اس ملک کی 67 سالہ تاریخ میں شاید ہی عوام نے کبھی خوشحالی، استحکام اور اطمینان کا وقت دیکھا ہوگا۔ انگریز آقائوں کے چلے جانے کے بعد ان کے بغل بچہ حکمران طبقے نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ''قومی آزادی‘‘ برطانوی راج کے بنائے گئے معاشی، سماجی، سیاسی اور ریاستی ڈھانچوں تک ہی محدود رہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے کی مختلف پرتوں میں نظریاتی ہم آہنگی اور ریاست کو چلانے کے طریقہ کار پر اتفاق رائے روز اوّل سے موجود نہ تھا۔ اس کی بنیادی وجہ تیسری دنیا کے لولے لنگڑے سرمایہ دارانہ نظام کی متروکیت اور بحران تھا‘ جس کے بل بوتے پر یہاں کی اشرافیہ کو سماج پر حکمرانی کرنا تھی۔ تکنیکی، مالیاتی اور ثقافتی طور پر پسماندہ اور نحیف پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ عالمی منڈی میں مقابلہ بازی کی سکت رکھتا تھا‘ نہ ہی سرمایہ داری کے تاریخی فرائض ادا کرنے کے قابل تھا۔
جدید انفراسٹرکچر، کلاسیکی سرمایہ دارانہ ریاست اور صنعتی انقلاب برپا کرنے کی نااہلیت نے پاکستان کی سرمایہ دارانہ اشرافیہ کو ایک طرف جاگیرداروں اور سرداروں سے مصالحت پر مجبور کیا تو دوسری طرف ان کے پاس سامراج کی اطاعت کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ حکمران طبقے کے اس بودے پن کا نتیجہ آج چھ دہائیوں بعد سب کے سامنے ہے۔ سماج ایک جیتی جاگتی لاش بن چکا ہے۔ یکجا اور صحت مند قومی ریاست کی تشکیل تو دور کی بات‘ یہاں ایک معقول حکمران طبقہ ہی پروان نہیں چڑھ سکا۔ سیاسی سازشیں اور ریاستی اداروں کا بحران مسلسل جاری ہے۔ حکمرانوں کے ان آپسی تضادات میں ریاستی ادارے مختلف دھڑے بندیوں کا شکار ہیں تو کارپوریٹ میڈیا اس سارے کھلواڑ کو سماجی نفسیات پر مسلط کرنے میں مصروف ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں محنت کش عوام کو حکمران طبقے کے نان ایشوز اور لوٹ مار کی لڑائیوں میں الجھانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے؛ تاہم تاریخ غیرمعمولی واقعات سے بھی واقف ہوتی ہے۔ عوام روز روز انقلابی تحریکیں برپا نہیں کرتے‘ لیکن جب وہ حکمران طبقے کی نفسیات کو رد کرتے ہوئے میدان عمل میں کودتے ہیں تو اپنی جدوجہد کے انمٹ نقوش تاریخ کے اوراق پر ثبت کر جاتے ہیں۔ ایسی انقلابی تحریکیں اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچ پائیں تو بھی مستقبل کے حکمرانوں کے لئے ڈرائونا خواب اور محنت کش طبقے کی آنے والی نسلوں کے لئے درخشاں روایات کا درجہ اختیار کر جاتی ہیں۔ پاکستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے ایسی ہی ایک میراث 1968-69ء کے انقلاب کی شکل میں آج کی نسل کے لئے چھوڑی ہے۔
پچھلی چند دہائیوں میں تمام تر سیاسی بحث کو عوام کے سلگتے ہوئے معاشی اور سماجی مسائل سے ہٹا کر ''جمہوریت بمقابلہ آمریت‘‘ کے جعلی تضاد تک محدود کر دیا گیا ہے۔ سابق بائیں بازو سے لے کر نام نہاد سول سوسائٹی، لبرل دانشوروں اور میڈیا تک، سب جمہوریت اور آمریت کے اس بے مقصد مذاکرے میں مشغول ہیں۔ اس ''جمہوری مباحثے‘‘ میں معاشی نظام کی ساخت، طریقہ کار اور سماج کے طبقاتی تضادات پر پردہ ڈال کر ''جمہوریت‘‘ کو ایک ایسی مقدس گائے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے‘ جس کی برکت سے ایک نہ ایک دن غربت، بیروزگاری، مہنگائی جیسے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک استحصالی نظام میں سیاسی جمہوریت ہمیشہ نامکمل اور مفلوج رہتی ہے۔ لینن نے کہا تھا: ''سیاست مجتمع شدہ معیشت کا عکس ہوتی ہے‘‘۔ جمہوریت اور آمریت ایک ہی نظام کو چلانے کے دو مختلف سیاسی طریقہ کار ہیں‘ لیکن حکمران طبقے کے دانشوروں نے سیاسی طریقہ کار کو ہی نظام بنا دیا ہے۔ اس ملک میں مختلف نظریاتی لبادوں میں کئی فوجی آمریتیں آئیں‘ جن کا مقصد عام طور پر بحران یا عدم استحکام کے عہد میں سرمایہ دارانہ نظام کے دوام کو یقینی بنانا تھا۔ ان آمریتوں میں معاشی استحصال سہتے سہتے عوام کا غم و غصہ جمع ہوکر ایک دہکتا ہوا آتش فشاں بن جاتا ہے‘ جو انقلاب کی شکل میں پھٹ کر پورے نظام کو اڑا سکتا ہے۔ ایسے نازک حالات میں ''جمہوریت‘‘ کا ''سیفٹی والو‘‘ استعمال کرتے ہوئے پورے سماج کو ''جمہوری عمل‘‘ کی بُھول بھلیوں میں الجھا دیا جاتا ہے۔ چہرے اور واردات کا طریقہ کار بدل کر کروڑوں انسانوں کا استحصال جاری رکھا جاتا ہے۔ ماضی میں جمہوری حکومتیں جھوٹے وعدوں، سطحی اصلاحات اور عوامی سیاست کی لفاظی کا سہارا لے لیا کرتی تھیں‘ لیکن آج ریاست اور معیشت کا انتشار اس قدر شدید ہے کہ یہ بیان بازی ممکن نہیں رہی۔
شریف برادران ترکی کے قدامت پرست وزیر اعظم طیب اردگان کے بڑے مرید ہیں۔ ''ٹرکش ماڈل‘‘ کے عین مطابق موجود ''جمہوری‘‘ حکومت کی نفسیات انتہائی جابرانہ اور طریقہ کار آمرانہ ہے۔ عام آدمی ایک طرف معاشی مسائل سے بدحال ہے تو دوسری طرف پولیس اور دوسرے اداروں کا جبر بڑھایا جارہا ہے۔ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے عوام کی طرف قانون کے نفاذ کے ذمہ دار اداروں کا رویہ مزید ہتک آمیز ہو گیا ہے۔ گھر سے نکلیں تو پولیس ناکوں کا لامتناہی سلسلہ نظر آتا ہے‘ جہاں روک کر غریب لوگوں کو ''تلاشی‘‘ اور پوچھ گچھ کے نام پر ذلیل کیا جاتا ہے۔ جن جرائم کی روک تھام کے لئے عوام کا جینا دوبھر کیا جا رہا ہے‘ وہ بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد کو کھلی سرپرستی حاصل ہے۔ اقتدار کا نشہ حکمرانوں کی باڈی لینگویج اور لہجے سے ٹپک رہا ہے۔ ماضی کے متعلق العنان بادشاہ اور فوجی آمر بھی جمہوری حکمرانوں سے کہیں زیادہ حقیقت پسند اور شائستہ ہوں گے۔ خاص لوگوں کی یہ ''جمہوری حکومت‘‘ زمینی حقائق اور عوام کے تلخ حالات زندگی سے مکمل طور پر لاتعلق ہے۔
پاکستان کی طرح عالمی سطح پر بھی معاشی بحران اور سرمایہ داروں کی نہ ختم ہونے والی منافعوں کی بھوک سرمایہ دارانہ جمہوریت کے مکروہ لبادے میں چھید کرتی جا رہی ہے۔ ماضی میں جمہوریت کے بڑے بڑے علمبرداروں کا رویہ اب معذرت خواہانہ ہے۔ ''دی اکانومسٹ‘‘ واضح طور پر لکھتا ہے: ''اس مشکل وقت میں سیاسی نظام سے بیزاری بڑھتی جا رہی ہے... آج امریکی سیاست میں پیسے کا کردار ماضی کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ جمہوریت برائے فروخت ہے اور امیر لوگ غربا کی نسبت زیادہ طاقتور ہیں۔ امریکہ کے ساتھ ساتھ جمہوریت کا امیج بھی تباہ و برباد ہو رہا ہے... سیاسی نظام اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے‘‘۔
