"DLK" (space) message & send to 7575

جائیں تو جائیں کہاں؟

کہنے والے بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ مختلف اداروں اور شخصیات پر بات کرنے کی پابندیوں کے باوجود سینہ گزٹ تو ہر معاشرے میں چلتے ہی رہتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ میاں صاحب نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں عدم شرکت کا بہانہ یہ بنائیں گے کہ انہوں نے ایک مہینہ قبل پولیو کے قطرے نہیں پیے تھے، لیکن میاں صاحب کو اتنا تو پتا ہو گا کہ مودی صاحب خود قطرے پلانے کے بڑے ماہر ہیں۔ انہوں نے ایل کے ایڈوانی سے لے کر سشما سوراج تک سب کو ایسے قطرے پلائے ہیں کہ یہ خواتین و حضرات کم از کم ظاہری طور پر مودی کے مرید ہو گئے ہیں۔ 
حکمرانوں کی سفارت کاری کے انداز بھی انوکھے ہیں۔ آج پانچ چھ سال کے بچے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چند سیکنڈوں میں ''دعوت نامے‘‘ اور پیغامات ارسال کر دیتے ہیں، لیکن انگریز دور کے نظام اور ڈھانچوں پر چلنے والی پاکستان اور بھارت کی وزارتوں کے بیانات پڑھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ دعوت نامے بھیجنے کے لیے ابھی تک کبوتروںکا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس معاملہ پر وزارت خارجہ کی ترجمان نے صرف یہ بیان دیا ہے کہ ''دعوت نامہ موصول ہو چکا ہے‘‘۔ دعوت نامے اگر کبوتروں کی رفتار سے آتے جاتے ہیں تو باقی سفارتی معاملات کچھوے کی چال چلتے ہیں۔
عام انتخابات میں نریندر مودی کی جیت کی خبر سنتے ہی نواز شریف نے نہ صرف انہیں مبارکباد کا پیغام ارسال کیا بلکہ پاکستان کے سرکاری دورے کی دعوت بھی دے ڈالی۔ لیکن نریندر مودی بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلتے۔ انہوں نے خود مصیبت میں پڑنے کے بجائے گیند واپس میاں صاحب کے کورٹ میں پھینک دی۔ نریندر مودی نے میاں صاحب کی داخلی کمزوری کو بے نقاب کرنے کی کارروائی بڑے ''غیر محسوس‘‘ طریقے سے کی ہے۔ افغانستان، نیپال، سری لنکا اور دوسرے سارک ممالک کے رہنمائوں کو بھی اس چکر میں بھارت کے دورے کی دعوت دی گئی ہے؛ تاہم جاننے والے جانتے ہیں، ان دونوں ممالک کے حکمرانوں کے درمیان نوک جھونک کا نیا کھیل شروع ہو گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ پچھلی چھ دہائیوں سے جاری حکمرانوں کا یہ کھیل سرحد کے دونوں طرف کے عوام کے لیے ایک خوفناک کھلواڑ بن چکا ہے۔ کبھی ایک دوسرے کو آنکھیں دکھائی جاتی ہیں تو کبھی جھوٹی مسکراہٹیں بکھیری جاتی ہیں۔ ''امن کی آشا‘‘ کے منافع بخش کاروبار کے ساتھ سامراجی اسلحہ ساز اداروں کی تجوریاں بھرنے کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔
1947ء کی خونریز تقسیم کے بعد دونوں ریاستوں نے اس خطے کی تہذیب، تاریخ اور ثقافت کو مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ زبان کو ہی دیکھ لیں، سرحدکے اس پار بھارت کو ''بھارت‘‘ بنانے کے چکر میں ہندی کو سنسکرت کی آمیزش سے بگاڑا گیا تو یہاں دوسری زبانوں کے الفاظ کی یلغار نے اردو کا حلیہ بگاڑ دیا۔ جو فارسی سے ناراض ہیں انہوں نے ''خدا حافظ‘‘ کو بھی ''اللہ حافظ‘‘ کر دیا۔ 
دونوں ممالک کے حکمران مذہب اور'' قوم‘‘ کے نام پرکتنے ہی تضادات ابھار لیں، ان کی سوچ، مفادات اور طریقہ واردات مشترک ہے۔ نواز شریف اور نریندر مودی کی معاشی اور اقتصادی پالیسیوں میں بھلا کیا فرق ہے؟ نجکاری، بیرونی سرمایہ کاری، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے ''سازگار حالات‘‘، ڈائون سائزنگ، لبرلائزیشن، ''لیبر ڈسپلن‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ برصغیر کی سیاست پر براجمان تمام سیاستدان اور رہنما وہی گردان دہراتے ہیں جو سامراجی مالیاتی ادارے انہیں رٹاتے ہیں۔ کھلی عوام دشمن معاشی پالیسیاں نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ ''غربت کے خاتمے‘‘ ، سماجی ترقی کے دعووں اور وعدوں کی منافقت بھی دونوں ممالک میں یکساں ملتی ہے۔ مودی صاحب اپنی بچپن کی غربت کو ''گلیمرائز‘‘ کر کے غریبوں پر چھری چلانے کی تیاریاں کر رہے ہیں تو میاں صاحب معاشی محرومی کی کھائی میں دھنستے جا رہے ہیں اور عوام کو کڑوی گولیاں کھلا کر ''امید بہار‘‘ رکھنے کی نصیحت کر رہے ہیں۔ 
حکمران طبقے اور عوام کے مسائل اور مفادات بھلا کیسے مشترک ہو سکتے ہیں؟ محنت کشوں کے استحصال کے بغیر کوئی امیر نہیں بن سکتا اور حکمران طبقے سے اپنی لوٹی ہوئی دولت واپس چھینے بغیر عوام کبھی خوشحال نہیں ہو سکتے۔ مودی کو بھارت میں پھیلی وسیع بیروزگاری کے خاتمے کے لیے ہر سال 10 کروڑ نئی ملازمتیں پیدا کرنی پڑیں گی۔ پاکستان میں پہلے سے موجود بیروزگاروں کی فوج ظفر موج کے علاوہ دس لاکھ نوجوان ہر سال محنت کی منڈی میں داخل ہو رہے ہیں۔ کیا ان حکمرانوں میں اتنی سکت ہے کہ اتنے بڑے پیمانے اور ہنگامی بنیادوں پر انڈسٹریلائزیشن اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کر سکیں؟ نئی ملازمتوں کا اجرا دور کی بات، یہ لوگ تو پہلے سے موجود روزگار کے مواقع ختم کر رہے ہیں، نیا سماجی انفراسٹرکچر کیا تعمیر کریں گے، خصوصاً جب گلے سڑے انفراسٹرکچر کو اپنی موجودہ کیفیت میں قائم رکھنے کے لیے ریاستی اخراجات بھی نہیں کیے جا رہے۔ 
پاکستان میں حکمرانوں کی نام نہاد خیرات اور قرضہ سکیموں سے نوجوان بھکاری تو بن سکتے ہیں، ''اپنا کاروبار‘‘ شروع نہیں کر سکتے۔ جہاں افراط زر، لوڈ شیڈنگ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی یلغار نے پہلے سے موجود چھوٹے کاروبار تباہ کر دیے ہوں وہاں چند ہزار روپے سے کون سا ''منافع بخش‘‘ کاروبار شروع کیا جا سکتا ہے؟ صورت حال یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی اسامی کے لیے ہزاروں لاکھوں بے روزگار نوجوان قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ماضی میں تو سفارش سے کام چل جایا کرتا تھا، اب صرف رشوت چلتی ہے۔ ان اسامیوں کے فارم دراصل حکومت کے لیے آمدن اور نجی شعبے کے لیے منافع کا نیا ذریعہ بن چکے ہیں۔ 
60ء اور 70ء کی دہائیوں میں تیسری دنیا کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو کئی سال کی تگ و دو کے بعد ترقی یافتہ مغربی ممالک یا مشرق وسطیٰ میں روزگار مل جاتا تھا، لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے بیرون ملک جانا بھی کم و بیش ناممکن ہو گیا ہے۔ قانونی یا غیرقانونی طریقوں سے بیرون ملک پہنچنے میں کامیاب ہو جانے والوں کو ٹھیکیداری نظام کے تحت انتہائی سخت حالات اور کم اجرت پر مزدوری کرنی پڑتی ہے۔ اکثریت تھک ہار کر واپس لوٹنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ خلیجی ممالک میں کچھ یورپی اداروں نے 50 ڈگری سنٹی گریڈ سے زائد درجہ حرارت پر محنت کشوں سے کام لینے کو ممنوع قرار دے رکھا ہے جس کے جواب میں وہاں کی ریاستوں نے محکمہ موسمیات کو خفیہ طور پر 49 ڈگری سے زائد درجہ حرارت نہ بتانے کا پابند کر دیا ہے۔
سرمایہ داری کا کریش یورپ میں فلاحی ریاست کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہے، بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست گروہ حکمران طبقے کے ایما پر تارکین وطن کو تمام معاشی مسائل اور بیروزگاری کی وجہ قرار دے کر قومی تعصب کے جذبات کو پروان چڑھاتے ہیں۔ مغربی ممالک میں تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں پر حملوں اور پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کے بے روزگار نوجوان کہاں جائیں؟ غربت اور بے روزگاری کے ستائے ہوئے نوجوان غیر قانونی طور پر مغربی ممالک جانے کے چکر میں انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جن میں سے کچھ راستے میں ہی جان کی بازی ہار جاتے ہیں اور بچ جانے والے گرفتار ہو کر سالوں جیلوں میں سڑتے اور ''وطن‘‘ واپس آنے کے لیے ترستے رہتے ہیں۔
پہلے بیرون ملک جانے کے خواہش مند پاکستانیوں کو پاسپورٹ، ٹکٹ اور سفر کے اخراجات، ویزے اور امیگریشن کے عذابوں سے گزرنا پڑتا تھا، لیکن اس ملک کے حکمرانوں نے ملک و قوم کا نام دنیا میں اتنا ''بلند‘‘ کر دیا ہے کہ اب بیرون ملک جانے والے ہر فرد کے لیے سفر سے ایک ماہ پہلے پولیو کے قطرے پی کر سرٹیفکیٹ حاصل کرنا لازم ہو چکا ہے۔کون سی ذلت ہے جو اس ارض پاک کے باسیوں کے لیے باقی بچی ہے؟ ''ایٹمی قوت‘‘ کا نام روشن ہونے میں کون سی کسر رہ گئی ہے؟ ذمہ دار طبقہ ملک کی اٹھارہ کروڑ انسان نما مخلوق کو اور کتنا ذلیل کرے اور کروائے گا؟ سماج کو اس نہج تک لے آنے والے نظام اور اس کے حواریوں سے چھٹکارا حاصل کیے بغیر اب جینے کا کوئی راستہ نہیں، آگے بڑھنے کا کوئی چارہ نہیں۔
کہیں تو ہو گا شب سست موت کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غم دل

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں