عوام کو معیشت کی بھول بھلیوں میں دھکیلنے والے حکمران گردشی قرضے کی گردان مسلسل دہراتے رہتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے آتے ہی480ارب روپے اس مد میں ادا کیے اور کہا کہ وہ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل کر لیں گے لیکن اب پھر گردشی قرضہ 200ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے اور لوڈ شیڈنگ بھی جاری ہے۔اگرچہ الیکشن سے پہلے بلند و بانگ دعوے کرنے والے حکمرانوں نے ابھی تک اپنا نام تبدیل نہیںکیا۔گردشی قرضے کی یہ رقم جب ادا کی جاتی ہے تو اس سے نہ صرف حکمرانوں کے بہت سے چہیتے فیض یاب ہوتے ہیں بلکہ اقتدار کے ایوانوں میں موجود وزیر ، مشیر اور دیگر بھی بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ دھوتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی 88فیصد سے کم ہوکر 75 فیصد ہوگئی ہے اور اب آمدن کے حساب سے لوڈ شیڈنگ کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کے مطابق جن علاقوں سے واپڈا کو زیادہ آمدن ہوتی ہے وہاں کم بجلی جائے گی اور جہاں کم آمدن ہوتی ہے وہاں لوڈشیڈنگ زیادہ ہو گی۔اس طرح اے سی استعمال کرنے والے اور دیگر امرا کے لیے لوڈ شیڈنگ کم کر دی جائے گی جبکہ ایک بلب اور پنکھا استعمال کرنے والے محنت کش عوام پر اس کا بوجھ بڑھ جائے گا۔
بجلی کی قیمتوں میں متواتر اضافے کے بجائے اگر بجلی پیدا کرنے والے نجی بجلی گھروں کے ساتھ کیے گئے معاہدے منسوخ کر دیے جائیں اور انہیں نیشنلائزکرکے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دے دیا جائے تو نہ صرف بجلی کی قیمتیں کئی گنا کم ہو سکتی ہیں بلکہ لوڈشیڈنگ بھی ایک دن میں ختم کی جا سکتی ہے ۔ اس سے نہ صرف عوام کی اذیت میں کمی آئے گی بلکہ صنعتیں بھی رواں دواں ہوں گی، روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور برآمدات کے ذریعے غیر ملکی زرمبادلہ بھی کمایا جا سکے گا، لیکن حکمران جن کے ذاتی بینک اکاؤنٹ اور جائدادیں بیرونی ممالک میں ہیں‘ انہیں کوئی پروا نہیں۔
پاکستان میں ٹیکسوں کی مد میں بھی طبقاتی خلیج واضح نظر آتی ہے۔ بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے عوام کی رہی سہی پونجی بھی حکومتی خزانے میں جمع کر لی جاتی ہے جبکہ بلاواسطہ ٹیکسوں کی وصولی انتہائی قلیل ہے اور دولت مند افراد پر ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی طرح بہت سے اہم سرکاری منافع بخش اداروں پر بھی کوئی ٹیکس نہیں۔ایک اندازے کے مطابق ایسے بہت سے اداروں کو انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 500ارب روپے سے زائد کی چھوٹ دی گئی ہے۔صرف ان ٹیکسوں کی وصولی سے جی ڈی پی میں ایک سے ڈیڑھ فیصد تک کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس میں ابھی نجی بجلی گھروں آئی پی پیز کو دی گئی چھوٹ شامل نہیں۔ اسی طرح اس سال بھی بجٹ میں طے کردہ ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہے گو کہ پہلے چھ ماہ میں سرکاری رپورٹوں کے مطابق کافی اضافہ ہوا ہے جس کی بڑی وجہ بنیادی ضرورت کی اشیاء پر ٹیکسوں میں اضافہ ہے ، لیکن اس کے باوجود پاکستان کا ٹیکسوں اور جی ڈی پی کا تناسب بدستور9فیصد سے کم رہنے کی توقع ہے جو دنیا میں سب سے کم ہے۔ وزیر خزانہ کی جانب سے اسے پانچ برسوں میں 15فیصد تک لے جانے کی بڑھکیں بھی دوسرے تمام دعوئوں کی طرح کھوکھلی ثابت ہو رہی ہیں۔
اس تمام زوال پذیر معیشت میں زر مبادلہ کے ذخائر کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کے لیے مارچ 2014ء تک حکومت جن سہاروں کو ڈھونڈ رہی ہے ان میں امریکہ کی جانب سے 600ملین ڈالر کولیشن سپورٹ فنڈ ہے جس کے جلد ملنے کی کوئی امید نہیں۔ اتصالات نے 2005ء میں کی گئی پی ٹی سی ایل کی نجکاری کی مد میں ابھی تک 800ملین ڈالر ادا کرنے ہیں‘ ان کے بھی جلد ملنے کا کوئی امکان نہیں ۔ اسی طرح ایک لمبے عرصے سے موبائل فون کی تھری ـجی ٹیکنالوجی کی فروخت کی بات کی جا رہی ہے جس کی مد میں 1.2ارب ڈالر کی آمدن متوقع ہے جبکہ دنیا فور جی میں داخل ہو رہی ہے۔ اس کے بکنے سے بھی پیسے پاکستان کو ملنے کا امکان کم ہے ۔ حکومت کریڈٹ سوئس کی قیادت میں بینکوں کے ایک کنسورشیم سے 250ملین ڈالر کی امداد مانگے گی جبکہ آئی ایم ایف بھی کارکردگی کا جائزہ لے کر 550ملین ڈالر جاری کرے گا۔ان تمام سہاروں کے ذریعے اگر مارچ تک ایک ارب ڈالر تک حاصل کر بھی لیا جاتا ہے تو زر مبادلہ کے ذخائر 3ارب ڈالر سے کم یا اس کے گرد ہی رہیں گے جس کے باعث روپے کی قدر پر دباؤ برقرار رہے گا۔آئی ایم ایف کی اپنی رپورٹ کے مطابق آنے والی دو سے تین سہ ماہی میں زرمبادلہ کے ذخائر کی حالت شدید دباؤ میں ہی رہے گی یہاں تک کہ اس سلسلے میں ایک بڑے بحران کو بھی خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آئی ایم ایف کی اپنے آپ کو نوازنے والی پالیسی کے تحت اسٹیٹ بینک مختلف ذریعوں سے زرمبادلہ اکٹھا کرتا رہے گا تا کہ آئی ایم ایف کی قسطیں باقاعدگی سے ادا ہوتی رہیں۔ ان قسطوں کی ادائیگی کے بعد پھرذخائر کی حالت وہی ہو گی لیکن قرضوں کا بوجھ اور ذمہ داریاںکئی گنا بڑھ چکی ہوں گی۔اس صورت حال میں بجٹ کا خسارہ اس مالی سال کے دوران جی ڈی پی کے 7سے 7.5فیصد تک پہنچ جائے گاجو 5.5فیصد کے ہدف سے بہت زیادہ ہے۔
عالمی سرمایہ داری کے نمائندہ جریدے اکانومسٹ کے اندازے کے مطابق تو پاکستان کے 2030ء تک اسی حالت میں رہنے کا خدشہ ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ'' پاکستان کی (معیشت کی )بڑھوتری عالمی سطح پر ہونے والے سیاسی واقعات اور امریکہ کے ساتھ اتحاد سے منسلک رہے گی۔ ہماری پیش گوئی کے مطابق جی ڈی پی کی حقیقی شرح نمو 2013ء سے 2030ء تک 4فیصد کی اوسط پر رہے گی اور اس عرصے میں فی فرد جی ڈی پی کی شرح نمو اوسطاً2.4فیصد سالانہ رہے گی۔ 2030ء تک پاکستان ایک ترقی پذیر ملک رہے گا‘‘۔
اس لیے آئندہ سال بھی روپے کی قدر میں بڑے پیمانے پر گراوٹ کے امکانات ہیں ۔ مصنوعی طور پر اس کو لمبے عرصے تک مستحکم نہیں رکھا جا سکتا اور عالمی سطح پر آنے والا معمولی سا بھی جھٹکا روپے کے لیے طوفان بن سکتا ہے۔ خاص طورپر تیل کی قیمتوں میں عالمی سطح پر معمولی اضافہ پاکستان کی نحیف معیشت کے لیے غیر معمولی ثابت ہوگا۔ اسی طرح آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کی تگ و دو میں لگی حکومت کو بنیادی انفرااسٹرکچر کے اخراجات میں کٹوتیاں کرنی پڑیں گی جس سے سماجی تانا بانا مزید بکھرنے کی طرف جائے گا۔ حقیقی افراط زر اب بھی بہت زیادہ ہے جو محنت کشوں کی آمدنی کو تیزی سے کھا رہا ہے جبکہ موجودہ حکومت کم ازکم تنخواہ میں اضافے کو ظالمانہ طور پر غیر ضروری سمجھتی ہے۔ ضروری اشیا کی قیمتوں میں کمی کا کوئی امکان نہیں بلکہ بجلی، پٹرول اور دوسری روز مرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ مختصر یہ کہ پاکستانی معیشت کے زوال کا سفر تیزی سے جاری ہے اور اس میں استحکام کے امکانات انتہائی کم ہیں ۔ بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا ہونے کے بھی کوئی امکان نہیں اور یوتھ لون جیسی اسکیمیں حکومت کی نا اہلی کا مزید بھانڈا پھوڑیں گی۔
تمام تجربات یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس معیشت کو بحال کرنے کے لیے تمام بھاری صنعت، بڑی جاگیروں اور معیشت پر حاوی بڑی اجارہ داریوں کو قومی تحویل میں لے کر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں د ینا پڑے گا جہاں ان کی پیداوار اور کام کا مقصد منافعے کے حصول کی بجائے انسانی ضروریات کی تکمیل اور سماج کی خوشحالی ہو۔ یہ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔اسی طرح معیشت کے موجودہ سودی گھن چکر سے نکلنا بھی اب سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ممکن نہیں رہا اور صرف سوشلسٹ انقلاب کے بعد بننے والی مزدور ریاست ہی آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے خون آلود آہنی شکنجوں سے محنت کش عوام کو چھٹکارا دلا سکتی ہے۔ (ختم)