تھا؛ تاہم یہ حضرات اس حوالے سے کوئی منطقی دلیل یا توجیح پیش کرنے سے قاصر تھے کہ کروڑوں لوگوں کو ’خرید‘ کر ایک ’سازش‘ کس طرح برپا کی جاسکتی ہے؟ اخوان المسلمون کے برسر اقتدار آنے کے بعد ان ’دانشوروں‘ نے یہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا کہ یہ دائیں بازو کی تحریک تھی اور مصر اب ایک بنیاد پرست معاشرے میں تبدیل ہوجائے گا۔ 30 جون کو بنیاد پرست اخوان المسلمون کے خلاف کروڑوں لوگوں کی بغاوت دیکھ کر یہ دانشورشاید کوئی اور دلیل پیش کریں گے۔ مصر میں حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے سے عوام کے مسائل ختم نہیں ہوئے۔ اخوان المسلمون کی حکومت نے جس انداز میں عوام دشمن سرمایہ دارانہ پالیسیاں لاگو کیں اس کی توقع شاید حسنی مبارک سے بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ اخوان المسلمون کے دور حکومت میں مصری پاؤنڈ کی قیمت میں 29 فیصد کمی واقع ہوئی جس سے مہنگائی نے شدت اختیار کی۔ اسی طرح معیشت کی شرح نمو 7 فیصد سے گر کر 2 فیصد رہ گئی۔ اپنی استحصالی پالیسیوں کو چھپانے کے لیے مورسی نے مذہبی لفاظی اور بنیاد پرستی کا سہارا لینے کی کوشش کی لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ مورسی کے بعض بیانات نے بھی عوام کے زخموں پر نمک پاشی کا کردار ادا کیا۔ مثلاً لوڈ شیڈنگ کا حل موصوف نے یہ تجویز فرمایا کہ خواتین شام کی بجائے صبح کے وقت کپڑے دھویا کریں۔ غربت، بھوک، لوڈ شیڈنگ اورعام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی ہوئی ضروریاتِ زندگی نے ایک نئی اور پہلے سے کہیں بڑے پیمانے کی عوامی بغاوت کو جنم دیاہے جس نے قاہرہ سے لے کر واشنگٹن تک اقتدار کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ میں نے آج سے ایک سال پہلے تحریک کے وقتی طورپر تھم جانے پر واضح کیا تھا کہ مصر میں 1959ء کے 52 سال بعد 2011ء میں انقلابی تحریک ابھری ہے، مورسی عوام کا کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں کر پائے گا لیکن مورسی کے خلاف عوامی تحریک کو ابھرنے کے لیے مزید 52 سال درکار نہیں ہوں گے۔ مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت بننے پر پاکستان میں مذہبی جماعتوں نے مٹھائیاں تقسیم کی تھیں اور اسے ’اسلامی انقلاب‘ سے تعبیر کیا تھا۔ لیکن دائیں بازو کی یہ تمام تر حکومتیں آج عوام کے غضب کا نشانہ بن رہی ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ بنیاد پرستی سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال کو جاری رکھنے کا ہی ایک طریقہ ہے۔مصر میں انقلاب نے ایک اور مرحلہ عبور کیا ہے اور یہ تجربات عوام کو نئے اور بلند نتائج اخذ کرنے پر مجبور کریں گے۔ سرمایہ دارانہ حدود کے اندر رہتے ہوئے عوام کا کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا۔ محنت کش عوام بہت جلد اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے‘ جیسا کہ عظیم مارکسی استاد ٹیڈ گرانٹ نے کہا تھا: ’’واقعات، واقعات اور واقعات… تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیتے ہیں‘‘۔ سرمایہ دارانہ نظام، اس کی سیاست اور معیشت، مصر سمیت دنیا بھر میں محنت کش عوام کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہے۔ یہ نظام متروک ہوچکا ہے جو سماجی مسائل کو پیچیدہ اور انسانی زندگیوں کو تلخ تر کرتا چلا جارہا ہے۔ معاشرے کا سائنسی تجزیہ کرنے والے مارکسسٹوں کے لیے اس نظام کی متروکیت کشش ثقل سے بڑا سچ ہے۔ جب تک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے نجات کا پیغام عوام کے شعور پر غالب نہیں ہو گا تحریکیں ابھرتی اور بھٹکتی رہیں گی۔ عوام لڑیں گے، تھک کر پسپا ہوں گے، نظام کا بحران انہیں پھر سے لڑنے پر مجبور کرے گا لیکن ان کی حتمی فتح ایک سوشلسٹ انقلاب کے بغیر ممکن نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں