جنوبی ایشیا میں یادگار واقعات کی مناسبت سے کئی دن ہر سال منائے جاتے ہیں؛ تاہم ایک واقعہ ایسا ہے جسے حکمران طبقے نے تاریخ کے اوراق سے کھرچ دینے کی پوری کوشش کی ہے۔ یہ 27 اپریل 1978ء کو افغانستان میں برپا ہونے والا ثور انقلاب ہے۔ سامراجی میڈیا، حکمران طبقے کے دانشور اور سرکاری تاریخ دان اس انقلاب سے پہلے اور بعد میں جنم لینے والے واقعات کو مسخ کر کے عوامی شعور سے مٹا دینے کی سعی میں جھوٹ اور منافقت کی ہر حد تک گئے ہیں۔ اس حقیقت پر پردہ ڈال دیا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کی تاریخ میں سب سے ریڈیکل سماجی، معاشی اور ثقافتی اصلاحات کا آغاز ثور انقلاب کے بعد افغانستان میں ہوا تھا۔ ان جرأت مندانہ اقدامات کا مقصد صدیوں سے مقامی اشرافیہ کے استحصال، پسماندگی، غربت اور مختلف سامراجی قوتوں کی اقتصادی زنجیروں میں جکڑے افغان عوام کو آزاد کروا کے ایک جدید اور حقیقی معنوں میں انسانی سماج کی تعمیر کا آغاز کرنا تھا۔ ثور انقلاب کی میراث آج بھی مذہبی بنیاد پرستی، سامراجیت اور جرائم پر مبنی سرمایہ داری کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں امید اور روشنی کے مینار کا درجہ رکھتی ہے۔
حکمران طبقے کے تاریخ دان اور دانشور دانستہ طور پر ثور انقلاب کو سوویت یونین کی فوج کشی کے ساتھ گڈمڈ کر دیتے ہیں۔ اس حقیقت کو چھپایا جاتا ہے کہ روسی فوجیں ثور انقلاب کے 18 ماہ بعد 29 دسمبر 1979ء کو افغانستان میں داخل ہوئی تھیں۔ انقلابی حکومت کے پہلے دو سربراہان نور محمد ترکئی اور حفیظ اللہ امین کو سوویت یونین کی افسر شاہانہ ریاست کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہ تھی۔ یہ دونوں انقلابی قائدین سوویت یونین سمیت کسی بھی ملک کی افغانستان میں سیاسی یا عسکری مداخلت کے سخت خلاف تھے۔ پڑوس میں آزادانہ طور پر پنپتا ہوا انقلاب سوویت
بیوروکریسی کے سیاسی مفادات پر ضرب لگا سکتا تھا؛ چنانچہ انقلاب کی حقیقی قیادت کا خاتمہ ضروری تھا۔ 14ستمبر 1979ء کو نور محمد ترکئی افغان صدارتی محل میں پراسرار طور پر مردہ پائے گئے۔ 27 دسمبر 1979ء کو 600 سے زائد روسی کمانڈوز نے '' آپریشن -333سٹارم‘‘ کے تحت تاجبگ محل پر حملہ کر دیا جس میں حفیظ اللہ امین کو ان کے بیٹے سمیت قتل کر دیا گیا۔ اس واقعے کے دو دن بعد روسی فوجیں باقاعدہ طور پر افغانستان میں داخل ہوگئیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ثور انقلاب ''پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان‘‘ ( پی ڈی پی اے) سے ہمدردی رکھنے والے افغان فوج کے افسروں اور جوانوں نے مسلح بغاوت کے ذریعے ''اوپر‘‘ سے برپا کیا تھا۔ مارکسی نقطہ نظر سے یہ کوئی کلاسیکی سوشلسٹ انقلاب نہ تھا اور پی ڈی پی اے کئی طرح کی نظریاتی، تنظیمی اور سیاسی کمزوریوں کا شکار تھی، لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ یہ انقلاب خطے کی تاریخ میں جاگیرداری کی ذلت، قبائلی پسماندگی، مذہبی جبر اور سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف سب سے بڑی بغاوت تھی۔ نسل در نسل سود خوروں اور جاگیرداروں کے استحصال کا شکار بننے والے افغان عوام کی اکثریت نے اس انقلاب کا خیرمقدم کیا تھا۔
سردار دائود کا تختہ الٹنے کے بعد ملٹری انقلابی کونسل کی جانب سے نافذ کئے گئے انقلابی قوانین ثور انقلاب کی حقیقی روح اور اساس کو واضح کرتے ہیں۔ انقلابی حکم نامے میں شامل ضابطہ نمبر6 کے ذریعے غریب کسانوں کے ذمے سود خوروں اور جاگیرداروں کا تمام واجب الادا قرضہ سود سمیت منسوخ کردیا گیا۔ یہ بے زمین کسان نسل در نسل سودی قرضے کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے اور ایک اندازے کے مطابق اس قرضے کا مجموعی حجم افغانستان کی سرکاری معیشت سے بھی زیادہ تھا۔ ضابطہ نمبر7 کے مطابق ''قانون کی نظر میں خواتین اور مردوں کی برابری کو یقینی بنایا جائے گا۔ بیوی کو شوہر سے کمتر بنانے والے جاگیردارانہ رشتوں کا خاتمہ کیا جائے گا‘‘۔ پیسے کے بدلے لڑکیوں کی شادی، زبردستی کی شادی اور بیوہ کی دوبارہ شادی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے قبائلی رسم و رواج کو جرم قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ شادی یا منگنی کی کم سے کم عمرکو لڑکیوں کے لئے 16سال جبکہ لڑکوں کے لئے 18سال مقرر کر کے بچپن کی شادیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ ضابطہ نمبر8 کے تحت جاگیرداروں اور شاہی خاندان کی تمام تر زمین کو بغیر کسی معاوضے کے ریاستی ملکیت میں لیتے ہوئے بے زمین اور غریب کسانوں میں تقسیم کردیا گیا۔ اس قانون کا سب سے اہم مقصد ''ملک کے سماجی و معاشی ڈھانچے میں سے جاگیرداری اور قبل از جاگیرداری کے رشتوں کا خاتمہ‘‘ تھا۔
