"DLK" (space) message & send to 7575

بھارتی انتخابات: مایوسی کا ووٹ (آخری حصہ)

مودی کی فتح زیادہ پائیدار اور دوررس ثابت نہیں ہوگی ۔ بی جے پی پہلے ہی لوٹ مار، سیاسی عہدوں کے گرد جنم لینے والے داخلی تضادات، سازشوں، دھڑے بازیوں اور مختلف رہنمائوں کے مابین تنازعات کا شکار ہے۔ عوامی اخراجات میں کٹوتیوں جیسے معاشی معاملات اور خارجہ پالیسی، خاص طور پر پاکستان اور چین کے ساتھ تعلقات پر یقیناً پارٹی کے اندر مزید اختلافات جنم لیں گے۔ اسی طرح نوکریوں ، کمیشن، ٹھیکوں، کرپشن اور سیاسی مفادات کے گرد جنم لینے والی لڑائیاں بھی راشٹریا سوائم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس)، بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد اور دوسرے ہندو بنیاد پرست گروپوں کو مزید دھڑوں اور گروہوں میں تقسیم کرنے کا موجب بنیں گی۔
معاشی حوالے سے بات کی جائے تو ''ٹریکل ڈائون اکانومی ‘‘ پر مبنی مودی کے '' گجرات ماڈل‘‘کو بڑا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔اس ماڈل کو اب زوال پذیر بھارتی معیشت کی بحالی کا نسخہ قرار دیا جارہا ہے۔ درحقیقت مودی کے دور حکومت میں گجرات کی بلند شرح نمو غریب عوام کے لئے معاشی اور سماجی طور پر تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ ''کائونٹرکرنٹس‘‘ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں کویتاکرشن لکھتی ہیں کہ ''مودی کے گجرات ماڈل کی خاص بات کیا ہے؟ گجرات میں نافذکی جانے والی نیو لبرل معاشی پالیسیوں نے عوام کی زندگیوں پر وہی مضر اثرات مرتب کئے جن سے پورے ملک کے عوام دوچار ہیں۔ بے روزگاری میں اضافہ ایک معمول بن چکا ہے۔ تعلیم، علاج اور غذائیت کے اشاریے 
ہولناک سماج کی خوفناک منظرکشی کررہے ہیں، خاص طور پر خواتین اور بچوں کی حالت زار تشویش ناک ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس (عالمی سطح پر بھوک کے اشاریے) کے مطابق گجرات بھارت کی ان پانچ ریاستوں میں شامل ہے جہاں بھوک سب سے زیادہ ہے اور عالمی سطح پر اس کی حالت ہیٹی جیسے ممالک سے بھی بدتر ہے۔ چار سال سے کم عمر کے 80 فیصد بچے جبکہ 60 فیصد حاملہ خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں (مودی ہنس کر اسے خواتین کی ''ڈائیٹنگ‘‘ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں)کرپشن اور سرمایہ دارانہ استحصال میں گجرات اپنی مثال آپ ہے۔ مودی اور من موہن سنگھ کی معاشی پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں ، لیکن سامراجی اجاریہ داریاں گجرات میں سرمایہ کاری کوکیوں ترجیح دیتی ہیں؟ اس لیے کہ ریاست میں بیروزگاری کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور صنعت میں کنٹریکٹ ملازمین کی شرح بھارت میں سب سے زیادہ ہے (یوں سرمایہ داروں کو کم سے کم اجرت پر مزدور میسر ہیں۔) یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ ہڑتالوں، تالہ بندیوں اور فسادات کے واقعات بھی گجرات میں سب سے زیادہ ہیں‘‘۔
مودی نے گجرات میں ٹریڈ یونین اور محنت کشوں کی ہڑتالوںکو بے دردی سے کچلنے کے کئی ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ مقامی سرمایہ داروں اور سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے یوں ہی اسے اپنا ''محبوب‘‘ نہیں بنا لیا ہے۔ محنت کشوں کے حقوق غصب کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے نجکاری، ڈائون سائزنگ، لبرلائزیشن، سرمایہ داروںکو ٹیکسوں میں چھوٹ اور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کو لوٹ مارکی کھلی اجازت دینے کی نیو لبرل معاشی پالیسیاں انتہائی ڈھٹائی سے نافذ کی ہیں ۔ اس معاشی بربریت کے نتیجے میں پھیلنے والی بھوک اور لاعلاجی سے مرنے والے ان گنت بچوں، عورتوں اور بزرگوں کا قاتل نریندر مودی ہے۔ اس کے وزیراعظم بن جانے کے بعد یہی ''گجرات ماڈل‘‘ پورے ہندوستان پر لاگو کرنے کی کوشش کی جائے گی جس سے مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔ تاہم ایک ریاست اور بھارت جیسے کثیرالقومیتی اور وسیع ملک پر حکومت کرنے میں بہت فرق ہے۔ اس حقیقت کا ادراک مودی کو جلد ہی ہوجائے گا !
بی جے پی حکومت انتہائی تلخ حالات میں برسر اقتدار آئی ہے۔ معاشی بحران جتنا گہرا ہے، سرمایہ داروں کے مطالبات، دبائو اور مڈل کلاس کی امیدیں اتنی ہی زیادہ ہیں ۔ نئی حکومت کے سامنے سب سے پہلا اور بڑا مسئلہ Stagflation ( معاشی جمودکے ساتھ بڑھتا ہوا افراط زر ) ہوگا ۔ معیشت کی شرح نمو 4.4 فیصد تک گرجانے کے باوجود 8.6فیصدکا افراط زر عوام کی قوت خریدکو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ افراط زرکی شرح '' ابھرتی ہوئی معیشتوں ‘‘ میں سب سے زیادہ ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے مالیاتی سرمایہ کاری کے ادارے جے پی مارگن کے ماہرین نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ '' 75 سے 80 فیصد مسائل مرکزی حکومت کے قابو سے باہر ہیں۔ پچھلی حکومت کی جانب سے شروع کئے گئے چند ایک ( تعمیراتی ) منصوبے مکمل کرکے کچھ مہینوںکے لئے تو معاشی شرح نمو کو بڑھایا جاسکتا ہے ، لیکن مستقل بنیادوں پر معیشت کی بحالی ایک بڑا چیلنج ہے جس میں وقت بھی لگے گا‘‘۔
پاکستان کی طرح ہندوستان کے وسیع حصے میں بھی صنعت کاری کے لئے سازگار انفراسٹرکچر ہی موجود نہیں ہے ۔ زمین کے حصول سے متعلق نئی قانون سازی نے فیکٹریاں لگانے کے لئے جگہ کی خریداری کے عمل کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق '' متوقع وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایاکہ محنت کی منڈی میں فوری اصلاحات یا غریبوں کے لئے شروع کئے گئے فلاحی منصوبوں کی بڑے پیمانے پر بندش کے امکانات بہت کم ہیں۔ 1984ء کے بعد سب سے بڑی پارلیمانی فتح اوراصلاحات کے وعدوںکے باوجود کوئی جارحانہ قدم اٹھانے کی صورت میں مودی کوکئی اطراف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے (سرمایہ کاری کے) نئے مواقع کی متلاشی غیر ملکی کمپنیاں مایوس ہوسکتی ہیں‘‘۔ ان حالات کے پیش نظر ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مودی کا جو 'خمار‘ چڑھا ہوا ہے وہ جلد اتر جائے گا۔
مودی اگر سرمایہ کاروں کی توقعات پر جلد از جلد پورا نہیں اترتے تو عالمی سطح پر معاشی بحران کے اس دور میں بھارت سے سرمائے کی پرواز میں تیزی آسکتی ہے جس سے معیشت کی شرح نمو مزیدگر جائے گی۔ اگر بھارتی حکمران طبقے اورسامراجی سرمایہ کاروں کے ایما پر عوام دشمن پالیسیاں نافذکی جاتی ہیں تو بی جے پی حکومت کو شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ذرائع ابلاغ جس قوت کو دانستہ طور پر نظر انداز کر رہے ہیں وہ بھارت کا محنت کش طبقہ اور غریب عوام ہیں۔ مودی کی انتخابی مہم چلانے والی بے صبر مڈل کلاس کا شوق بھی جلد ہی پورا ہوجائے گا۔ اپنے ابتدائی دنوں میں ہی مودی حکومت کو بحرانوں اور مسائل کے تابڑ توڑ حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس تذبذب میںداخلی اور خارجی سطح پر ایک کے بعد دوسری غلطی کی جائے گی ، اس صورت حال میں ہندوستان کے نوجوانوں اور محنت کش طبقے کی اس رجعتی اور استحصالی حکومت کے خلاف اچانک بغاوت دنیا کو حیران کر سکتی ہے ۔ مودی رد انقلاب کا وہ کوڑا ثابت ہوسکتا ہے جس کی ضرب سے ہندوستان کاانقلاب آگے بڑھے گا! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں