"DLK" (space) message & send to 7575

جو مبارک ہو، وہ سال بھی آئے گا!

2013ء کا آخری سورج بھی شاید کسی بڑی سماجی تبدیلی کا نظارا کیے بغیر ہی ڈوب جائے گا لیکن محنت کرنے والے اربوںجاں فشاں انسانوں کی امیدکا سورج کبھی نہیں ڈوبے گا۔2013ء میں نجات کے لیے انسانیت کی جستجو کم ہونے کے بجائے اور بڑھ چکی ہے۔ طبقاتی استحصال اور سرمائے کے جبر سے آزادی حاصل کرنے کی یہ آرزو 2014ء میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی رگوں میں برقی دھارابن کر ایک انقلابی طوفان کی شکل اختیار کر سکتی ہے جو ناگزیر طور پر گلیوں اور بازاروں، کھیتوں اور کھلیانوں، فیکٹریوں اور ملوں، شہروں اور دیہاتوں کو اپنی لپیٹ میں لینے کی طرف بڑھے گا ۔نسبتاً جمود کی دو دہائیوں کے بعد 2011ء دنیا بھر میں بڑی تحریکوں کا سال تھا۔اس سال سرمایہ دارانہ نظام کو مسترد کرتے ہوئے عالمی سطح پربڑے عوامی مظاہرے ہوئے۔ دنیا بھر میں 900 سے زیادہ شہروں میں 'وال سٹریٹ پر قبضے‘ کی تحریک کی حمایت میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے کمیونسٹ مینی فیسٹو کے ان اختتامی الفاظ کی سچائی کو ثابت کر رہے تھے کہ ''دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ!‘‘
تاہم یہ تحریکیں انقلاب کی منزل کو نہ پا سکیں۔ انقلابی قیادت کے فقدان کی وجہ سے حکمران طبقہ اپنے چہرے بدل کر نظام کو بچانے میں کامیاب رہا جبکہ دنیا بھر میں عمومی طور پر معاشی اور سماجی حالات پہلے سے کہیں بدتر ہو گئے۔2011ء اور 12ء کی طرح 2013ء میں بھی سرمایہ دارانہ نظام عالمی طور ایک شدید بحران کی زد میں رہا اور اب پہلے سے زیادہ گہری عالمی کساد بازاری کی جانب بڑھ رہا ہے۔ سرمایہ داری کے سنجیدہ دانشور مستقبل قریب میں کسی بہتری اور معاشی بحالی سے ناامید دکھائی دیتے ہیں۔نوبل انعام یافتہ معیشت دان پال کروگ مین نے 17نومبر 2013ء کو نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ''پچھلے پانچ سالوں میں جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ ایک نیا معمول ہے۔یہ بحران ایک یا دو سال نہیں بلکہ کئی دہائیاں جاری رہے گا۔نظر تو یہی آرہا ہے کہ آنے والے لمبے عرصے تک معاشی بحران کے قوانین ہی معیشت پر لاگو رہیں گے‘‘۔
2013ء کا پورا سال یورپ کی ریاستیں محنت کشوں اور نوجوانوں کے احتجاجوں سے کانپتی رہیں۔ان تحریکوں کو نہ تو آمرانہ حکومتیں کچل سکتی ہیں اور نہ ہی موجودہ وقت میں فسطائیت کو بڑی سماجی بنیادیں میسر ہیں۔اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے راستے میں اصل رکاوٹ سوشل ڈیموکریسی اور روایتی ٹریڈ یونین قیادتیں ہیں،محنت کش طبقے سے غداری اصلاح پسندی کی خصلت میں شامل ہے۔ امریکہ میں بھی محنت کش اور نوجوان دونوں بڑی پارٹیوں سے بیزارنظر آرہے ہیں۔ 
شرح نمومیں تیز رفتارگراوٹ، روپے کی قدر میں تیزی سے کمی اورانفرا سٹرکچرکی زبوں حالی سے ہندوستان کے مشہور''معاشی معجزے‘‘ کی چمک دمک ماند پڑ چکی ہے۔ نریندر مودی کا فسطائی ابھار بھارت کے پرولتاریہ کے لیے ایک تشویش ناک انتباہ ہے۔ مودی، ٹاٹا اور امبانی جیسے ہندوستان کے بڑے کارپوریٹ گھرانوں کا پسندیدہ لیڈر ہے۔انیل امبانی نے کچھ دن پہلے ایک محفل میں برملا کہا کہ ''مودی انسانوں کا دیوتا، لیڈروں کا لیڈراور بادشاہوںکا بادشاہ ہے‘‘ ۔ ہندوستان کے امیر ترین سرمایہ دار کے یہ الفاظ بھارت کے غریبوں کے خلاف اعلان جنگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔کانگریس کی سیکو لر شعبدہ بازی سے ہندو بنیاد پرستی اور رجعت کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ۔''عام آدمی پارٹی‘‘ کی تمام تر نعرہ بازی کے باوجوددہلی میں اس کی حکومت بننے پر بڑے کاروباری حضرات کی طرف سے ملنے والی مبارکبادیں اس نئی سیاسی جماعت کی اصلیت کو بے نقاب کرتی ہیں۔آنے والے دنوں میں حکمران طبقے کے پے در پے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کی کمیونسٹ پارٹیوں کو اصلاح پسندی کی روش ترک کر کے طبقاتی بنیادوں پر سیاست کرتے ہوئے انقلابی سوشلزم کی راہ پرچلنا ہوگا۔
چین میں جاری بے چینی واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ اس سال کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کی منتقلی دس برس قبل کے مقابلے میں کہیں زیادہ پرانتشار تھی۔ آج چین میں عدم مساوات پوری دنیا سے زیادہ ہے۔ نیچے سے اٹھنے والی عوام کی تحریکیںاور محنت کشوں کی ہڑتالیں کمیونسٹ پارٹی(جو نہ کمیونسٹ ہے نہ پارٹی)کی آمریت میں دراڑیں ڈال رہی ہیں۔ چینی بیوروکریسی کینشین ازم کے مصنوعی طریقے سے معاشی شرح نمو کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن یہ عمل زیادہ دیر تک نہیں چل پائے گا۔ چین کا سماج درحقیقت ایک بڑے دھماکے کے لیے پک کرتیارہوچکا ہے۔نپولین نے کہا تھا:''جب چین جاگے گا تودنیا دہل جائے گی‘‘۔ چین، جاپان اور جنوبی کوریا کے درمیان سرحدی تنازعے (جن کی بنیاد معدنیات کے وسیع ذخائر ہیں)اس خطے میں تباہ کن کشیدگی کو جنم دے سکتے ہیں۔اسی طرح امریکہ اور چین کے مابین متضاد اور نازک تعلقات، معاشی بحران میں شدت کے ساتھ فلپائن سے لے کر ولاڈیوسٹاک (روس) تک بڑے پیمانے پر ہلچل پیدا کر سکتے ہیں۔ 
اگرچہ سی آئی اے کامنجھا ہوا اہلکار اوراوباما کا مشیر بروس ریڈل امریکی سامراج اور اخوان المسلمون کے درمیان موقع پرستی کی بنیاد پردوبارہ ملاپ کرانے میںکامیاب ہوگیا تھا لیکن مورسی کو2011ء سے بھی کئی گنا بڑی عوامی تحریک نے اکھاڑ پھینکا۔جنرل سیسی سے وابستہ مصری عوام کی امیدیں بھی جلد ٹوٹ جائیں گی۔خانہ جنگی نے شام کو بربادکرڈالا ہے،فریقین کا امتحان لیتی ہوئی یہ خون ریز جنگ شام کو ٹکڑوں میں تقسیم کر سکتی ہے۔شام پر حملہ کرنے سے پہلے ہی جنگ سے دستبرداری امریکی سامراج کی معاشی، سیاسی اور عسکری تنزلی کی غمازی کرتی ہے۔ لیبیا میں کشیدگی اور عدم استحکام مسلسل جاری ہے۔ بحرین، کویت،اردن اور مشرق وسطیٰ کے حکمران عوامی تحریکوں کا شکار بننے سے خوفزدہ ہیں۔ اسرائیل فلسطین تنازع ایک رستا ہوا ناسور بن چکا ہے۔ دو ریاستوں پر مبنی حل اپنی موت آ پ مر چکا ہے۔ واضح ہوچکا ہے کہ اس تنازعے کو سرمایہ دارانہ بنیادوں پرحل نہیں کیاجا سکتا۔ ایرانی حکمران اشرافیہ عوام کی بے چینی اور معاشی بحران کے پیش نظر سامراج سے مصالحت کی نئی روش اختیارکر چکی ہے ؛ تاہم اس کے زیادہ عرصہ چلنے کے امکانات کم ہیں۔
شاویزکی موت کے بعد وینزویلا میں سوشلسٹوں کی انتخابی فتوحات اور لاطینی امریکہ میں بائیں بازو کی حکومتوں کے ابھار نے اس براعظم میں انقلابی لہر کی پسپائی کے دعوئوں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ 
پاکستان اورافغانستان میں بنیاد پرستوں کی دہشت گردی اور سامراجی جارحیت کے ہاتھوں تباہی مزید اذیت ناک ہو چکی ہے۔کالا دھن سرطان کے ناسورکی طرح پھیل کر اب ریاست اور سماج کے تمام اعضا میں سرایت کر چکا ہے۔سیاستدانوںاور لبرل دانشوروں سمیت حکمران اشرافیہ کے تمام طبقے اس گھناؤنے کھیل میں ملوث ہیں۔جمہوری حکومت سے جمہوری حکومت کو اقتدار کی منتقلی نے رعایا کی ذلت اور محرومی میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے۔2013ء میں روزانہ 1184بچے بھوک سے مرتے رہے، علاج نہ ملنے کے باعث ان گنت مائیں زچگی کے دوران جان گنواتی رہیںاور بزرگ وقت سے پہلے رخصت ہوتے رہے، لاکھوں لوگ خط غربت سے نیچے گر گئے اور انسانیت سسکتی رہی۔۔۔۔۔اس ملک کے کروڑوں بدحال انسانوں کے لیے نیا سال کب چڑھے گا؟
دنیا میں کوئی خطہ سرمایہ داری کے سماجی اور معاشی بحران کی تباہ کاریوں سے نہیں بچ سکتا۔ حکمران اشرافیہ اور سامراجی آقااربوں انسانوںکو خوفناک اذیت اوربھیانک ذلت میں جھونک کر اربوں جمع کر رہے ہیں۔ ایسا نظام نہ تو جاری رہ سکتا ہے اور نہ ہی اسے جاری رہنے کا کوئی حق ہے۔ کسی ایک بھی بڑے ملک میں محنت کشوں کی انقلابی فتح کی صورت میں دنیا کے عوام گھروں میں بیٹھ کر ٹیلی وژن پر انقلاب دیکھنے تک محدود نہیں رہیں گے۔2014ء میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی نئی تحریکیں اس صبح کی طرف بڑھیں گی جو نسل انسانی کی نجات کا پیغام لے کر طلوع ہوںگی۔ وہی سال مبارک ہوگا جس میں انسان سرمائے کی حاکمیت سے آزادی حاصل کرے گا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں