نادرا نے تفتیش کے بعد کراچی کے دو حلقوں این اے 256اور 258میں مئی کے عام انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی اکثریت کو جعلی قرار دیا ہے۔یہ نشستیں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) نے ’’جیتی‘‘ تھیں تاہم بڑے پیمانے کی دھاندلی بے نقاب ہونے کے بعد دونوں سیاسی جماعتیں مضحکہ خیز قسم کے بہانے اور جواز پیش کر رہی ہیںاور تمام تر ملبہ الیکشن کمشن کی طرف سے فراہم کردہ ’’پھیکی سیاہی‘‘ پر ڈالا جارہاہے۔اگر اس عذر کو ایک لمحے کے لئے درست تسلیم کرلیا جائے تو بھی انتظامیہ کی نااہلی واضح ہوجاتی ہے جس کے اداروں میں اتنی سکت نہیں کہ پولنگ کے لئے معیاری سیاہی فراہم کر سکیں۔اس حوالے سے ’’سیدھی سیدھی باتیں‘‘ کرنے والے مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری شجاعت حسین نے بیان دیا ہے کہ اگر پورے ملک میں تفتیش کروائی جائے تو 90فیصد نتائج غلط ثابت ہوں گے۔چوہدری صاحب کا یہ بیان اتنا غلط بھی نہیں ہے۔ یہ کھلی حقیقت ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک میں ہونے والے انتخابات نہ تو شفاف ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں منعقد کروانے والے اداروں کا رویہ غیر جانبدارانہ ہوتا ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ مالیاتی سرمائے کی آمریت میں نشوونما پانے والی ’’جمہوریت‘‘ ہمیشہ مفلوج اور سطحی ہوا کرتی ہے۔آخری تجزیے میں ہر انتخاب کے نتائج مختلف سامراجی اور ریاستی قوتیں اپنے مفادات کے مطابق مرتب کرتی ہیں۔عوام کے ووٹوں سے کہیں زیادہ حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں کے باہمی تنازعات اور تضادات فیصلہ کن طور پر ہار جیت کا فیصلہ کرتے ہیں۔دوسروں شعبوں کی طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انتخابی دھاندلی کے طریقے بھی جدت اختیار کر گئے ہیں۔سرمایہ دارانہ جمہوریت کے انتخابات میں پیسہ فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ذرائع ابلاغ پر پراپیگنڈا سے لے کر پولنگ سٹاف کو دی جانے والی رشوت اور ووٹ خریدنے تک، پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔جو کام پیسہ نہ کر پائے وہ زور زبردستی اور طاقت سے کروا لیا جاتا ہے ، اس مقصد کے لیے غنڈے اور بدمعاش کرائے پر حاصل کیے جاتے ہیں جوخوف و ہراس اور دھونس کے ذریعے دھاندلی کرتے یا کرواتے ہیں۔یہ صورتحال اس وقت شدت اختیار کر جاتی ہے جب عوام سیاسی طور پر بیگانہ اور سماج جمود اور گھٹن کا شکار ہو۔نظریات سے عاری سیاست اور سیاسی پارٹیاں دولت کی لونڈی ہوتی ہیں۔پاکستان کی تاریخ میں صرف 1970ء کے عام انتخابات کو نسبتاً منصفانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان انتخابات میں سیاست ایک نظریاتی جنگ کی شکل اختیار کر گئی تھی اور محنت کش عوام نے طبقاتی شعور کی بنیاد پر سوشلزم کو ووٹ دے کر حکمران طبقات کی سیاسی پارٹیوں کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ سرکاری ملازمین نے بھی عوام کی نومولود سوشلسٹ روایت کو بھاری اکثریت میں ووٹ دے کر ثابت کیا تھا کہ سماج کی طرح ان میں بھی طبقاتی تقسیم موجود ہوتی ہے۔ پچھلی تین دہائیوں میں ہونے والے انتخابات میں امریکی سامراج اور ریاستی اداروں کے عمل دخل کے ساتھ ساتھ سرمائے کا کردار حاوی رہا ہے ۔سرمائے کی یہ ’’جمہوریت‘‘، اس کی سیاست اور انتخابات ایک کاروبار بن چکے ہیں جہاں سرمایہ کاری کر کے بھاری منافع کمایا جاتا ہے۔سیاسی اقتدار خصوصاًیہاں کے حکمران طبقات کی ناگزیر ضرورت ہے جس کے ذریعے وہ اپنے مالی مفادات کو دوام بخشتے ہیں۔پاکستانی سرمایہ داری صحت مند اور قانونی بنیادوں پر آگے بڑھنے کے قابل نہیں ہے۔یہاں کا سرمایہ دار قرضہ خوری اور بجلی، گیس، ٹیکس وغیرہ کی چوری کے بغیر اپنا مالیاتی وجود قائم رکھنے کے قابل نہیں ہے۔سیاسی اقتدار سرمایہ داروں کو نہ صرف لوٹ مار اور کرپشن میں آسانی فراہم کرتا ہے بلکہ اس کے ذریعے مزدوروں کی محنت کو مزید سستا کر کے زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جاتا ہے۔ پاکستان کے سرمایہ دار طبقات جدید صنعتی اور سماجی انفراسٹرکچر سمیت قومی جمہوری انقلاب کا کوئی ایک فریضہ بھی مکمل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔اس ناکامی کی جھلک سیاست میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ یورپی طرز کی پارلیمانی جمہوریت پاکستان میں نامکمل، لاغر اور کمزور رہی ہے۔اگر حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو خود سرمایہ دارانہ نظام میں اتنی سکت نہیں رہی ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں سرمایہ داری کے تاریخی فرائض پورے کیے جاسکیں۔یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ سماج سرمایہ داری کے ترقی پسندانہ عہد میں تعمیر ہوئے تھے جہاں سرمایہ دار قدر زائد اور منافعوںکا کچھ حصہ ریاست کو دے کر اسے اپنے مفادات کے لیے مضبوط اور فعال بناتے تھے۔پاکستان جیسے ممالک میں روز اول سے ہی گنگا الٹی بہہ رہی ہے اور سرمایہ داربے رحمی سے ریاست کولوٹنے میں مصروف ہیں۔ پاکستان کے کل معاشی حجم کا دو تہائی سے زائد حصہ کالے دھن پر مشتمل ہے۔یہ کالا دھن سرمایہ داری کے اپنے قوانین کے مطابق بھی مجرمانہ طریقوں سے کمایا جاتا ہے۔کرپشن اس کالی معیشت کا اہم جزو ہے جو کینسر کی طرح پھیل کر ریاستی اداروں کو اندر سے کھوکھلا کر چکی ہے۔جس ریاست کی معیشت کالے دھن اور سامراجی قرضوں سے چل رہی ہو اس کی سیاست بھلا کیسے شفاف ہوسکتی ہے؟ جو ریاست ملک کے وسیع حصوں سے بجلی کے بل تک نہ وصول کر سکے وہ ’’منصفانہ انتخابات‘‘ کا دعویٰ بھلا کیسے کر سکتی ہے؟ ریاست کے وظیفہ خوار اہل دانش خواہ ’’جمہوریت‘‘ کا کتنا ہی ڈھول پیٹتے رہیں، صرف دولتمند خواتین و حضرات ہی اسمبلیوں میں پہنچ سکتے ہیں۔ اس ملک کے 99فیصد عوام کے پاس صرف ووٹ دینے کا حق ہے، ووٹ لینے کا حق صرف مُٹھی بھر سرمایہ داروں، جاگیر داروں یا ان کے حواریوں کو ہے۔اگر محنت کش طبقے کا کوئی فرد حادثاتی طور پر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ بھی جائے تو وہ حکمرانوں کے اداروں میں اسی بالادست طبقے کاحصہ بننے کی ہوس میں مبتلا ہو کر رہ جاتا ہے۔ وہ بک جاتا ہے، جھک جاتا ہے اور پھر اپنے طبقاتی پس منظر کو فراموش کر کے محنت کشوں سے غلیظ ترین غداری کا مرتکب ہوتا ہے۔ یہ نظام اور اس کے ادارے حکمران طبقات کے لئے تشکیل دئیے گئے ہیں، عوام کے لئے نہیں۔ جمہوریت اور آمریت بذات خود نظام نہیں ہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے کے دو مختلف طریقہ کار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جمہوری یا فوجی حکومت اس نظام کے بحران، سامراجی قرضوں، حکمرانوں کی کرپشن اور مالیاتی خساروں کا تمام تر بوجھ غریب عوام پر ہی ڈالتی ہے۔یہ نظام سیاست اسی طبقے کے مفادات کی حفاظت کرتا ہے جو ذرائع پیداوار اور سماجی دولت پر قابض ہے۔اس سرمایہ دارانہ معاشرے میں نیک نامی، عزت، مرتبت،قدرو منزلت، معاشرتی بڑائی اور سیاسی رتبے کا معیار صرف دولت ہے۔دولت، جو ہر نازک رشتے، صادق جذبے اور انسانی احساس کو مجروح اور مسخ کردیتی ہے۔چنانچہ معاشی برابری کے بغیر ’’منصفانہ انتخابات‘‘ اور ’’حقیقی جمہوریت‘‘ جیسی اصطلاحات بے معنی اور کھوکھلی ہیں۔ معاشی مساوات کے بغیر سیاسی یکسانیت اور انسانی یکجہتی ناممکن ہے۔ دنیا کا ہر تضاد، ہر عداوت، ہر تقسیم ختم ہوسکتی ہے لیکن دو متضاد طبقات کے درمیان مصالحت نہیں ہو سکتی۔طبقاتی سماج میں ایک طبقے کا فائدہ دوسرے کا نقصان بن جاتا ہے۔سرمائے کے زور پر ’’منتخب‘‘ ہوکر اقتدار کے ان بڑے بڑے ایوانوں میں پہنچنے والے سیاستدانوں کا تعلق اس طبقے سے ہے جس کا وجود ہی محنت کشوں کے استحصال سے مشروط ہے۔ یہ جمہوریت، دولت مندوں کی آمریت ہے جس میں بھوک، بیماری ، بیروزگاری اور غربت کی چکی میں پسنے والے عوام کی نجات ممکن نہیں ہے۔ حالیہ انتخابات میں عوام نے مایوسی اور بددلی کے عالم میں ہاتھوں سے ووٹ ڈالے ہیں۔ عوامی عدالتیں صدیوں تک محنت کشوں کا خون چوسنے والوں سے اپنی نسلوں پر ہونے ظلم و ستم کا حساب لیں گی۔پیسے کے اس جبر کو توڑے بغیر نہ انسان آزاد ہوسکتا ہے، نہ ہی معاشرے میں کوئی انسانی قدر سچائی کی بنیاد پر پنپ سکتی ہے۔ہزاروں سال انسانی سماج پیسے کے بغیر بھی بستا رہا ہے۔ سرمائے کی آمریت کا خاتمہ انسانیت کو آزادی کی ایک نئی معراج پر پہنچائے گا۔