"DLK" (space) message & send to 7575

جبر مسلط نہ کیا جائے

کچھ دن پہلے ''اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ نے بچوں کی شادی پر پابندی کے قانون مجریہ 1929ء اور1961ء کے فیملی لا آرڈیننس کو غیر اسلامی قرار دے دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کونسل نے نوعمر بچیوں کی شادی اور دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت کی پابندی ہٹانے کی سفارش کی ہے۔یہ ادارہ کچھ عرصہ قبل جنسی زیادتی کے کیس میں ڈی این اے ٹیسٹ کے استعمال کو بھی ''غیر اسلامی‘‘ قرار دے چکا ہے۔ کونسل کا اصرار ہے کہ جنسی زیادتی کا شکار خاتون اپنا موقف ثابت کرنے کے لیے چار عاقل، بالغ، نیک اور صالح مرد حضرات کو پیش کرے جنہوں نے سارا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو، بصورت دیگر اسے قصور وار سمجھا جائے گا اور سزا ملے گی۔ موجودہ دائیں بازو کی حکومت کے وزیر مذہبی امورنے کونسل کی حالیہ سفارشات کی تائید کی ہے جس سے اس ملک کے حکمران طبقات کی نفسیات ایک بار پھر واضح ہوکر سامنے آئی ہے۔ یہ ادارہ 1962ء کے آئین کے تحت ''مشاورتی کونسل برائے نظریہ اسلام‘‘ کے نام سے وجود میں آیا تھا۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ادارے کی تنظیم نو کی گئی اور نام تبدیل کر کے ''اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ رکھ دیا گیا۔
آج کل اسلامی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ بہت بڑھ گیا ہے۔ ''طالبان‘‘ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ آئین غیر شرعی ہے اور وہ نفاذ شریعت کے لیے 50ہزار بے گناہ شہریوں کو قتل کرنے میں حق بجانب ہیں۔دوسری طرف سرکاری مذاکراتی کمیٹی کے ارکان طالبان کو قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ آئین شریعت کے عین مطابق ہے لہٰذا ''امن‘‘ قائم کیا جائے۔کوئی سوات کے ''مولوی‘‘ فضل اللہ کو امیر المومنین بنانا چاہتا ہے تو کوئی اسی ریاستی ڈھانچے اور قوانین کو مزید '' اسلامی‘‘ بنا کر اقتدار اور دولت کے مزے لوٹنا چاہتا ہے۔کون نہیں جانتا کہ دونوں اطراف ریاست کے بعض عناصر کی پشت پناہی کے بغیر ایک ہفتہ بھی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتیں۔کچھ عرصہ قبل مولانا مودودی کے صاحب زادے فاروق مودودی نے جناح صاحب کے بارے میں اپنے والد کے خیالات بیان کیے کہ ''جو آدمی اسلامی لباس نہیں پہن سکتا وہ اسلامی ریاست کیسے بنا سکتا ہے‘‘۔
یہاں ہر فرقے کے علما کی اپنی اپنی شریعت ہے۔ یہ حضرات اپنی طاقت، مقبولیت اور سماج پر نفسیاتی اثر میں اضافے کے لیے چال ڈھال، رہن سہن، لباس، عادات و اطوار، زبان اور بعض انتہائی نازک اور نجی معاملات و فرائض پر فتوے دیتے رہتے ہیں۔ قرآن کی تفسیر اور احادیث کی تشریح، ہر ایک کی اپنی اپنی ہے۔ شلوار ٹخنوں سے کتنی اوپر ہونی چاہئے جیسے معاملات پر نوبت مار دھاڑ تک پہنچ جاتی ہے۔اذان اور نماز کا طریقہ ہر ایک کا اپنا ہے اوربعض مساجد کے باہر مخالف فرقے کا داخلہ ممنوع قرار دینے والی تختیاں موجود ہیں۔مولانا حضرات کی داڑھی اور پگڑی کے انداز تک مختلف ہیں۔اسی طرح خواتین کے حجاب اور برقعوں کی بھی فرقوں کے اعتبار سے کئی'' ورائٹیاں ‘‘ موجود ہیں۔اب تو بہت سے ڈیزائنر بھی اس میدان میںکود پڑے ہیں جو برقعے،شیروانی، کرتے اور پگڑیوں کے سٹائل متعارف کروا کے خوب پیسہ کما رہے ہیں۔ 
