"DLK" (space) message & send to 7575

ترکی: کس کے ہاتھ لہو سے رنگے ہیں؟

13مئی کو ترکی کے شہر سومو کے قریب کوئلے کی کان میں ہونے والے ''حادثے‘‘ میں جاں بحق ہونے والے محنت کشوں کی تعداد 300سے تجاوزکرگئی ہے۔ آخری اطلاعات آنے تک درجنوں کارکن تاحال کان میں پھنسے ہوئے ہیں جن کے زندہ بچ جانے کے امکانات کان میں بھری کاربن مونو آکسائیڈ کے باعث مخدوش ہیں۔ وزیر اعظم نوازشریف کی جانب سے اپنے ترک ہم منصب سے اظہار تعزیت کے سوااس واقعے کو کوئی خاص کوریج نہیں دی گئی، ملک کا میڈیا خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔
ترکی میں سینکڑوں مزدوروں کی ہلاکت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل جانے کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں جاری ہیں۔ ''حادثہ نہیں قتل عام ‘‘ کا نعرہ سوشل میڈیا اور سڑکوں پر زبان زد عام ہے۔ ترک حکومت کو تعزیت اور یکجہتی کا پیغام دینے والے پاکستانی حکمرانوں کو بھی اس'حادثے‘ میں ترک حکمرانوں کے کردار کا بخوبی علم ہوگا ؛ تاہم ''مشکل‘‘ کی اس گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا دونوں ملکوںکا اولین فریضہ ہے۔دراصل یہ حادثہ ترکی میں گزشتہ ایک دہائی کی نام نہاد ' معاشی ترقی‘ میں پوشیدہ استحصال کی ایک جھلک ہے۔
موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق یہ حادثہ بجلی کے ایک ناقص ٹرانسفارمر میں دھماکے کی وجہ سے پیش آیا۔ دھماکے کے بعد بجلی کی رسد منقطع ہونے سے نہ صرف ہواکی سپلائی کا نظام بند ہوگیا بلکہ روشنی کا انتظام اور لفٹ بھی ناکارہ ہوگئی اور بھڑکتی آگ نے صورت حال کومزیدگمبھیر بنا دیا۔ حادثے کے وقت مزدور شفٹ تبدیل کرنے کی تیاری کررہے تھے۔ بدھ کی صبح، دھماکے کے اٹھارہ گھنٹے بعد بھی شعلے بھڑک رہے تھے۔ کان کنی کے شعبے میں پیش آنے والا یہ ترکی کی تاریخ کا بدترین حادثہ ہے۔
حادثے کے بعد ترکی کے وزیر اعظم طیب اردوان نے ملک میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ؛ تاہم ترکی کے عوام ان کی چالوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔اکتوبر 2013ء میں اردوان کی سیاسی جماعت اے کے پی نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی طرف سے جمع کروائی جانے والی قراردار مسترد کی تھی جس میں سوما کے علاقے میں کان کنی کے حادثات کی تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ قرارداد میں درج تھاکہ '' ہم مطالبہ کرتے ہیں ، سوما میں ہونے والے کانکنی کے تمام حادثات کی تحقیقات کی جائے تاکہ وجوہ کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کی اموات کے ذمہ داران کا تعین ہوسکے اور مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جاسکے۔ اس کے علاوہ قانون کے نفاذ اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے‘‘۔
29اپریل کوایک اپوزیشن رہنما نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ''2013ء میں سوما کے علاقے میں 5000حادثات پیش آئے ، زیادہ تر متاثرین آگ سے جھلس کر زخمی ہوئے لیکن اس علاقے کے ہسپتالوں میں برن یونٹس ہی نہیں ہیں‘‘۔ یاد رہے کہ ترکی میں کام کے دوران حادثوں میں مرنے والے محنت کشوں کی تعداد یورپی یونین سے 8.5گنا زیادہ ہے۔ 2002ء سے 2013ء تک کام کی جگہوں پر آٹھ لاکھ سے زائد حادثات ہوئے جن میں 13442مزدور ہلاک ہوئے۔ 2002ء میں حادثوں سے 872اموات ہوئیں جبکہ 2013ء میں ان کی تعداد 1235تک جاپہنچی ۔اپوزیشن کی قرارداد کواردوان حکومت نے یہ کہہ کر مستردکردیاکہ '' یہ حادثات توکان کنی کے پیشے کا حصہ ہیں‘‘۔
حالیہ حادثے میں بچنے والے ایک محنت کش نے اپنے بیان میں کہا ''کوئی بھی حادثہ اچانک نہیں ہوجاتا۔۔۔ان اموات کی وجہ پیسہ ہے۔ ہمیںذبح ہونے والے بکروں کی طرح کام پر بھیج دیاجاتا ہے، ہماری حفاظت کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا ‘‘۔ دوسرے محنت کشوں کے مطابق حادثے میں مرنے والوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ اس وقت کان میں بہت سے غیر مستقل یا دیہاڑی دار مزدور بھی موجود تھے جن کا ریکارڈ ہی موجود نہیں۔
جس کان میں دھماکہ ہوا ، اسے 2005ء میں نجکاری کے ذریعے اردوان کے ایک قریبی عزیزکو بیچ دیا گیا تھا۔ ترک کان کنی کی لیبر یونین کے صدر تیفن گارگن کے مطابق ''جونہی نجکاری کا عمل شروع ہوا‘ حادثات بڑھنے لگے۔ لوگ انتہائی کم اجرتوں اور غیر قانونی طور پرکانوں میں کام کرنے پر مجبور تھے۔ حفاظتی انتظامات کو پس پشت ڈال دیا گیا تاکہ لاگت میں کمی کی جاسکے، مالکان کا واحد مقصد منافع کمانا ہے۔ یہ حادثہ نہیں قتل عام ہے جس کے ذمہ دار انسپکٹر اوروزراء کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم بھی ہے‘‘۔ مزدور رہنما کے اس بیان کی تصدیق سوما میں کام کرنے والی کمپنی ''ایگیان‘‘ کے مالک الپ گرکان کے ایک انٹرویو سے بھی ہوتی ہے جس میں اس نے بڑے فخر سے بتایا کہ ''ہم نے فی ٹن کانکنی کی لاگت 140ڈالر سے کم کر کے 23ڈالرکردی ہے‘‘۔ موصوف کے مطابق ''یہ نجی شعبے کی شاندارکارکردگی کا نتیجہ ہے‘‘۔
مرنے والوں میں 15سال کا ایک نوجوان کیمال یلڈیز بھی شامل ہے۔ اردوان حکومت نے کچھ عرصہ پہلے کام کی کم سے کم عمر 16سال سے کم کرکے 14سال کردی جس سے چائلڈ لیبرکا راستہ کھل گیا ہے۔ 
اردوان کے رویے میں افسوس یاملال نظر نہیں آتا۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میںکامیابی کے بعد ان کا مزاج مزید سخت ہوگیا ہے۔ حادثے کے بعد سوما کے دورے کے دوران جب ان سے رائے طلب کی گئی توان کا جواب کچھ یوں تھا: ''1838ء میں کان بیٹھ جانے سے 204لوگ ہلاک ہوئے، 1866ء میں برطانیہ میں 361کان کن جان سے گئے، 1894ء میں 290لوگ مرے،1942ء میں چین میں 1549کان کنوں کی موت ہوئی ۔۔۔یہ تو ہوتا رہتا ہے‘‘۔ اردوان بضد تھے کہ سوما کی کانوں میں حفاظتی انتظامات بالکل مناسب ہیں۔ان کے یہ الفاظ سرمایہ دار طبقے کی نفسیات کی غمازی کرتے ہیں جس کے نزدیک مزدور صرف ایک پرزہ ہے جسے ٹوٹ جانے پر تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ 
اردوان حکومت کی جانب سے سرمایہ داروں کے جرم کی پردہ پوشی اور بے حسی پر ترک عوام میں غصے کی لہر دوڑ گئی اور پورے ملک کے محنت کشوں میں بغاوت کے جذبات بھڑک اٹھے ہیں۔استنبول میں پولیس کی جانب سے غازی پارک اورتقسیم اسکوائر کا علاقہ بند کئے جانے کے باوجود ہزاروں لوگوں نے احتجاج کیا۔اس کے علاوہ انقرہ، سوما، ازمیر اور دیارباکرمیں بھی مظاہرے ہوئے۔مختلف علاقوں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ 
اردوان کے سوما پہنچنے پر شہریوں کا غم، غصے میں تبدیل ہوگیا؛ چنانچہ ان کی حفاظت کے لئے 3500سے زائد پولیس اہلکار تعینات کئے گئے ۔ عوام کے ردعمل کے پیش نظر اردوان کو بھاگ کر قریبی سپر مارکیٹ میں پناہ لینا پڑی۔ سوما کے شہری سیٹیاں بجا کر ''قاتل‘‘ اور ''چور‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ بعد ازاں مظاہرین نے اے کے پی کے ریجنل دفتر پر حملہ کر کے توڑ پھوڑ بھی کی۔
ترکی کی تمام بڑی ٹریڈ یونینز نے عام ہڑتال کی کال بھی دی ہے جس میں چھ لاکھ سے زائد مزدوروں کو منظم کرنے والی چار بڑی ٹریڈ یونین فیڈریشنز شامل ہیں۔ ترکی کی بڑی ٹریڈ یونین DISKنے دوسری مزدور تنظیموں کے ساتھ مل کر عوام سے اپیل کی ہے کام چھوڑ کر وزارت محنت کے سامنے احتجاج کیاجائے،سیاہ پٹیاں باندھی جائیں اور گھروں کی بالکونی پرسیاہ بینر آویزاں کئے جائیں۔ بائیں بازوکی ٹریڈ یونینزکے علاوہ ایک بڑی ٹریڈ یونین فیڈریشن (Turk-is)نے بھی ہڑتال کی کال دی ہے جس کے ممبران کی تعداد بیس لاکھ سے زیادہ ہے۔
ترک محنت کش اور نوجوانوں اردوان حکومت سے بیزار ہیں۔ 2002ء میں اے کے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے امارت اور غربت کی خلیج میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔اردوان کے گرد جمع سرمایہ داروں کا ٹولا ریاست کو لوٹنے اور اپنے رشتہ داروں کو نوازنے میں مصروف ہے جس کے خلاف ایجی ٹیشن اور احتجاجوں کا سلسلہ گزشتہ ایک سال سے جاری ہے۔ سینکڑوں محنت کشوں کی ہلاکتوں کے بعد عوام کی بے چینی اور اضطراب منظر عام پر آرہا ہے۔ محنت کش جانتے ہیں کہ یہ صرف ''حادثہ‘‘ نہیںاموات کے اصل ذمہ داران سماج اور ریاست پر براجمان سرمایہ دار اور ان کے حواری ہیں۔ ترکی میں عام ہڑتال حکومت پرکاری ضرب ثابت ہوسکتی ہے اور اس کے نتیجے میں دائیں بازو کی حکومت ختم ہوسکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں