ملک بھر میں زکوٰۃ، خیرات اور فطرانے کے لیے این جی اوز اور سماجی ، سیاسی اور مذہبی تنظیموں کے مابین ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔بھیک کی یہ مہم مسجدوں، گلی محلوں، دیہاتوں اور شہروں سے شروع ہو کر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تک پہنچ چکی ہے۔مختلف سیاسی و سماجی شخصیات، فنکار، کھلاڑی اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے شہرت یافتہ افراد اس عمل میں پیش پیش ہیں۔ سماج پر مسلط حکمران طبقات اپنی اخلاقی اور مذہبی اقدار کے ذریعے یہی درس دیتے ہیں کہ خیرات دینے والے خواتین و حضرات بہت نیک، پارسا اور افضل ہوتے ہیں۔ درحقیقت خیرات کا یہ سلسلہ طبقاتی تضادات اور امارت و غربت کے تصادم کو ماند کر کے استحصالی نظام کو تقویت دیتا ہے۔ کالج کے زمانے میں ہمیں تاریخ اور اردو کے مضامین پروفیسر صدیقی صاحب پڑھایا کرتے تھے۔ان کی تعلیم و تربیت دہلی میں ہوئی تھی۔ایک دن کلاس میں انہوں نے اپنی جوانی کا ایک قصہ سنایا جو ذہن کے دریچوں میں آج تک گونجتا ہے۔صدیقی صاحب اپنے طالب علمی کے زمانے میں دہلی کی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔1936ء میں ہندوستان کے شمال مغربی علاقوں میں زلزلہ آیا جس کے باعث ان علاقوں میں رہنے والے لاکھوں افراد دہلی اور شمالی ہندوستان کے دوسرے شہروں میں پناہ گزین بننے پر مجبور ہوگئے۔صدیقی صاحب ایک روز جمعہ پڑھ کر جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہے تھے کہ ان کی نظر پہلو میں پانچ سال کا معصوم بچہ اٹھائے کونے میں کھڑی ایک دوشیزہ پر پڑی۔بھوک سے نڈھال یہ ماں اور بچہ مالی مدد کی آس میں سیڑھیوں سے اترنے والے ہر نمازی کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔نمازی حسرت و یاس کی تصویر بنے ماں اور بچے پر کوئی توجہ دئے بغیر گزرتے جارہے تھے چنانچہ معصوم بچے نے مایوسی کے عالم میں اپنا ہاتھ پھیلا دیا۔ماں نے زناٹے دار تھپڑ بچے کے منہ پر رسید کیااور وہ سسکیاں لے کر رونے لگا۔صدیقی صاحب کے مطابق اگلے جمعہ کو وہ نماز پڑھ کر سیڑھیوں سے اتر رہے تھے تو اسی کونے میں کھڑے ماں اور بچے کے ہاتھ پہلے سے ہی پھیلے ہوئے تھے۔ وہ کیا نفسیات تھی، کیا احساس تھا اور خودداری کی کیسی تنزلی تھی۔ ہاتھ پھیلانے پر اپنے جگر کے ٹکڑے کو تھپڑ مارنے والی ماں آخر کار خود ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو گئی؟ساحر لدھیانوی نے لکھا تھا ؎ مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے بھوک آداب کے سانچوں میں ڈھل نہیں سکتی آج دنیا میں بے شمار خیراتی ادارے کام کررہے ہیں۔دنیا کے دو امیر ترین افراد بل گیٹس اور وارن بفٹ کی سرپرستی میں اربوں ڈالر کے خیراتی منصوبے دنیا کے غریب ممالک میںمختلف شعبوں میں کام کررہے ہیں۔اسی طرح الزبتھ ٹیلر سے لے کر مائیکل جیکسن تک اور جارج کلونی سے لیکر انجلینا جولی تک ، دنیا کے مشہور اور امیر ترین فنکارخیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں یا لے رہے ہیں۔بل گیٹس کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ ہزاروں جنم میں بھی خرچ نہیں کرسکتا لیکن دولت اور منافعوں کی اندھی ہوس کے تحت اس میں اور اضافہ کیا جارہا ہے۔دولت کی کثرت اور خیرات کے درمیان ایک دلچسپ رشتہ موجود ہے۔خاص طور پر شوبز کی دنیامیں ،دولت میں اضافے کے لئے شہرت کا پھیلائو ضروری ہے۔کرتوت کچھ بھی ہوں لیکن خیرات سے ’نیک نامی‘ اور شہرت میں اضافہ ہوتا ہے، مداحوں میں اضافے سے منڈی میں بھائو بھی بڑھتا ہے۔تیسری دنیا کے عوام کا بدترین استحصال کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اپنی ساکھ برقرار رکھنے اور شرح منافع میں اضافے کے لیے ایسے ہی طریقے استعمال کرتی ہیں۔۔یوں خیرات ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ لیکن اس کاروبار کے سیاسی، سماجی اور معاشی عزائم کیا ہیں؟سرمایہ دارانہ نظام میں دولت کا اجتماع محنت کے استحصال کے بغیر ناممکن ہے۔غریبوں کو غریب تر کیے بغیر امیر، امیر تر نہیں ہو سکتے۔خیرات بذات خود وسائل کی نا جائز تقسیم پر مبنی غیر مساوی اور استحصالی معاشرے کی غمازی کرتی ہے۔محنت کشوں کے استحصال ، سٹہ بازی، سٹاک ایکسچینج کے جوئے، ذخیرہ اندوزی اور مالیاتی ہیرا پھیری کے دوسرے طریقوں سے لگائے گئے دولت کے انباروں میں سے چند ٹکڑے خیرات کے لئے مختص کر دینے سے غربت تو ختم نہیں ہوسکتی لیکن غربا کے لئے ’خدائی وسیلہ ‘بن کر وقتی طور پر استحصال کا جواز ضرور ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ آج یہ نظام جس بحران کا شکار ہے اس کی غمازی اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ وافر اناج کی پیداوار کے باوجود دنیاکے بہت سے خطوں میں عوام قحط کا شکار ہیں۔خوراک سے وابستہ ملٹی نیشنل کمپنیاں دنیا کے ہر انسان کے لئے ضرورت سے زائد خوراک فراہم کر سکتی ہیںلیکن بھوک موجود ہے۔دنیا کی بڑی فارما سیوٹیکل کمپنیاں کرۂ ارض پر موجود ہر انسان کو علاج کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیںلیکن کروڑوں لوگ ہر سال قابل علاج بیماریوں سے تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں۔فاسل فیول جلا کر ماحول کو تباہ کئے بغیر ضرورت سے کہیں زیادہ توانائی پیدا کی جاسکتی ہے لیکن توانائی کا بحران دنیا بھر میں سنگین ہوتا چلا جارہا ہے۔پیداواری قوتیں اس قدر ترقی کر چکی ہیں کہ موجود ٹیکنالوجی کے زیر اثر 49ارب انسانوں کو زندگی کی تمام تر بنیادی سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں لیکن 7ارب انسانوں کی اکثریت بھی محرومی کا شکار ہے۔ٹیلر کالرج کا یہ شعر صورتحال کا بہترین عکاس ہے کہ ’’ہر طرف پانی ہی پانی ہے، لیکن پینے کو ایک بوند بھی نہیں‘‘۔ ریاستیں سامراجی اجارہ داریوں کے سامنے بے بس ہیں۔ نہ ہی مقامی سرمایہ داروں کی بجلی، گیس اور ٹیکس چوری کو روکا جاسکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں طاقتور قانون کے جال کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔یہ کارپوریٹ اجارہ داریاں اور سرمایہ دار اگر ٹیکس ادا کریں گے تو ان کے شرح منافع اور منڈی میں مقابلے کی صلاحیت پر ضرب لگے گی۔اسی طرح جاگیر داروں پر ٹیکس لگایا جائے گا تو اس زبوں حال انفراسٹرکچر اور بحران زدہ زرعی نظام میں زرعی آمدن گر جائے گی نتیجتاً سٹہ بازی اور ذخیرہ اندوزی زور پکڑے گی جس سے حالات بد تر ہوجائیں گے۔چنانچہ یہاں کے نااہل حکمرانوں اور ریاست کے پاس خیرات اور بھیک کی لعنت کو پروان چڑھانے کے سوا کوئی حل موجود نہیں۔ سامراجی قرضوں سے چلنے والی یہ ریاست اور اس پر براجمان حکمران ، عوام کو باعزت طور پر ضروریات زندگی فراہم کرنے کی بجائے بھکاری بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔لیکن محنت کش عوام کے جن ہاتھوں کو یہ حکمران خیرات کے لئے پھیلنے پر مجبورکر رہے ہیں وہ ان کے گریبانوں تک بھی پہنچ سکتے ہیں اور ان سے اقتدار چھیننے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔وقت، عہد اور معروض بدلے گا۔ بغاوت محنت کشوں کی شریانوں میں خون بن کر دوڑے گی، بھیک کے لئے پھیلے ہوئے یہی ہاتھ اس نظام کو پاش پاش کریں گے ؎ یہیں سے اٹھے گا شور محشر یہیں پہ یوم حساب ہوگا!