سرمایہ دارانہ نظام کا عالمی بحران جلدی ختم ہونے والا نہیں۔ یورپ اور امریکہ میں معاشی بحالی بالکل جعلی اور سطحی ہے۔ سٹے بازی کی نئی لہر کے پیش نظر عین ممکن ہے عالمی معیشت 2008ء کی نسبت دگنے بحران کا شکار ہو جائے۔ پوری دنیا میں عوام کی معاشی بدحالی بڑھتی جا رہی ہے۔ حالیہ سالوں میں عوام کے غم و غصے اور بیزاری نے اپنی آخری حدود کو چھونے پر کئی ممالک میں انقلابی تحریکوں کو جنم دیا۔ انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں سامراج اور کارپوریٹ میڈیا ان عوامی تحریکوں کو سرمایہ دارانہ جمہوریت کے ''محفوظ راستے‘‘ پر موڑنے میں کامیاب رہے‘ لیکن مصر اور تیونس
میں آمریتوں کے خاتمے کے بعد بننے والی جمہوری حکومتوں کے خلاف عوامی بغاوتیں ثابت کرتی ہیں کہ جمہوریت کی چالبازی زیادہ دیر چلنے والی نہیں۔ ترکی میں مئی 2013ء میں حکومت کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں نے طیب اردگان کے اقتدار میں کئی دراڑیں ڈال دی ہیں۔ یہاں ہمیں سامراجیوں کے دہرے معیار بھی واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ وینزویلا اور یوکرائن میں منتخب حکومت کے خلاف فاشسٹ غنڈوں کے پُرتشدد مظاہرے سامراجی ''جمہوریت‘‘ کے عین مطابق ہیں جبکہ لاکھوں لوگ اگر اسرائیل میں نیتن یاہو یا ترکی میں طیب اردگان کے خلاف سڑکوں پر آئیں تو کارپوریٹ میڈیا کے منہ پر تالے لگ جاتے ہیں۔
مشرف کی نیم آمریت کے بعد جمہوریت کے چھ سالوں میں معاشی و سماجی عدمِ استحکام اور ریاستی خلفشار کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ نیم مردہ سرمایہ دارانہ معیشت پر چڑھا جمہوریت کا بہروپ اب بے نقاب ہوتا جا رہا ہے۔ عوام کی برداشت جواب دے رہی ہے۔ لبرل اور سیکولر قوتوں کی اصلاح پسندانہ سوچ بالکل بے بنیاد اور ہوائی ہے۔ مذہبی بنیاد پرستوں کی رہی سہی سماجی بنیادیں بھی ختم ہو گئی ہیں اور ریاست کے ایک مخصوص دھڑے کی پشت پناہی کے بغیر وہ اپنا وجود ایک دن بھی برقرار نہیں رکھ سکتے۔ امریکہ کے دوسرے صدر جان ایڈمز نے طبقاتی سماج میں جمہوریت کے ڈرامے کے بارے میں کہا تھا کہ ''جمہوریت زیادہ لمبے عرصے تک نہیں چل سکتی۔ یہ جلد ہی اپنا قتل خود کر لیتی ہے۔ آج تک کوئی ایسی جمہوریت نہیں آئی جس نے خودکشی نہ کی ہو‘‘۔ ترقی یافتہ ممالک میں نسبتاً صحت مند جمہوریتیں معاشی خوشحالی کے عہد میں پروان چڑھی تھیں۔ آج معیشت کی حالت ماضی کے برعکس ہے۔ سرمایہ داری کی یہ جمہوریت امیروں کے لئے امیروں کی حکومت ہے۔ محنت کش عوام کو جمہوری حقوق تب ہی ملیں گے جب معاشی غلامی کا یہ نظام ختم ہوگا۔ حقیقی جمہوریت کی جدوجہد سرمایہ دارانہ نظام پر ضرب لگائے بغیر شروع ہی نہیں ہو سکتی!