جب معاشرے کا سماجی و معاشی ارتقاء اور نفسیاتی نشوونما رک جائے تو ایسے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یورپ کے تاریک عہد میں چرچ کی سب سے اہم بحث یہ تھی کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے سما سکتے ہیں۔ چرچ نے قاتل کا گناہ معاف کرنے کے لیے معاوضے بھی مقرر کیے ہوئے تھے۔ معاشرتی جمود کے ان حالات میں رجعت حاوی ہوجاتی ہے ، زبان و کلام میں مذہبیت بڑھ جاتی ہے۔ جھوٹ، چوری اور استحصال پر مذہب کا غلاف چڑھا دیا جاتا ہے۔ دن رات غریب کا خون پی کر دولت اور جائداد میں اضافہ کرنے والے مشہور زمانہ فراڈیئے، ''حاجی صاحب‘‘ کا لبادہ اوڑھ کر آخرت سنوارنے کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ کیا آج تک کسی نے یہ سوال پوچھا کہ مساجد اور مدرسوں کے نام پرزمینوں پر قبضے کرنا کب سے جائز ہوگیا ہے؟ خواتین کی طرف بھی یہی منافقانہ رویہ نظر آتا ہے۔ اس ملک میں 15سال یا اس سے کم عمر بچیوں کی شادی کی شرح 25 فیصد سے زائد ہے۔کھیلنے کودنے اور پڑھنے لکھنے کی عمر میںان بچیوں کی شعوری سطح بھلا اتنی ہوتی ہے کہ وہ اپنی 
زندگی کا سب سے اہم ترین فیصلہ کرسکیں،یا اس معاملے میں اپنی رائے کا اظہار ہی کرلیں؟غربت اور کم عمری کی شادی زچگی کے دوران پیچیدگیوںاور اموات کی دو بنیادی وجوہ ہیں۔ پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح جنوبی ایشیاء میں سب سے زیادہ ہے۔ ہر روز درجنوں خواتین نئی زندگیوں کو جنم دیتے ہوئے اپنی زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ یہاں ہر روز 1184بچے غربت، بھوک اور قابل علاج بیماریوں سے مرتے ہیں ، لیکن اس معاشی قتل عام کا سد باب کرنے سے زیادہ ضروری مسائل شاید کچھ اور ہیں۔ 
یہ کوئی حادثاتی امر نہیں بلکہ ایک شعوری منصوبہ بندی ہے جس کا مقصد مذہب اور لبرل ازم میں فساد کو ہوا دینا ہے ۔ یہ نان ایشوز اور بے معنی اختلافات کو مسلسل سماجی نفسیات پر مسلط کر کے اسے مسخ کرنے کی واردات ہے۔ جہاں برقعوں کا رجحان بڑھا ہے وہاں نیم عریاں لباسوں اور خواتین کو جنس بازار بنانے کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔گزشتہ چند دہائیوں میں میک اپ، فیشن اور کاسمیٹکس کی ایک بڑی اور منافع بخش منڈی پروان چڑھی ہے ۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے خوبصورتی کے بے ہودہ اور جعلی معیار متعارف کروائے ہیںاورایک دوسرے سے زیادہ حسین نظر آنے کی دوڑ میں درمیانے طبقے کے خواتین وحضرات پاگل ہوئے جارہے ہیں۔ حکمران اور بالائی درمیانے طبقے کی یہی اقدار اور سوچ محنت کش طبقے پر مسلط کی جاتی ہے۔ 
اس سے محرومی اور بیگانگی کے احساسات زیادہ گہرے ہوجاتے ہیں۔ آج بے روزگاری اور مہنگائی کے دور میں غریب انسان دوسری توکیا پہلی شادی کرنے کے قابل بھی نہیں رہا۔مغربی طرز زندگی کے فیشن، لباس، عادات و اطوار اور بیرون ملک عیاشی کے دورے اگر مہنگے ہیں تو مسلمانوں کے لیے حج جیسی عبادت کو بھی سستا نہیں رہنے دیا گیا۔
یہ کسی ایک مذہب کا مسئلہ نہیں ہے ، ہر مذہب کے ٹھیکیدار عقائد کو اپنے مفادات کے ساتھ ساتھ حکمران طبقے کا استحصال قائم رکھنے کے لیے اسی طرح استعمال کرتے ہیں۔1890ء میں جب بچیوں کی شادی کی کم سے کم عمر 10سے 12سال کرنے کا قانونی مسودہ پیش کیا گیا تھا تو ہندو اور مسلمان مذہبی پیشوائوں نے مشترکہ طور پر اس کی مخالفت کی تھی۔اس ملک میں اگر جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کو ''خاموشی‘‘ اختیار کرنے کا درس دیا جاتا ہے تو دہلی بھی دنیا میں ''ریپ کا دارالحکومت‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔لہٰذا صرف قوانین پاس کرنے سے خواتین اور کچلے ہوئے طبقات کو ان عذابوں سے چھٹکارا نہیں مل سکتا۔ قوانین بہت پاس ہوئے ہیں اور ہوں گے، لیکن صدیوں سے سرمائے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسان کو رہائی نہیں مل سکی۔جب تک فرسودہ سماجی رشتے، خاندانی جبر کے ڈھانچے اور پسماندگی و قدامت پرستی کی روایات پاش پاش نہیں ہوں گی ان تعصبات اور اذیتوں سے معاشرہ آزاد نہیں ہوگا۔ان تمام رشتوں، ڈھانچوں، روایات اور اقدار کی جڑیں نجی ملکیت اور منافع خوری کی بنیادوں میں پیوست ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں