"DLK" (space) message & send to 7575

منافرتوں کی یکجہتی

آج کل برصغیر پاک و ہند میں مذہبی ٹھیکیداروں اور قومی شاونسٹوں کی خوب چاندی ہے۔ بھارت میں نریندرا مودی پاکستان دشمنی کو جواز بنا کر ہندو بنیاد پرستی اور بھارتی نیشنل ازم کی آگ اگل رہا ہے تو پاکستان میں عمران خان، حمید گل جیسے حضرات جواباً ''قومی غیرت‘‘ کے نام پر مذہبی انتہاپسندی، تعصب اور نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ دونوں ممالک میں منافرت پھیلانے والے ان قدامت پرست عناصرکا مقصد عوام کے ذہنوں پر رجعت مسلط کر کے اپنی سیاسی طاقت اور مال میں اضافہ کرنا ہے۔ 
پاکستان میں کم و بیش ہر سیاسی جماعت کھل کر فوج اور آئی ایس آئی کے ساتھ اظہار یکجہتی کی مہم چلا رہی ہے۔ اس دوڑ میں مذہبی تنظیمیں سب سے آگے ہیں۔ اس دوران ایک نئی کھچڑی بھی پک رہی ہے۔ عمران خان، طاہرالقادری اور جماعت اسلامی 11مئی کو انتخابی دھاندلی کے خلاف مشترکہ تحریک چلانے کا اعلان کرچکے ہیں۔ الیکشن میں ہارنے والے کئی دوسرے سیاسی جغادری بھی اس کھیل میں شمولیت کا ارادہ ظاہرکررہے ہیں۔ نواز لیگ تذبذب کے عالم میں بے ہنگم بیان بازی کررہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں کے انتخابات کے لئے دھاندلی بہت چھوٹا لفظ ہے ، سب جانتے ہیں کہ یہاں انتخابی ''نتائج‘‘ کا تعین کونسی داخلی اور خارجی قوتیں کرتی ہیں۔ وزیر داخلہ کے اپنے بیان کے مطابق اگر ووٹوں کی گنتی اور جانچ پڑتال کا عمل دوبارہ شروع ہواتو بیشتر حلقوں کے نتائج کالعدم قرار پائیں گے۔اس کامطلب یہ ہے کہ 11مئی کے نتائج اتنے حیران کن تھے کہ ان پر جیتنے والوںکو بھی یقین نہیں آرہا تھا۔ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ فیصلہ کن قوتیں انجانے میں ایک طرف زیادہ ''زور‘‘ لگا بیٹھی ہیں۔
عمران خان کو اقتدار میں آنے کی زیادہ جلدی نہیں، خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت حاصل کرنے کے بعد تو بالکل بھی نہیں ہے۔ ریاست کی معاشی صورت حال کو مد نظر رکھا جائے تو اقتدار سے باہر رہ کر سیاست کرنا کہیں زیادہ آسان اور منافع بخش ہے۔ اقتدار میں بیٹھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے پاس کتنا اختیار ہے۔ ملک کی معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بناتے ہیں، خارجی اور داخلی پالیسیوں کا تعین عسکری و سویلین بیوروکریسی اور خفیہ ادارے کرتے ہیں۔ سیاستدانوں کے پاس ٹھیکے اور لائسنس دے کر کمیشن لینے، اندورنی و بیرونی دورے کرنے اورکھوکھلے جاہ وجلال کی نمائش جیسے کام ہی رہ جاتے ہیں۔ ان کی ذہنی قابلیت اور ثقافتی معیار بھی اتنا ہی ہے۔ جمہوری سرکس کے ان کرداروں کو اتنی آسائش بھی مل جائے توانہیں اورکیا چاہئے؟ اقتدارکو عوام کے ووٹوں سے مشروط کرنے والے سول سوسائٹی کے خود ساختہ دانشور یا تو حقیقتاً جاہل ہیں یا پھر اس ساری واردات کا حصہ۔ عوام کو یہ باورکروایا جاتا ہے کہ ان پر مہنگائی، بے روزگاری، غربت، لوڈ شیڈنگ اور لاعلاجی جیسے عذاب محض ''غلط ووٹ‘‘ دینے کی وجہ سے نازل ہوئے ہیں ، لہٰذا پانچ سال تک سب کچھ چپ چاپ برداشت کیا جائے۔ اس مخصوص طبقہ فکر کا کام ظلم کے لئے مظلوموں کو قصوروار ثابت کرنا ہے!
جس سماج کی بنیاد اقلیت کے ہاتھوں اکثریت کے استحصال پر قائم ہو وہاں استحکام اور امن و آشتی کبھی قائم نہیں ہوسکتی۔ لیکن جب استحصالی نظام اپنی کلاسیکی شکل میں بھی چلنے سے قاصر ہوجائے تو معاشی اور سماجی بحران پیدا ہوتا ہے۔ اس بحران کی شدت ریاست اور سیاست میں بھی انتشار پیدا کرتی ہے۔ عوام جب روز روز کی اذیت سے تنگ آجائیں تو نیچے سے ابھرنے والی انقلابی تحریک کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس صورت حال میں حقیقی تحریک کو قبل از وقت زائل کرنے کے لئے جعلی تحریکیںابھاری جاتی ہیں۔ مسائل کی شدت سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے جعلی مسئلے پیدا کئے جاتے ہیں۔ حقیقی دشمن کو چھپانے کے لئے جعلی دشمن تراشے جاتے ہیں۔کبھی مذہبی جنون اور قوم پرستی کو ہوا دی جاتی ہے توکبھی کھیل تماشوں میں عوام کو محو رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔کبھی مشہور شخصیات کے سکینڈل بنائے جاتے ہیںتوکبھی جمہوریت کا رونا رویا جاتا ہے۔ 2007ء میں عدلیہ کی بحالی کی جعلی تحریک سے لے کر عمران خان کے ابھار اورطاہرالقادری کے دھرنوں تک، گزشتہ کچھ برسوں میں حکمران طبقے اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ نے کئی ''انقلابات‘‘ برپاکر ڈالے ہیں۔ 11مئی کو متوقع احتجاج بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ 
ہندو اور اسلامی بنیاد پرستی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پاکستان میں مذہبی انتہاپسندوں کو نریندر مودی جیسا ہدف میسر ہے تو بھارتی قوم پرستوں کے لئے پاکستانی بنیاد پرستوںکی بڑھک بازی ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔ یہ ایک ہی رجحان کے دو پہلو ہیں جو ایک دوسرے پر منحصر ہیں اور ایک دوسرے کے ابھار پر پلتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔ ہندواوراسلامی انتہا پسندوں سے بڑا اتحادی بھلا کون ہوسکتا ہے؟ پھر پاکستان اور بھارت کی اشرافیہ کا لبرل، جمہوری و سیکولر حصہ اور سول سوسائٹی بھی مذہبی انتہاپسندی کی مرہون منت ہے۔ مذہبی بنیاد پرستی اگر ختم ہوگئی تو اربوں کھربوں روپے کی مغربی فنڈنگ کے ساتھ ساتھ این جی اوزکا وسیع و عریض کاروبار بھی ٹھپ ہوجائے گا۔ علاوہ ازیں شام کی مصروفیات اور ''ٹائم پاس‘‘کے بہت سے مواقع بھی جاتے رہیں گے۔ تاہم پاکستان اور بھارت کے قدامت پرست ہوں یا ''ماڈرن‘‘ سول سوسائٹی اور سیکولر سیاستدان، یہ تمام کے تمام رجحانات سرمایہ داری کو انسانیت کی حتمی و آخری منزل سمجھتے ہیں کیونکہ ان کی مالی، سیاسی اور سیاسی مراعات اسی نظام کے سہارے قائم ہیں۔
سماج جب آگے نہ بڑھ پارہا ہو تو لامحالہ پیچھے جانے لگتا ہے۔ مستقبل جب اندھیر نظر آئے تو انسان ماضی میں پناہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔ جب اس دنیا میں ذلت اور محرومی کے سوا کچھ نہ مل پائے تو اگلے جہان سے امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں۔ بنیاد پرستی کو عارضی طور پر ملنے والی سماجی بنیادیں بھی اسی مظہر کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ ملا، پادری اور پجاری زندگی سے اکتائے ہوئے لوگوں کو نفسیاتی طور پر ہزاروں سال پرانی روایتوں اور داستانوں میں غرق کر دیتے ہیں۔ ان کا مقصد سوچ کو مجروح اور مائوف کر کے استحصال کو فطری، ازلی و ابدی ثابت کرنا ہوتاہے۔
پاکستان میں پیپلز پارٹی اور بھارت میں کانگریس کی ''سیکولر‘‘ حکومتوں نے اپنے دور اقتدار میں جس شدت سے عوام پر بے رحم معاشی حملے کئے ہیں ، اس کے رد عمل میں دائیں بازوکی روایتی جماعتوں کو کسی حد تک سیاست پر حاوی ہونے کا موقع ملا ہے۔ نواز لیگ نیم مذہبی، نیم لبرل، نیم قوم پرستی اور نیم روشن خیالی کا عجیب ملغوبہ ہے۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی کچھ نہیں ہے۔ اس قسم کے حالات میں سامراج اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ سے ''اچھے تعلقات‘‘ رکھنے والی پارٹیاں عوام کی مایوسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برسراقتدار آتی ہیںاور معاشی دہشت گردی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان کی طرح بھارت میں بھی سامراج اور حکمران طبقہ اپنے ایک نمائندے منموہن سنگھ کو استعمال کرنے کے بعدنریندرا مودی کو عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ مودی وہ کرے گا جو کانگریس حکومت بھی نہ کرپائی تھی۔ پہلے سے ہی مفلوک الحال ایک ارب انسانوں کا خون مودی جیسا درندہ صفت انسان ہی نچوڑ سکتا ہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ نریندر مودی ہی وزیراعظم بنے۔ بعض اوقات کارپوریٹ میڈیا کے شوروغل میں عوام خاموشی سے بھی اپنا کام کرجاتے ہیں !
اس خطے میں قومی غیرت کے نام پر انسانی غیرت کو قتل کیا جارہا ہے۔ کروڑوں بھوکے انسانوں کو روٹی کا نوالہ دینے کی بجائے جنونیت کا زہر پلایا جا رہا ہے۔ عوام کو کب تک ایک دوسرے سے لڑوایا جاتا رہے گا؟ کب تک محنت کشوں کو نان ایشوز اور جعلی تضادات میں الجھایا جاسکتا ہے؟ یہ سب کچھ ہمیشہ کے لئے نہیں چل سکتا۔ سرمایہ داری کا معاشی زوال اور بنیاد پرست اپنی منافرتوں کی یکجہتی میں سماج کو بربریت کی کھائی میں دھکیل رہے ہیں۔ محنت کش عوام کے سامنے بہتر اور آسودہ زندگی کی تمام راہیںبند کردی گئی ہیں۔ لیکن بغاوت کا راستہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب برصغیر کے عوام اس راستے پر چلتے ہوئے تمام تر قومی، لسانی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو اپنے پیروں تلے روند ڈالیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں