نواز لیگ حکومت کی جانب سے بجلی بنانے والی نجی کمپنیوں پر پانچ سو ارب روپے نچھاور کرنے کے تین ماہ بعد ہی گردشی قرضہ ایک بار پھر ساڑھے چار سو ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔بجلی و پانی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے آنے والے مہینوں میں عوام کو بد ترین لوڈشیڈنگ کی نوید سنائی ہے،آنے والے مہینوں میں کیا غضب ہوگا؛ تاہم ''بدترین لوڈ شیڈنگ‘‘ابھی سے شروع ہو چکی ہے۔شہری علاقوں میں آٹھ سے دس گھنٹے جبکہ دیہات میں اٹھارہ گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ موجودہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ الیکشن مہم کے دوران'چند مہینوں‘ میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے وعدے کرنے والے بری طرح ناکام ہو چکے ہیں اور آنے والے دنوں میں یہ مسئلہ مزید گمبھیرہوگا۔
موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آنے کے فوراً بعد گردشی قرضے یا' سرکلر ڈیٹ‘ کو لوڈ شیڈنگ کی بنیادی وجہ قرار دیا تھا جبکہ سرکولر ڈیٹ کی وجہ بجلی کی پیداواری لاگت اور قیمت فروخت میں فرق بتائی گئی تھی۔ ان بنیادوں پر مسئلہ حل کرنے کے لیے عوام کو کڑوی گولی کھانی کی نصیحت کی گئی اور بجلی کی قیمت میں ہوشربا اضافہ کیا گیا؛چنانچہ پچھلے چند ماہ میں بجلی کی قیمت دوگنا ہو چکی ہے۔ ایک اوسط گھریلو صارف 16سے 18روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کا بل ادا کر رہا ہے جبکہ گردشی قرضے کا مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے۔اب کی بار اس قرضے کو اتارنے کے پیسے کہاں سے آئیں گے؟ مہنگائی کے ہاتھوں لاچار عوام پر مزید ٹیکس لگائے جائیں گے جس سے غربت بڑھے گی۔ نوٹ چھاپے جائیں گے جس سے مہنگائی اور افراط زر میں اضافہ ہوگا یا پھر سخت شرائط پر مزید قرضے لیے جائیں گے جن پر مزید سود ادا کرنا پڑے گا۔نتیجتاً بجٹ خسارہ بڑھے گا، معاشی بحران گہرا ہو گا جس کا تمام تر بوجھ ایک بار پھر عوام پر ڈال دیا جائے گا۔ بے حس حکمران خود اس حد تک ابہام کا شکار ہیں کہ تلخ حقائق کے طرف دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔
پاکستان کے حکمران طبقات کے مفادات ہمیشہ سے سماجی ترقی اور خوشحالی سے متضاد رہے ہیں۔ اپنی شرح منافع میں اضافے کے لیے مقامی سرمایہ دار ٹیکس، بجلی، گیس کی چوری، کالی معیشت اور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کی لوٹ مار میں حصہ داری جیسے طریقوں پرانحصار کرتے رہے ہیں۔ توانائی کے موجودہ بحران کی بنیادیں بھی 1990ء کی دہائی کے اوائل میں رکھی گئی تھیں جب آئی ایم ایف کے حکم پر بجلی کی پیداوار کے سستے طریقوں کو رد کرتے ہوئے نجی شعبے کے تحت تیل سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کیے گئے۔1990ء کی دہائی میں پاکستان جیسے تیل درآمد کرنے والے ملک کے لیے تیل سے بجلی کی پیدا وار پن بجلی کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ مہنگی تھی لیکن سامراجی کمپنیوں اور مقامی سرمایہ داروں کے ہوشربا منافعوں کے پیش نظر بجلی کی 90فیصد پیداواری صلاحیت کو تیل پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔نجی شعبے سے کیے جانے والے معاہدوں کی شرائط انتہائی خوفناک تھیں جنہیں کبھی عوام کے سامنے نہیں لایا گیا۔ان معاہدوں میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ نجی شعبے کے تحت چلنے والے پاور پلانٹ(آئی پی پیز) بجلی پیدا کریں یا نہ کریں ، حکومت انہیں کل پیداواری صلاحیت کے 60فیصد کے برابر ادائیگی کرنے کی پابندہوگی۔اسی طرح ان منصوبوں میں ہونے والی سرمایہ کاری کا صرف 20سے 25فیصد نجی شعبے کے ذمے تھا جبکہ باقی کا 75سے 80فیصد پاکستانی بنکوں نے آسان شرائط اور حکومت کی ذمہ داری پر قرضوں کی شکل میں فراہم کیا۔ان قرضوں (سود سمیت) کی ادائیگی بھی حکومت پاکستان کی ذمہ داری تھی اور حکومت اس ضمن میں نجی کمپنیوں کو ماہانہ ٹیرف ادا کرنے کی پابند تھی۔ یہ ایک بہتی گنگا تھی جس میں مقامی سرمایہ داروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں ، ریاستی اور حکومتی عہدہ داروں نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اشنان کیا اور آج تک کررہے ہیں جبکہ عوام ہر روزگھنٹوں لوڈ شیڈنگ کی اذیت برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ ''توانائی کے نئے منصوبوں‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے پرانے اور آلودگی پھیلانے والے پلانٹ 1100ڈالر فی KWhکے حساب سے درآمد کیے گئے جبکہ منڈی میں نئے اور زیادہ کارگر پلانٹ 500ڈالر فی KWhپر دستیاب تھے۔ لوٹ مار اور بدعنوانی کا اندازہ 1997ء میں کوٹ ادو پاورکمپنی (KAPCO) کی نجکاری سے لگایا جاسکتا ہے جس کے 36فیصد شیئر ایک برطانوی کمپنی کو بیچ کر مینجمنٹ بھی اسی کمپنی کے سپرد کر دی گئی اور نجکاری کے بعد حکومت اپنے ہی پلانٹ پر 2.4امریکی سینٹ فی KWhکی لاگت سے بننے والی بجلی تقریباً تین گنا قیمت پر خریدنے لگی۔
گزشتہ دو دہائیوں میں نجی کمپنیوں کی ڈاکہ زنی کم ہونے کے بجائے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 1994ء سے اب تک غیر ملکی کمپنیاں 27ارب ڈالر ملک سے باہر منتقل کرچکی ہیں۔ فروری 2013ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق چار بڑی IPPsکے سالانہ منافعوں میں اضافے کی شرح 50فیصد ہے۔نجکاری کے اس کھلواڑ سے پہلے پاکستان میں بجلی کی کل پیداوار کا 70فیصد سے زائد پن بجلی پر مشتمل تھا جواب 30فیصد سے کم ہوچکا ہے۔اس وقت پن بجلی کی پیداواری لاگت 0.16روپے فی KWhہے جبکہ گیس سے 4.24روپے فی KWh، ایٹمی توانائی سے 1.13روپے فی KWhاور تیل سے 18.89روپے فی KWhکی لاگت پر بجلی پیدا ہوتی ہے۔ٹائم میگزین کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ''توانائی کا بحران پاکستانی معیشت کوسالانہ 10ارب ڈالر)تقریباً ایک ہزارارب روپے)کا نقصان پہنچا رہا ہے۔بجلی کی پیداوار کے لیے تیل کی درآمد حکومت کو مقروض کرتی چلی جارہی ہے اور حکومت کے پاس تعلیم اور علاج جیسی بنیادی سہولیات پر خرچ کر نے کے لیے پیسے نہیں ہیں‘‘۔2005ء میں بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ 84ارب روپے تھا جو 2012ء میں 872ارب روپے تک پہنچ چکا تھااوراب 500ارب روپے کی ادائیگی کی بعد بھی 450ارب روپے پر کھڑا ہے۔IPPsکو حکومت کی جانب سے کی جانے والی 'ادائیگی‘ بہت جلد دفاعی اخراجات سے بھی تجاوزکر جائے گی۔
پاکستان میں اس وقت بھی بجلی کی پیداواری صلاحیت ضرورت سے تقریباً پانچ ہزار میگاواٹ زیادہ ہے۔نئے ڈیم بنا کر نہ صرف لاکھوں ایکڑ زمین کو زیر کاشت لایا جاسکتا ہے بلکہ ایک لاکھ میگا واٹ پن بجلی بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔اس کے علاوہ نئے اندازوں کے مطابق ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ساڑھے تین لاکھ میگا واٹ سے زائد ہے جبکہ کوئلے کے ذخائر کا تخمینہ 186ارب ٹن ہے۔ ان ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے ضرورت سے درجنوں گنا زیادہ سستی بجلی پیدا کر کے توانائی کے بحران کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جاسکتا ہے لیکن سب سے بڑی رکاوٹ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس میں ٹیکنالوجی اور پیداوارکا مقصد انسانی ضروریات کی تکمیل کے بجائے منافع ہے۔
اس نظام کے تحت بجلی کے شارٹ فال اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔توانائی جیسی بنیادی سماجی اور معاشی ضرورت کی عدم دستیابی پاکستانی سرمایہ داری کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔وقتی مالی مفادات،کرپشن اور لوٹ مارکو دوررس معاشی منصوبہ بندی پرفوقیت دینے والے پاکستانی حکمران طبقے کو خود اس نظام اور اپنے اقتدار پر اعتماد نہیں ہے۔اس ملک کی بیوروکریسی، سیاستدان اور سرمایہ دارکم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مال لوٹ کر فرار ہونے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔دو دہائیوں کے دوران کروڑوں انسانوں کا خون نچوڑکراربوں ڈالر کمانے والی نجی کمپنیوںکو قومی ملکیت میں لے کر لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ ایک گھنٹے میں حل کیا جاسکتا ہے،لیکن ان کمپنیوں کے مالکان بالواسطہ یا براہ راست طور پر خودشریک اقتدارہیں؛ چنانچہ ان حکمرانوں سے کسی بھلائی کی امید سراسر خود فریبی ہے۔ اس مسئلے کا حتمی حل حاکمیتِ زر کے خاتمے سے مشروط ہے۔