انقلابی حکومت کے دوسرے ریڈیکل اقدامات میں پانی کی منصفانہ تقسیم اور کسانوں کی اشتراکی انجمنوںکا قیام شامل تھا۔ اس کے علاوہ ناخواندگی کے خاتمے کے لئے بڑے پیمانے کی مہم شروع کی گئی جس کے تحت 1979ء سے 1984ء تک 15لاکھ ان پڑھ لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا گیا۔ 1984ء میں تقریباً چار لاکھ مزید افراد 20000 خواندگی کورسوں کے ذریعے لکھنا پڑھنا سیکھ رہے تھے۔ حکومت کا ہدف 1986ء تک شہری علاقوں جبکہ 1990ء تک پورے افغانستان میں ناخواندگی کا خاتمہ تھا۔ پی ڈی پی اے حکومت نے ان تمام اقدامات کا آغاز سوویت فوجوں کی مداخلت سے پہلے کیا تھا۔ افغان عوام کی تقدیر بدلنے کے لئے انہیں سرمایہ دارانہ ریاست کا خاتمہ کرنا پڑا تھا۔ ثور انقلاب نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ سابق نوآبادیاتی ممالک کا ناتواں اور پیداواری صلاحیت سے عاری سرمایہ دار طبقہ معاشی اور ثقافتی طور پر اس قابل نہیں ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب کے انتہائی بنیادی فرائض بھی ادا کر سکے۔
ثور انقلاب کے انقلابی اقدامات پورے خطے میں جاگیرداری، سرمایہ داری اور سامراجی مفادات کے لئے خطرہ تھے۔ اسلام آباد، ریاض، لندن اور واشنگٹن تک طاقت کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ واضح امکانات موجود تھے کہ افغانستان میں انقلاب کے حاصلات سے متاثر ہوکر پورے خطے کے عوام سامراج اور اس کے استحصالی نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے؛ چنانچہ نومولود انقلاب کو کچل دینے کا فیصلہ کیا گیا، ''کمیونسٹ کافروں‘‘ کے خلاف ''سامراجی جہاد‘‘ کی پالیسی ترتیب دی گئی۔ امریکی سی آئی اے نے پاکستان کی مدد سے اپنی تاریخ کے سب سے بڑے خفیہ ''آپریشن سائیکلون‘‘ کا روسی فوجوں کی آمد سے چھ ماہ قبل آغاز کر دیا گیا۔ پیٹرو ڈالر کے ایندھن سے بنیاد پرستی، فرقہ واریت، جرائم اور دہشت گردی کی وہ آگ بھڑکائی گئی جس میں پورا خطہ آج بھی جل رہا ہے۔ جہادی ضروریات پوری کرنے کے لئے منشیات اور اسلحے کی سمگلنگ کا وسیع نیٹ ورک تشکیل دیا گیا۔ یہاں ہیروئن بنانے کی تکنیک سب سے پہلے سی آئی اے نے متعارف کرائی۔ منشیات اور جرائم کے کالے دھن کا دودھ پی کر وہ گینگ جوان ہوئے جنہیں آج ''طالبان‘‘ کہا جاتا ہے۔ انقلاب کی ناکامی سماج کو پسماندگی کی گہری کھائیوں میں دھکیل دیتی ہے، افغانستان میں یہی ہوا۔ سامراج کی ردانقلابی جنگ نے 36 برسوں میں افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عوام کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ایک دوسرے سے جڑے پاکستان اور افغانستان کا انقلاب بھی مشترک ہوگا۔ افغانستان میں انقلاب اور رد انقلاب نے ڈیورنڈ لائن کو بے معنی بنا دیا ہے۔ 27 اپریل 1979ء کو ثور انقلاب کی پہلی سالگرہ کے موقع پرکابل میں تقریر کرتے ہوئے نور محمد ترکئی نے کہا تھا ''ثور انقلاب صرف افغانستان کے محنت کشوں اور مسلح سپاہیوں کا انقلاب نہیں، یہ پوری دنیا کے محنت کشوں اور محکوموں کا انقلاب ہے۔ خلق پارٹی کی قیادت میں مسلح سپاہیوں کی مدد سے برپا ہونے والا یہ انقلاب پوری دنیا کے محنت کشوں کی عظیم کامیابی ہے۔ 1917ء کے اکتوبر انقلاب نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ہمارے انقلاب نے اکتوبر انقلاب سے رہنمائی اور شکتی حاصل کی ہے اور ایک بار پھر پوری دنیا کو ہلا کے رکھ دیا ہے‘‘۔ یہ الفاظ آج بھی افغانستان، پاکستان اور پورے خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو طبقاتی جڑت اور جدوجہد کا پیغام دے رہے ہیں کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے بغیر غربت، محرومی، دہشت گردی، قتل و غارت گری، سامراجی جارحیت اور مذہبی بنیادی پرستی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے!