"DLK" (space) message & send to 7575

معاشی زوال کا منظر نامہ …(2)

اس گرتی ہوئی معیشت میں وزارت خزانہ چالبازی اور مصنوعی ہتھکنڈوں سے ملک چلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پاکستان کے کل غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائراس وقت 3.2ارب ڈالر ہیں جبکہ کمرشل بینکوں کے اسٹیٹ بینک کے پاس غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 4.8ارب ڈالر ہیں۔ آئی ایم ایف کا شدید دباؤ ہے کہ حکومت اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو نیچے نہ گرنے دے ۔ درحقیقت آئی ایم ایف سے حالیہ معاہدہ بھی اسی لیے کیا گیا تھا تاکہ زرمبادلہ کے ذخائرکوگرنے سے بچایا جائے اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے۔ لیکن اس معاہدے کے بعد سے ان ذخائر میں 2ارب ڈالرکی کمی آ چکی ہے۔ اس میں جہاں اسٹیٹ بینک روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کے لیے ڈالر خرچ کرتا رہا وہاں آئی ایم ایف نے بھی جتنے ڈالر دیے اس سے زیادہ واپس لے لیے۔ا س وقت بھی حکومت اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے کمرشل بینکوں کے ذخائر درآمدات کے لیے استعمال کر رہی ہے ۔اگست 2013ء میں اس اکاؤنٹ سے 190ملین ڈالر استعمال کیے گئے لیکن دسمبر 2013ء کے آخر تک یہ رقم 804ملین ڈالر تک پہنچ چکی تھی ، یعنی اگر اس اکاؤنٹ کو درآمدات کے لیے استعمال نہ کیا جاتا تو آج پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 2.5ارب ڈالر سے بھی کم ہوتے ۔اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ روپے کی قدرکوکسی طرح مصنوعی طور پر بچایا گیا ہے۔90کی دہائی میں بھی ایسی ہی صورتحال بنی تھی جب حکومتوں نے کمرشل بینکوں کی غیر ملکی کرنسی کو ضبط کر کے استعمال کیا تھا اور جب وقت نزع آیا تو اس اکاؤنٹ میں ایک ارب ڈالر تھے جبکہ کھاتہ داروں کو دس ارب ڈالر ادا کرنے تھے۔ اس وقت حکومت کے پاس کوئی رستہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ ملک بھر میں غیر ملکی کرنسی کے اکاؤنٹ منجمد کر دے۔
اسی طرح کی ہیرا پھیری تمام اعدا دوشمار میں کی جا رہی ہے۔ جی ڈی پی کے گروتھ ریٹ کے اعدادو شمار ہوں یا افراط زر ، بیروزگاری ہو یا خطِ غربت سے نیچے رہنے والے افراد کی تعداد ، حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کسی طور بھی درست نہیں۔ مزید ہیرا پھیری کے لیے جی ڈی پی کی بنیاد 1999-2000ء سے تبدیل کر کے 2005-06 ء کر دی گئی ہے جبکہ نیشنل اکاؤنٹس کا نظامِ پیمائش بھی 1993ء سے تبدیل کر کے 2008ء کر دیا گیا ہے۔ اتنے جدید نظام کو استعمال کرنے کی پاکستان میں کسی کے پاس قابلیت نہیں لیکن اس کا مقصد اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا ہے۔ اسی کے مطابق وزیر خزانہ نے دعوے کیے ہیں کہ جولائی سے ستمبر 2013ء کی سہ ماہی میں بھاری صنعت کے شعبے میں8.4فیصد سے نمو ہوئی جبکہ صرف ستمبر میں 12.8فیصد نمو ہوئی ہے۔ حقیقت میں یہ تمام اعداد و شماردرست نہیں ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق گھی کے شعبے میں 131فیصد نموہوئی، جوتوں کے شعبے میں 46.1 فیصد، اے سی 106.7فیصد، ٹی وی 86.4فیصد اورڈیزل 132.7فیصد۔ یہ اعداد و شمار دیکھ کر ہی غلط بیانی عیاں ہو جاتی ہے، خاص طور پر ستمبر کے مہینے کے اعداد وشمار میں بڑے پیمانے پر رد و بدل کیا گیا ہے۔
اسی طرح افراط زر کے اعداد و شمار میں بھی بڑے پیمانے پرردوبدل کیا گیا ہے۔ 2011-12ء کے بعد سے اس پیمانے میں بڑی تبدیلیاں کی گئیں جس میں صارفین کی ادا کردہ قیمتوں کی فہرست سی پی آئی کی بنیاد پر افراط زر میں سے خوراک کی اشیاء کی قیمتوں کا تناسب کم کر دیا گیا۔اسی طرح قدرتی گیس کی قیمتوں
میں بھی ہیر پھیر کیا گیا۔ جولائی 2012ء میں گھریلو صارفین کے لیے گیس کے بل کے سلیب کم کر دیے گئے تو ادارہ شماریات کی جانب سے اسے گیس کی قیمتوں میں49فیصد کمی کہا گیا۔ سی پی آئی میں گیس کا وزن 1.5756ہے، اس میں 49فیصد کمی سے افراط زر پر بڑا فرق پڑا۔ اسی طرح ادارہ شماریات بجلی کی قیمتوں کے صرف بنیادی اضافے کو افراط زر یا سی پی آئی میںشمارکرتا ہے جبکہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارج میں اضافے کو شمار نہیں کیا جاتا جس میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔گھروں کے کرایے میں بھی افراط زرکو ایک لمبے عرصے تک 6.5فیصد کی اوسط تک رکھا گیا ہے جو نومبر 2013ء میں 7.9فیصد کیا گیا۔پراپرٹی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی مناسبت سے یہ بہت کم ہے۔
حکومت کی جانب سے سٹیٹ بینک سے لیے جانے والے قرضے اور تیزی سے چھاپے جانے والے نوٹوں کا بھی افراط زر سے تعلق اعداد و شمار میں نظر نہیں آتا۔ روپے کی سپلائی کی شرح گزشتہ دوبرسوں سے اوسطاً15فیصد ہے جبکہ اندرونی قرضوں کی
شرح20.5فیصد ہے۔ اسی طرح مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک سے قرضہ لینے کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے ۔رواں مالی سال کے دوران یکم جولائی 2013ء سے 24جنوری 2014ء تک حکومت نے بجٹ کی سپورٹ کی مد میں اسٹیٹ بینک سے 725.5ارب روپے قرضہ لیا ہے ، یعنی اتنے بڑے پیمانے پر نوٹ چھاپے گئے ہیں ۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مالی سال کے اختتام پرگردش میں موجود کرنسی کا حجم 1.9کھرب روپے تھا جو 4جنوری 2014ء تک 2.1کھرب روپے ہو چکا ہے یعنی اس میں 11.8فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ نجی شعبے کو 256.6 ارب روپے کے قرضے دیے گئے جبکہ گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران 94ارب روپے کے قرضے دیے گئے تھے ، لیکن حیران کن طور پر جب حکومت کی جانب سے لیے جانے والے قرضے بڑھ رہے تھے ، اس وقت افراط زر میں کمی ہو رہی تھی۔ نومبر میں افراط زر11فیصدکی حد تک پہنچ چکی تھی جسے اب انہی جعلی طریقوں سے کم کر کے دکھایا جا رہا ہے ۔اب بھی جوافراط زر ہے وہ خوراک کی اشیاء میں اضافے کے باعث ہے۔ موجودہ فارمولے کے مطابق اگر روپے چھاپنے دگنا بھی کر دیے جائیں تو افراط زر میں معمولی سا اضافہ نظر آئے گا۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ افراط زر ماپنے کا طریقہ کار انتہائی غیر معیار ی اور مکارانہ ہے جس میں حکمران اپنی کامیاب حکمت عملی کا جھوٹا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ حقیقت میں اس افراط زر کے باعث غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی 2012-13ء کی سالانہ رپورٹ کے مطابق''ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ برسوں میں خوراک کی اشیاء پر بڑھنے والے افراط زر نے غریب طبقے کی بچت کو کھا لیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک
کے نچلے بیس فیصد افرادکا کل آمدن اور اخراجات میں حصہ صرف پانچ فیصد ہے۔ ملک کے نچلے بیس فیصد گھرانوں کی کل آمدن کی بچت کی شرح مالی سال 2002ء میں 12فیصد کے قریب تھی جو اب 2فیصد کے قریب رہ گئی ہے۔ درمیانے 60 فیصدگھرانوں کی بچتوں کی شرح بھی اس دورانیے میں کم ہوکر 10فیصد سے 6فیصد رہ گئی ہیں جبکہ امیر ترین بیس فیصدگھرانوں کی بچتوں کی شرح 23فیصد سے کم ہوکر 20فیصد رہ گئی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق آبادی کے بڑے حصے کی خوراک، تعلیم اور ایندھن پر اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جس کے باعث آمدن میں سے زیادہ بچت کرنا ممکن نہیں رہا۔
اسی طرح بیروزگاری کے غلط اعداد و شمار دیے جاتے ہیں۔ 2012-13ء کے اکنامک سروے کے مطابق بیروزگاری کی شرح 2003-04ء میں 7.7فیصد تھی جو 2010-11ء میں کم ہوکر 5.7 فیصد ہو گئی۔ اتنا بڑا جھوٹ پاکستان کے کسی بھی محنت کش کے لیے ہضم کرنا آسان نہیں۔ وفاقی ادارہ شماریات کی ایک اور سرکاری رپورٹ کے مطابق 15سے 19سال تک کے نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 11.3فیصد ہے۔ اسی طرح اس رپورٹ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بیروزگاری کی شرح اوسطاًدس فیصد سے زائد ہے ، یہ خود سرکاری اعداد و شمار میں تضاد کا ایک ثبوت ہے۔اس فہرست میں 60.5فیصدگھریلو خواتین کو بھی برسر روزگار بتایا گیا ہے کیونکہ وہ اپنے گھرکا کام خود کرتی ہیں۔ اسی طرح 38.9فیصد مرد اس لیے برسر روزگار ہیں کیونکہ وہ اپنے اکاؤنٹ کی دیکھ بھال کا کام کرتے ہیں۔ درحقیقت لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بند ہونے والی صنعتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اس سے بیروزگاری میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں