ڈرون حملے ہوں یا ملالہ کی کتاب کا ’’معمہ‘‘، میڈیا پر ہونے والی ہر بحث و تکرار کو موجودہ نظام کی حدود و قیود تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ آزاد خیال اور قدامت پرست، دونوں مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی عقل و دانش سرمایہ داری کی اخلاقیات، سیاسیات اور معاشیات سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ مذہبی جماعتوں سمیت دایاں بازو سماجی جمود کے اس عہد میں معاشرے پر چھائی ظاہری رجعت کے بل بوتے پر جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ یہ دانشور امریکی سامراج کے جبر و استحصال کے خلاف پائی جانے والی عوامی نفرت کو بنیاد پرستی کے راستوں پر ڈال کر سماج کو ماضی کے اندھیروں میں غرق کر دینا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں بڑھتے ہوئے معاشی بحران، سیاسی انتشار اور سماجی خلفشار نے عوام کی نفسیات کو شل کر کے سیاسی بے حسی کو جنم دیا ہے۔ لیکن ان اذیت ناک حالات میں بھی عام آدمی کے لئے رجعت پسند سیاست دانوں کے دلائل میں کوئی کشش نہیں ہے۔ ’’سول سوسائٹی‘‘ سے دور یہ لوگ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ تعصبات اور مذہبی بنیاد پرستی میں ان کے مسائل کا کوئی حل موجود نہیں ہے؛ چنانچہ سماج کی بھاری اکثریت مذہب کی بنیاد پر سیاست کر نے والے لیڈروں سے نہ تو متاثر ہے اور نہ ہی ان کی سیاسی حمایت کرتی ہے۔ دوسری طرف وہ لبرل اور سیکولر حضرات ہیں جنہیںکسی انقلابی تبدیلی کا کوئی ادراک نہیں، اگر کبھی تھا تو یہ لوگ اس سے منحرف ہوچکے ہیں۔ یہ لبرل دانشور جب ’’میڈیا مناظروں‘‘ میں امریکی سامراج کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ اپناتے ہیں تو مذہبی عناصر بغیر کسی منطقی دلیل کے اپنے آپ کو سرخرو سمجھنے لگتے ہیں۔ پاکستان کا موجودہ سماجی اور ریاستی ڈھانچہ پچھلی پانچ دہائیوں میں برپا ہونے والے ایک نامکمل انقلاب اور اس کے بعد مذہبی آمریت کی شکل میں آنے والے رد انقلاب کی پیداوار ہے۔ 1968-69ء میں پاکستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے اس نظام کے خلاف انقلابی بغاوت برپا کی تھی جو قیادت کے فقدان کی وجہ سے اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچ پائی۔ ہر ادھورا انقلاب ریاستی جبر اور ردانقلاب کا پیش خیمہ ہوتا ہے؛ چنانچہ اس انقلابی تحریک کی ناکامی کے بعد ضیاالحق کی آمریت کی شکل میں ردانقلاب کا تاریک عہد آیا۔ ضیا آمریت کے دوران ریاست، سیاست اور معاشرت کے بنیادی ڈھانچوں میں بنیاد پرستی کے زہریلے انجکشن لگائے گئے اور اسی سوچ پر مبنی مواد کو سرکاری نصاب کا حصہ بنا دیا گیا۔ انہی عناصر کو مسلط کر کے ہر ریاستی ادارے میں بنیاد پرستی اور تعصب پر مبنی کلچر اور سوچ کو فروغ دیا گیا۔ یہ ذہنیت آج بھی ان تمام اداروں کی درمیانی پرتوں میں نہ صرف موجود ہے بلکہ پوری طرح سماجی اور سیاسی عوامل میں متحرک بھی ہے۔ پچھلے چند برسوں میں 2000ء کے قریب انتہائی خطرناک دہشت گردوں کو ’’شہادتیں‘‘ (Evidence) نہ ملنے کی وجہ سے بری کیا گیا جو رہا ہوتے ہی دوبارہ دہشت گردی کی کارروائیوں میںسرگرم ہو گئے۔ جب تک یہ موجودہ ریاستی ساخت موجود ہے یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ پاکستان میں جماعت اسلامی اور افغانستان میںحزب اسلامی نے ضیا آمریت کے سیاسی فرنٹ کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ افغان جہاد کے دوران بہت سی دوسری مذہبی جماعتوں، مسلح گروہوں اور مدرسہ سسٹم کو بھی ریاستی طاقت اور خزانے کے ذریعے پروان چڑھایا اور مضبوط کیا گیا۔ 1947ء میں پاکستان میں مدارس کی کل تعداد صرف 189 تھی، 1977ء میں بھٹو حکومت کے خاتمے کے وقت ان کی تعداد 900 ہو گئی، 1988ء میں ضیا آمریت کے خاتمے تک رجسٹرڈ مدرسوں کی تعداد 8000 تک پہنچ چکی تھی۔ 25000غیر رجسٹرڈ مدارس اس کے علاوہ تھے۔آج مدارس کی تعداد 40000 سے تجاوز کر چکی ہے جن میں 25 سے 30 لاکھ بچے ’’تعلیم‘‘ حاصل کر رہے ہیں۔ تعلیمی نظام کی ٹوٹ پھوٹ، غربت میں اضافے اور مدرسوں کی تعداد میں براہ راست تناسب ہے۔ ضیا آمریت کے دوران ریاست نے دانستہ طور پر کلاشنکوف اور ہیروئین کلچر کو فروغ دیا۔ ہیروئین تیار کرنے کی تکنیک اور لیبارٹریاں سی آئی اے نے جہادیوں کو فراہم کیں۔ 1979ء تک پاکستان میں ہیروئین یا منشیات کے عادی افراد کو انگلیوں پر گنا جا سکتا تھا، 1988ء تک چھ لاکھ سے زائد افراد منشیات کے عادی بن چکے تھے۔ 1992ء میں یہ تعداد 30 لاکھ جبکہ 1999ء میں 50 لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔ طالبان کی ’’اسلامی امارات‘‘ کے قیام کے بعد افیون کی پیداوار میں 9گنا اضافہ ہوا اور یہ کاروبار طالبان کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ بنا۔ 1999ء میں ڈیلی ٹیلی گراف کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے طالبان حکومت میں’’منشیات کے خاتمے‘‘ کے شعبے کے سربراہ عبدالرشید نے کہاکہ’’ ہم نے چرس کی پیداوار پر سخت پابندی عائد کررکھی ہے کیونکہ اس کو زیادہ تر مسلمان اور افغان استعمال کرتے ہیں لیکن افیون کی پیداوار کی اجازت ہے کیونکہ اس کو مغرب کے کافر استعمال کرتے ہیں ‘‘۔2013ء میں پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد تقریباً 65 لاکھ تک پہنچ چکی ہے، 25 فیصد نوجوان اس لعنت کا شکار ہیں۔ منشیات کی پیداوار اور کاروبار نیٹو فورسز کی موجودگی میں بھی جاری ہے کیونکہ امریکہ کے بہت سے حلیف جنگجو سردار بھی اس دھندے میں ملوث ہیں۔ ماضی کا ’’جہاد‘‘ جسے آج کل دہشت گردی کہا جاتا ہے، دراصل ایک صنعت اور منافع بخش کاروبار کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ 14 نومبر1997ء کو اس وقت اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے سکیورٹی کونسل کو ’’افغانستان کی صورتحال اور عالمی امن اور سکیورٹی پر اس کے اثرات‘‘ کے موضوع اپنی رپورٹ میں واضح طور پر کہا تھاکہ ’’ افغانستان میں جنگجو سرداروں، دہشت گردوں، منشیات کے سمگلروں پر مبنی بہت سے گروہ ہیں جن کو جنگ سے فائدہ ہی فائدہ ہے اور امن سے نقصان ہی نقصان ہے‘‘۔ یہ بیان اس سارے خونی کھلواڑ کی مالیاتی اور اقتصادی بنیادوں کو بے نقاب کرتا ہے ۔ان جہادیوں کے سربراہ غربت سے نکل کر امارت کی انتہائوں تک پہنچ چکے ہیں۔ جب جنگ ایک کاروبار اور بے روزگار نوجوانوں کے لیے روٹی روزی کا ذریعہ بن جائے تو کون اسے چھوڑتا ہے؟ طالبان نے امریکی حمایت میں ہی افغانستان پر اقتدار مستحکم کیا تھا۔ بعد ازاں تیل کی پائپ لائنوں اور مالیاتی مفادات کے ٹکرائو کی وجہ سے امریکہ اور طالبان کے تضادات ابھرے‘ جو ایک نئی خونریز جنگ میں تبدیل ہوگئے ۔ آج طالبان سے مذاکرات معاشی بحران کے شکار امریکی سامراج کی مجبوری ہے، لیکن طالبان کے درجنوں گروپ ایک دوسرے سے بھی برسر پیکار ہیں۔ کس گروپ سے کون، کیسے، کیا مذاکرات کرے گا؟ مذاکرات کا آغاز ہی مشکل ہے تو انجام بھلا کیسے ممکن ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ مذاکرات سے یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ طالبان نے اپنے دور حکومت میں اگر ظلم کی انتہا کی تھی تو امریکی سامراج نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ڈرون حملے تو صرف علامت ہیں۔ سامراجیوں نے افغانستان کوکلسٹر، ڈیزی کٹر بموں اور دوسرے جدید اسلحے کی تجربہ گاہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا گیا۔ یہ بھی بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد خواتین کی حالت میںکوئی بہتری آئی ہے۔ محروم طبقات کی خواتین آج بھی اسی طرح جبر اوربنیاد پرستی کا شکار ہیں جیسے طالبان کے دور میںتھیں۔ افغانستان جس آگ میں گزشتہ تین دہائیوں سے جل رہا ہے اس کے شعلے اب پاکستان کو بھی جلانے لگے ہیں۔ سماج پر بربریت کا خطرہ منڈلا رہا ہے لیکن ریاست اور میڈیا نے عوام کے لئے بنیاد پرستی یا امریکی سامراج کے علاوہ تیسری کسی آپشن کو ممنوع قرار دے رکھا ہے۔ قدامت پرست تجزیہ کار بالواسطہ (اور کبھی کبھی براہِ راست بھی) طالبان کی حمایت اور پیروی کا درس دے رہے ہیں تو لبرل اور سیکولر دانشور بالواسطہ یا براہِ راست امریکہ کو نجات دہندہ ٹھہرا رہے ہیں۔ درحقیقت یہ دونوں قوتیں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ عوام اس نظام کے ہاتھوں مر رہے ہیں جس کو قائم رکھنے پر بنیاد پرستی اور امریکی سامراج کا مکمل اتفاق ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت و معاشرت کا خاتمے کئے بغیر اس بربادی سے نجات ممکن نہیں۔ عظیم مارکسی استاد فریڈرک اینگلز نے کہا تھا:’’آج سے سو سال بعد انسانیت کے سامنے دو ہی راستے ہوں گے۔۔۔ سوشلزم یا بربریت۔‘‘ یہ تناظر آج ہمارے سامنے زندگی یا موت کا سوال بن کر کھڑا ہے!