"DLK" (space) message & send to 7575

درندگی کا راج

چند ہفتے قبل لاہور میں اسلامی بنیاد پرستوں کے قاتلانہ حملے میں بال بال بچ جانے والے صحافی اور تجزیہ نگار رضا رومی نے جمعرات 8 مئی کو اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا ہے کہ ''میں' مذمت‘، 'شدید مذمت ‘، ' قابل مذمت‘ ، ' تشویشناک ‘ اور' المناک ‘جیسے کراہت آمیز الفاظ سے تنگ آگیا ہوں۔ یہ الفاظ کھوئی ہوئی زندگیاں واپس نہیں لا سکتے‘‘۔ رضا رومی کی یہ پکار ایک مخصوص حادثے کے رد عمل سے کہیں بڑھ کر اس بیمار معاشرے پر منڈلاتی بربریت کی عکاس ہے۔ 6مئی کو ملتان میں انسانی حقوق کمیشن کے علمبردار راشد رحمان کا قتل اس سماج کو لاحق مذہبی جنون کے مرض میں مبتلاہوتی ہوئی شدت کی واضح علامت ہے۔ مقتول کا '' جرم ‘‘ توہین رسالت کے ایک ملزم کی پیروی کرنا تھا۔ استغاثے کے وکیلوں اورگواہوں نے انہیں بھری عدالت میں قتل کی دھمکیاں دی تھیں۔ راشد رحمان کے قتل سے ان کے دوستوں اور عزیزوںکے ساتھ ساتھ ہر ذی شعور انسان کو صدمہ پہنچا ہے۔نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ اس نوعیت کے قتل اب معمول بن گئے ہیں۔
ایسے ہر اندوہناک واقعے کے بعد '' سیکولر پارٹیاں ‘‘ قراردادیں پیش کرتی ہیں، سول سوسائٹی کی فیشن ایبل خواتین اور مرد حضرات پوش علاقوں کے چوراہوں پر موم بتیاں جلاتے ہیں، نام نہاد '' عالمی برادری ‘‘ سے مدد طلب کی جاتی ہے، اقوام متحدہ جیسی سامراج کی گماشتہ تنظیموں سے '' مداخلت ‘‘ کی اپیل کی جاتی ہے، آہ و بکا ہوتی اورعدالتوں سے رجوع کیا جاتا ہے۔کچھ ہی دن میں یہ رونا دھونا ختم ہوجاتا ہے اور سوسائٹی اپنی روز مرہ زندگی کی مصروفیات میں مگن ہوجاتی ہے۔ 
سول سوسائٹی کے نفسیاتی مسائل بہت پیچیدہ ہیں۔انہیں آئین اور قانون کی پاسداری کا بہت شوق ہے، یہ وہی قانون ہے جس میں '' حدود آرڈیننس ‘‘ کی شقیں موجود ہیں۔ یہ قوانین ضیاء الحق کے آمرانہ دورمیں97 فیصد مسلمان آبادی کے اس ملک کو مزید ''مسلمان‘‘ بنانے کے لئے لاگو کئے گئے تھے ۔ اس کے بعد سوشلزم سے منحرف ہوکر ''سیکولر ‘‘ بن جانے والی پیپلز پارٹی قیادت کو کئی بار جمہوری اقتدار ملااورمشرف جیسے لبرل آمر بھی آئے، لیکن یہ قوانین جوں کے توں رہے۔ ایک عورت دو مرتبہ اس ملک کی وزیر اعظم بنی لیکن خواتین کے خلاف جابرانہ قوانین بدستور موجود رہے۔یہ عورت خود تسبیح پکڑ کر پیروں فقیروں سے رجوع کرتی رہی اور اپنے والدکی جماعت کے بنیادی منشور کو پس پشت ڈال کر بچوں کا دودھ چھیننے والی مارگریٹ تھیچرکے سحر میں گرفتار ہوگئی۔ مارگریٹ تھیچر نے امریکی سامراج کی ایما پر ضیاء الحق آمریت کی غیر مشروط حمایت کی تھی اوراکتوبر 1981ء میں افغان بارڈر پر جاکرکمیونزم کے خلاف '' جہاد ‘‘ کرنے والے ''مجاہدین‘‘ سے اللہ اکبر کے نعرے لگوائے تھے۔
سول سوسائٹی کو '' جمہوریت ‘‘ کا بھی بہت شوق ہے، ایسی جمہوریت جس میں ضیاء الحق کے سیاسی جانشین دو نہیں بلکہ تین مرتبہ اقتدار میں آچکے ہیں۔ وہ جمہوریت جس میں پولیس کے ناکے دوگنا ہوجاتے ہیں اور تھانیدارکا ''چھتر‘‘ آمریت کی رفتار سے چلتا ہے۔ وہ ''جمہوریت‘‘ جس میں ثقافتی معیاراور اخلاقی اقدار سے عاری نودولتیے، فراڈیئے، سرمایہ دار اور جاگیر دار ہی اسمبلیوں میں پہنچ سکتے ہیں اور جو غریبوں کے منہ سے روٹی کا آخری نوالہ بھی چھیننے کے درپے ہیں۔جو جمہوریت بنیادی ضروریات زندگی کو عوام کی اکثریت سے دورکر کے جینے کا حق بھی چھین رہی ہے، وہ '' انسانی حقوق ‘‘ کی ضمانت کیا دے گی؟
''عدلیہ بحالی‘‘کی تحریک سول سوسائٹی کا طرہ امتیاز سمجھی جاتی ہے۔ عدلیہ ایسی ''بحال‘‘ ہوئی کہ عتیقہ اوڈھوکی دو بوتلوں پر'' از خود نوٹس ‘‘ لئے جانے لگے لیکن لال مسجد کے عسکریت پسندوں کوسر عام دندنانے اور زہراگلنے کے لئے چھوڑ دیاگیا۔ غریب '' توہین رسالت ‘‘ کے بالعموم جھوٹے الزام میں پھانسی گھاٹ تک پہنچ جاتا ہے یا اس سے پہلے ہی گولی سے اڑا دیا جاتا ہے لیکن ذاتی دشمنی یا پراپرٹی وغیرہ کے چکر میں جھوٹا الزام لگانے والے قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔سوال یہ ہے کہ آزاد عدلیہ نے اپنی بحالی کے بعدکتنے دہشت گردوںکوکیفر کردار تک پہنچایا؟ 
انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلندکرنے والے افراد یقیناً قابل تحسین ہیں لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہ شور شرابا جتنا بڑھ رہا ہے انسانی حقوق کی پامالی میں اسی قدر شدت آرہی ہے۔ بعض اوقات زمینی حقائق کو تسلیم کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک کا حکمران طبقہ ایک جدید صنعتی اور ترقی یافتہ معاشرہ تعمیرکرنے میں نہ صرف ناکام رہا ہے بلکہ پسماندگی اور جہالت کو بڑھاوا دے کر عوام کے استحصال کے لئے استعمال کررہا ہے۔اس ملک میں فرقہ واریت کو دانستہ طور پر فروغ دیاگیا ہے۔ اس عمل میں میڈیا سمیت ریاست کا ہر ستون ملوث ہے۔ سر عام دوسرے فرقوں اور اقلیتیوں کے خلاف زہراگلنے والوں کو ریاست اور سیاست میں اعلیٰ مقام دیا جارہا ہے جبکہ ذرائع ابلاغ ان کی تشہیر میںمصروف ہیں۔ 
دوسری طرف درمیانہ طبقہ اور سول سوسائٹی اسلامی بنیاد پرستوںکا راج قائم ہونے کے خوف سے خود بھی کانپ رہے ہیں اور عوام کو بھی ڈرا رہے ہیں۔ ماضی میں بائیں بازو سے وابستہ رہنے والے یہ لوگ سوشلزم سے انحراف کرکے نظریاتی طور پر دیوالیہ ہوچکے ہیں۔ ان کے پاس حقیقت کا ادراک کرکے ٹھوس تناظر اور لائحہ عمل تخلیق کرنے کا کوئی فلسفہ نہیں ،نہ ہی انہیں محنت کش طبقے پراعتماد ہے۔ درمیانہ طبقہ اپنے نفسیاتی ہیجان اور لاابالی پن کی وجہ سے چاہتا ہے کہ محنت کش عوام ان کی فرمائش پر انقلابی تحریک برپا کر دیں۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو خود سے جعلی اور مصنوعی تحریکیں چلانے کی کوشش کی جاتی ہے جن کے ناکام ہونے پر محنت کشوں پر لعن طعن شروع کردی جاتی ہے۔
ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ اسلامی بنیاد پرستوں کو عوام نے کبھی 5 فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں دیے۔ آج سماج پر مذہبی رجعت کا غلبہ تحریک کے عارضی ٹھہرائو سے جنم لینے والے سماجی تعفن کا نتیجہ ہے۔ بائیں بازوکے انہدام سے جنم لینے والے سیاسی خلا کو بنیاد پرستی نے سطحی اور مصنوعی طور پر، پُرکیا ہے،لیکن تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ محنت کش عوام کی تحریکیں ماضی کی ان تاریک قوتوں کا نام و نشان مٹا دیتی ہیں۔ 1968-69ء میں محنت کشوں کا سیلاب جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتوں کو تنکوں کی طرح بہا لے گیا تھا۔ اس وقت نہ امریکی ڈالرکام آئے نہ ریاستی حمایت۔ 
حکمرانوں نے 1970ء کے جن انتخابات کواسلام اورکفرکی لڑائی بنا کر پیش کیا تھا ان میں پیپلز پارٹی نے فتح حاصل کی تھی۔ عوام کے علاوہ پاکستانی فوج کے 58 فیصد سپاہیوں اور نوجوان افسروں نے سوشلزم کو ووٹ دیا تھا، لیکن المیہ یہ ہے کہ بھٹو جس رجحان سے لڑکر اقتدار میں آیا بعد میں اسی سے مصالحت کی کوشش کی جس سے ملائیت کو نئی زندگی ملی۔ بیشتر سنجیدہ مورخین کے مطابق بھٹو حکومت کی تنزلی میں شراب پر پابندی ،کفرکے'' جمہوری فتوے ‘‘ لگانے، '' اسلامی بم ‘‘ بنانے، مودودی سے ''مذاکرات‘‘ یا اسلامی سربراہی کانفرنس کے نام پر عرب بادشاہوں کے ساتھ اتحاد جیسے اقدامات نے کلیدی کرداراداکیا ۔ عوام نے پیپلز پارٹی کے سوشلسٹ منشور اور'' روٹی، کپڑا، مکان ‘‘ کے نعرے کی حمایت کی تھی ، جب وعدے وفا نہ ہوئے تو محنت کش اور انقلابی نوجوان بدظن ہوگئے۔ پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف چلنے والی ملائوں کی تحریک اور بعد ازاں ضیاء الحق کے شب خون کو امریکی سامراج کی مکمل آشیر باد حاصل تھی۔اسلامی بنیاد پرستی کے عفریت کو جنم دینے والے سامراج کو '' روشن خیال ‘‘ یا '' کم تر برائی ‘‘ قرار دیتے ہوئے کسی بہتری کی امید رکھنا خود فریبی ہی نہیں بلکہ محنت کش عوام کے ساتھ دھوکہ دہی کے مترادف ہے۔
ضیاء الحق نے آئین اور قانون کواس حد تک بگاڑ دیا ہے کہ کسی انقلابی تبدیلی کے بغیر ان دستاویزات کو درست کرنا ممکن نہیں۔اس طبقاتی سماج میں انصاف مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں غریب پھنس جاتا ہے لیکن امیر اور طاقتور اسے پھاڑکر نکل جاتے ہیں۔دولت اور پیسے سے ملنے والا انصاف بذات خود سب سے بڑی ناانصافی ہے۔ اس صورت حال میں بنیاد پرست اور مذہبی جنونی راشد رحمان جیسے نفیس لوگوں کو قتل کرتے رہیں گے۔ معاشرے کو سرمایہ داراریت کے چنگل سے آزاد کروانے کے لئے اس نظام کو ہی اکھاڑنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں