"DLK" (space) message & send to 7575

مسمار ہوتے سہارے

پنجاب حکومت نے لاہور میں واقع 70سال پرانے 250 سے زائد بستروںپر مشتمل زچہ و بچہ کے لیے مخصوص لیڈی ولنگٹن ہسپتال کے بڑے حصے کو مسمار کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ اس ہسپتال میں ہر روز 70سے زائد بچوںکی پیدائش ہوتی ہے جبکہ سینکڑوںملازمین کام کرتے ہیں۔1930ء سے قائم یہ ہسپتال صوبے بھر میں خواتین اور بچوںکی صحت کے لیے نسبتاً سستی اور بہتر سہولتوںمیں شمار ہوتا ہے جہاںمحنت کش عوام مستفید ہوتے ہیں۔اطلاعات کے مطابق اس ہسپتال کو گرا کر یہاںپارک بنایا جائے گا جبکہ میٹرو بس کے رستے میں آنے والی ٹریفک کے لیے جگہ کشادہ کی جائے گی اور پل بنایا جائے گا۔
پاکستان میں خواتین کے ساتھ ہونے والا امتیازی سلوک کسی سے چھپا ہوا نہیں۔ ہر سال پانچ لاکھ سے زائد خواتین زچگی کے دوران مر جاتی ہیں اور اس گھناؤنی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت نہ کوئی اقدام کر رہی ہے اور نہ ہی کوئی نیا ہسپتال بنایا جا رہا ہے ۔تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باوجود 1991ء کے بعد سے یہاںکوئی نیا ٹیچنگ ہسپتال نہیںبنایا گیا۔ دیگر سرکاری ہسپتالوںکی حالت زار بھی انتہائی مخدوش ہے جہاںآپریشن تھیٹر سے لے کر وارڈ تک غلاظت کے ڈھیر ہیں اور طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سرکاری ہسپتالوںمیں چوہے اور دیگر بیماریاںپھیلانے والے جراثیم اور جانور کھلے عام پھرتے ہیں۔یہاںتک کہ نومولود بچوںسے لے کر فالج کے مریضوں تک کے اعضا چوہے کھا لیتے ہیں۔ طبی معائنے کے لیے موجود آلات اکثر خراب رہتے ہیں اور حکومت صحت کے بجٹ میںمسلسل کٹوتیاںکرتی جا رہی ہے ۔ان ہسپتالوںکو مناسب طریقے سے چلانا اور فنڈفراہم کرنا تو درکنار اب حکومت رہی سہی سہولت بھی چھیننے پر تل گئی ہے جو عوام کے حقوق کے قتل عام کے مترادف ہے ۔ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں خواتین کی حالت کے متعلق کیے گئے سروے میں پاکستان اور افغانستان آخری نمبروںپر ہیں۔یعنی صومالیہ سمیت افریقہ کے دیگر پسماندہ ممالک میں بھی خواتین کی حالت پاکستان کی خواتین سے نسبتاً بہتر ہے ۔اس سب کے ذمہ دار یقیناً یہ حکمران ہیںجو عوام سے ہر بنیادی سہولت چھینتے چلے جا رہے ہیں۔
عام انسانوںکے لیے علاج جیسی لازمی سہولیات کے بارے ہمارے مقامی اور محبِّ وطن حکمرانوںکی ایک طویل داستان ہے ۔ حکمرانوںکے مفادات ، سوچ اور رویے دوسرے تمام شعبوںکے علاوہ تعمیرات میںبھی واضح ہوتے ہیں۔اگرہم پچھلے ملینیم کا جائزہ لیںتو مغلیہ خاندان کی حکمرانی سب سے زیادہ طویل تھی۔ کسی بھی ثقافت کا سب سے ٹھوس اظہار اس کے فن تعمیر میںہی ہوتا ہے ۔گو اس دور کے حکمرانوں کے پاس شاندار انجینئر اور فن تعمیر کے ماہر اور فنکار تھے جن کی مہارت اورفن کی مثالیںمغلیہ دور کی خوبصورت اور دیو ہیکل عمارات میںنظر آتی ہیں لیکن تقریباً یہ ساری کی ساری عمارات مقبروں، محلوں، قلعوں اور مسجدوںپر مبنی ہیں۔ کہیںبھی ہمیںمقامی حکمرانوںکی کوئی ایسی یادگار نہیںملتی جو عام لوگوںکی فلاحاور ترقی کے لیے ہو۔کسی بڑی یونیورسٹی، تعلیمی ادارے یا ہسپتال کی کوئی قابل ذکر عمارت ان تاریخی عجوبوںمیں نہیںملتی۔تمام توجہ اپنی حشمت‘ طاقت اور جاہ و جلال کے قلعوںاور مقبروں پر ہی مرکوز رہی۔ تاج محل شاہجہان نے بنوایا تھا لیکن اس کو بنانے والے مزدوروں، کاریگروںکا کسی کو پتہ ہی نہیںہے ۔شہنشاہ کی محبت کی یہ 
یادگار گو آج دنیا کے سات عجوبوںمیں شامل ہوتی ہے لیکن یہ اپنے اوپر خون پسینہ بہانے والے محنت کشوںکے کسی نشان، کسی یاد سے عاری ہے ۔ ساحر لدھیانوی نے اسی درد کو محسوس کرتے ہوئے لکھا تھا:
میری محبوب انہیں بھی تو محبت ہو گی
جن کی رعنائی نے بخشی ہے اسے شکلِ جمیل
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوںکی محبت کا اڑایا ہے مذاق
لیکن پُر تعیش اور ہیروںجواہرات اور دولت کے انبار لگانے والے حکمرانوںکی اس سوچ اور پالیسی نے پورے برصغیر کو پسماندگی کی کھائی میںغرق کیے رکھا۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی کوئی اہم ایجاد یا دریافت اس عہد کی نمائندگی نہیں کرتی۔ایک جانب تمام ہنر اور ٹیکنالوجی کو ان نوادرات کی بلی چڑھا دیا گیا تو دوسری جانب سماج میں صنعتی اور تکنیکی ترقی کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔یہی وجہ ہے کہ 18ویں صدی کے آغاز تک برصغیر جنوب ایشیا مفتوح ہونے کے لیے ایک مرتبہ پھر پک چکا تھا۔اس خطے پر درجنوں بیرونی حملہ آوروںنے یونان سے لے کر ایران اور وسطی ایشیا سے مشرق وسطیٰ تک اس زرخیز سرزمین پر حملے اور قبضے کیے۔ لیکن ان تمام حملہ آوروںکا مسند اقتدار حاصل کرنے کے باوجود ثقافتی معیار اتنا پست تھا کہ یہاںکی زرخیز زمین، دریاؤںکے پانیوں، باغات اور اعلیٰ فصلوںکی کوکھ سے جنم لینے والی ثقافت کو تبدیل نہیںکر سکے۔ بلکہ اس سے زیادہ اعلیٰ معیار کی ثقافت میںخود جذب ہو گئے اور بے پناہ ثقافتوں کے ملاپ سے اس کا حصہ بن گئے۔ جنگی صلاحیت اور طاقت ضروری نہیں کہ بلند ثقافتی اور تہذیبی معیار کی حامل ہو۔بلکہ وہ تمدن کے لحاظ سے عموماً پست اور رجعتی ہوتی ہے ۔برطانوی سامراج وہ پہلا جارح تھا جس کے پاس برطانیہ کے صنعتی انقلاب کی وجہ سے زیادہ بلند معیار کی ٹیکنالوجی اور سائنسی فتوحات کی بنا پر ایڈوانس ثقافت تشکیل پائی تھی۔گو اس مغربی ثقافت اور اخلاقیات کے دوہرے معیار تھے لیکن سائنسی انقلابات کی وجہ سے سوچ اور رویے زیادہ جدید اور فعال شکل اختیار کر گئے تھے ۔اس پس منظر میںوہ اس ثقافت میں جذب نہیںہو سکے اور صنعتی انقلاب کی جدید ٹیکنالوجی کو یہاں متعارف کروایا۔گو ان کا مقصد سامراجی استحصال اور لوٹ کھسوٹتھی لیکن اس کارروائی کو زیادہ تیز اور مؤثر کرنے کے لیے انہوںنے یہاں تعلیمی اداروںاور ہسپتالوںکی تعمیرات شروع کیں۔ان کا مقصد ایسے ہنر مند مقامی افراد کی ایک پرت تیار کرنا تھا جو ان کے کاروبار، حکمرانی، ٹیکنالوجی، معیشت اور نظام ریاست کو چلا سکیں۔ اسی طرحانہوںنے نہروںاور آبپاشی کا ایک وسیع نظام قائم کیا۔ لیکن ریلوے، ٹیلی گراف اور سٹیمر وہ اہم انفراسٹرکچر کے شعبے تھے جن کے ذریعے ترسیل اور مال کو جلد از جلد حاصل کرنے کے ذرائع کے طور پر رائج کیا گیا۔ان تمام کاوشوں میں ان کا مقصد اپنی حاکمیت کو مضبوط کرنا ، اس کی جڑیںپھیلانا اور یہاںکے وسائل حاصل کرنا ہی تھا۔لیکن اس کا نتیجہ جدلیاتی طور پر اس کے بر عکس نکلا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بر صغیر کو قومی پہچان اور شناخت کا احساس ریلوے کا مرہون منت تھا جس نے پورے معاشرے کی شریانوںمیںپھیل کر اس کو ایک یکجہتی دی۔1857ء کی جنگ آزادی کے دوران یورپ میں واحد مفکر کارل مارکس تھا جس نے اس سرکشی کو آزادی کی جنگ قرار دیا جبکہ تمام دوسرے دانش وروںنے اس کو باغیانہ سرکشی گردانا۔ 1856ء میں مارکس نے اس عمل کو ان الفاظ میں بیان کیا تھا: 
'' انگریز سامراج ہندوستان میں جو ریل کی پٹڑی بچھا رہا ہے اس سے وہ اپنی ہی قبر کھود رہا ہے‘‘۔ اس عمل سے جو قومی شناخت اور جڑت بنی‘ وہی انگریز سامراج کے خلاف قومی آزادی کی تحریک کا موجب بنی۔ انگریز کے یہاںسے جانے کے باوجود قیادت کی غداریوں کے باعث نظام انگریز کا برقرارہا۔ ان کی جگہ ان سے زیادہ پست اور گرے ہوئے مقامی حکمران مسلّط ہو گئے ۔ جو آزادی حاصل ہوئی وہ مفلوج، ادھوری اور داغ داغتھی۔یہاںکے کروڑوں باسیوںکی تقدیریں نہ بدل سکیں۔ اس ‘‘ آزادی'' کے 67سال بعد پاکستان اور بھارت کے حکمرانوںنے ان معاشروںکو کیا دیا ہے؟ بھوک، غربت، بیماری اور ناخواندگی کی انتہا ہو چکی ہے ۔اگر آپ ان آزادی کے سالوںکی تعمیرات دیکھیں تو ان کا فن تعمیر اتنا بھدا ہے جو حکمرانوں کے پست تہذیبی و ثقافتی معیار اور گری ہوئی سوچ اور فلسفے کی غمازی کرتے ہیں۔ لیکن تعمیر و ترقی کے نام پر یہ حکمران ان سہولیات اور فلاحی اداروںکو بھی مسمار کر رہے ہیںجو عام انسانوںکے آسرے اور سہارے تھے۔ ادارے صرف دیواریں کھڑی کرنے سے نہیںبنتے‘ ان کی ایک تاریخ ، ایک تہذیب اور روایت ہوتی ہے۔ لیکن ان اداروں کو مسمار کر کے گویا تہذیب اور تاریخ کو بھی کچلا جا رہا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں