"DLK" (space) message & send to 7575

بے حس عہد میں غزہ لہو لہو

سامراج کی کھلی آشیر باد سے فوجی طاقت کے نشے میں بدمست صہیونی ریاست غزہ کو لہو لہوکر رہی ہے۔ اتوارکی رات تک 400 سے زائد بچوں اور سینکڑوں خواتین سمیت 1771 شہری ہلاک ہو چکے تھے۔ اسرائیلی بمباری سے 36ایمبولنس گاڑیاں، 4 سکول اور6 ہسپتال تباہ ہو ئے ہیں۔ زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرنے والے عملے کے 20افراد بھی لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ فلسطین اورامریکہ کی آبادی کے تناسب سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 3 لاکھ جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد 15لاکھ بنتی ہے۔ 3 اگست کواسرائیل نے غزہ میں 180مقامات پر بمباری کی ۔ ہرگھنٹے میں اوسطاً ایک بچہ ہلاک ہورہا ہے۔ گزشتہ 28دنوں سے جاری اس ظلم و بربریت نے جہاں ہر باضمیر انسان کا دل دہلا دیا ہے،اس نظام کے حکمرانوں کا وحشیانہ کردار اور مکروہ چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہوا ہے۔ 
پہاڑی چوٹی پر آرام دہ صوفے لگا کر غزہ پر بمباری کا تماشہ دیکھنے والے صہیونیوں نے انسانی تاریخ میں درندگی کی بد ترین مثال رقم کی ہے۔ قدیم روم کے شہنشاہ غلاموں کو بھوکے شیروں کے سامنے پھینک کر انسانی جسموں کی چیر پھاڑ کے نظاروں سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ آج صہیونیت کا جنون قدیم روم کی وحشت سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔ اس واقعے نے غزہ سے اسرائیل کی طرف پھینکے جانے والے راکٹوں کی ''تباہی‘‘ اور مغربی میڈیا کی جانب سے دیے جانے والے ''جنگ‘‘ کے تاثرکا پول بھی کھول دیا ہے ۔ 
اس یک طرفہ جنگ میں گرنے والی معصوم بچوں کی لاشیں اورمائوںکی چیخیں پتھر دل انسان کو بھی موم کردیتی ہیں لیکن ''اسلامی‘‘ ، ''عرب‘‘ ، ''جمہوری‘‘ اور ''لبرل‘‘ غرضیکہ ہرقسم کے حکمرانوں کی بے حسی بہت کچھ عیاں کر تی ہے۔ کل 196 ممالک میں سے بولیویا وہ واحد ملک ہے جس کے 
سوشلسٹ صدر ایوو مورالس نے سرکاری طور پر اسرائیل کو ایک دہشت گرد ریاست ڈکلیئرکیا ہے۔ ان کے مطابق اسرائیلی ریاست فلسطینیوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ اسرائیلی شہریوں کی بولیویا آمد پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ ایوو مورالس نے دنیا بھرکے محنت کشوں سے سامراج کے خلاف جدوجہد تیزکرنے کی اپیل کی ہے۔ بولیویا اگر بڑی عسکری طاقت ہوتا تو شاید مورالس اسرائیل کے خلاف انقلابی جنگ کا اعلان بھی کر دیتا۔ بولیویا کے علاوہ وینزویلا، ایکواڈور اور لاطینی امریکہ میں بائیں بازوکی چند دوسری حکومتوں نے بھی اسرائیل کے خلاف ٹھوس اقدامات کئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پوڈیم پر کھڑے ہوکر امریکی سامراج کو''سب سے بڑا شیطان‘‘ قرار دینے والے ہوگوشاویزکی کمی بھی آج محسوس کی جاسکتی ہے۔ 2008-9ء میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد شاویز نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کر کے اسرائیلی سفیر کو وینزویلا سے نکال دیا تھا۔
مسلمان ملکوں میں بے گناہ انسانوں کو ذبح کرنے والے کرائے کے جہادی اور''امت مسلمہ‘‘ کا درس دینے والے ان کے آقا اب کہاں ہیں؟ ایوو مورالس کا مذہبی، نسلی، ثقافتی یا معاشی طور پر فلسطین کے عوام کے ساتھ دورکا بھی تعلق واسطہ نہیں ہے، لیکن فلسطین اوردنیا بھر کے مظلوموں کے ساتھ ان کا وہی رشتہ ہے جو شاویزکا تھا۔۔۔۔۔ طبقے کا رشتہ ، بھوک،استحصال اور افلاس کا رشتہ ! وہ رشتہ جو محکوم اور مظلوم کے ساتھ کھڑا ہو کر حاکم اور ظالم سے لڑنا سکھاتا ہے۔ وہ رشتہ جو اس نظام کے فرسودہ تعصبات سے بلند کر کے انسان کو انسان سے جوڑتا ہے۔ وہ رشتہ جس میں یکجا ہوکر سرمائے کے مقدس بت کو پاش پاش کر ڈالنے کا منشور کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے آج سے 166سال پہلے دنیا بھرکے محنت کشوں کو دیا تھا۔ وہ رشتہ جس نے تل ابیب اور دوسرے اسرائیلی شہروں میں صہیونی ریاست کے خلاف احتجاج کرنے والے کمیونسٹ پارٹی کے ہزاروں کارکنان کو فلسطینی عوام سے جوڑ رکھا ہے!
''امت مسلمہ‘‘کے حکمران سامراج کی دلالی اوراپنی عیاشی میں مصروف ہیں۔ ان کی ریاستوں کا کردار صہیونی ریاست سے مختلف نہیں ہے۔ اپنے عوام پر مسلسل دہشت طاری رکھنے والے بھلا اسرائیل کوکیسے دہشت گرد قرار دے سکتے ہیں؟ دنیا میں ہر سرمایہ دارانہ ریاست کا پہلا اور آخری مقصد ریاستی جبر کے ذریعے حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ، عرب لیگ، او آئی سی اور حکمرانوں کے دوسرے بین الاقوامی ادارے دھوکہ دہی، فریب، ریاکاری اور لوٹ مارکے سیاسی اور سفارتی اوزار ہیں۔ دنیا بھر میں ریاستی دہشت گردی اور سامراجی جارحیت کے نتیجے میں گرنے والی ہر انسانی لاش ان اداروں اور ''بین الاقوامی کمیونٹی‘‘ کا راز فاش کرتی ہے۔ سرمائے کی یہ دیوی اورکتنے انسانوں کی بَلی مانگے گی؟ خون کی یہ پیاس جتنی بجھے گی اتنی ہی بھڑکے گی۔
''جمہوریت‘‘ اور''انسانی حقوق‘‘کا عالمی ٹھیکیداراسرائیل کا کھلا حمایتی ہے۔ بارک اوباما کس ڈھٹائی سے اسرائیلی دہشت گردی کے تاویلیں پیش کر رہا ہے۔ شاہ سے بڑے مجرم شاہ کے وفادار ہوتے ہیں۔ ماسکو اور بیجنگ میں اپنے بت ٹوٹنے کے بعد واشنگٹن کے سامنے سربسجود ہوجانے والے دانشور اب کھسیانے ہو گئے ہیں۔ سوشلزم اور کمیونزم کے خلاف زہر اگل کر''لبرل ازم‘‘ اور''جمہوریت‘‘ کی دکانیں چلانے والے سابق بائیں بازوکی افراد عوام کے سامنے کیا منہ لے کر جائیں گے؟ ڈھٹائی کی اگرکوئی حد ہوتی تو یہ لوگ چُلو بھر پانے میں ڈوب چکے ہوتے۔
مذہبی پارٹیوںاور بنیاد پرستوںکے بھی سامراج سے پرانے یارانے ہیں۔ مفادات کے رشتوں میں تصادم اور تنازعے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ایسا ہی دور سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد آیا تھا جب جہادی وقتی طور پر بیروزگار ہوگئے تھے۔ لیکن لیبیا، شام اور عراق میں سامراجی دخل اندازی کے بعد بڑے پیمانے پر نئی بھرتیاں کھل گئیں۔ بنیاد پرستوں اور سامراجیوں کا معاشی اور اقتصادی پروگرام اور نظریہ ایک ہے۔ انڈونیشیا میں دس لاکھ کمیونسٹوں کا قتل عام ہو یا افغانستان میں ثور انقلاب کے خلاف جہاد، سامراج نے محنت کش عوام کی بغاوتیں کچلنے کے لئے ہمیشہ مذہبی بنیاد پرستوں پر انحصار کیا ہے۔ یہودی اور عیسائی بنیاد پرست اگر مسلمانوں پر دہشت گرد کا لیبل لگاتے ہیں تو وہ تمام یہودیوں کو صہیونی قرار دیتے ہیں۔ نفرتیں بھڑکتی رہتی ہیں، لاشیں گرتی رہتی ہیں اورکاروبار چمکتے رہتے ہیں۔
یورپ کی سامراجی طاقتیں خصوصاً برطانوی حکمران، عیاری میں امریکہ سے دو ہاتھ آگے ہیں۔ برطانوی سامراجی خودکو امریکہ کا پیروکار ظاہر کرتے ہیں لیکن ہر تنازعے اور پراکسی جنگ میں امریکی سامراج کو ''پہلے آپ‘‘ کا مشورہ دیتے ہیں۔ مغرب کے کارپوریٹ میڈیا نے گزشتہ کچھ برسوں میں عالمی واقعات اور اب غزہ کے معاملے میں اتنی جانب داری کا مظاہرہ کیا کہ یورپ اور امریکہ کی آبادی کے بڑے حصے نے میڈیا رپورٹنگ اور تجزیوں پر اعتبارکرناچھوڑ دیا ہے۔ 
صہیونی بربریت کے خلاف سب سے بڑے مظاہرے یورپ اور امریکہ میں ہوئے ہیں۔ اکانومسٹ کے مطابق امریکہ اور یورپ میں 78فیصد لوگ اسرائیلی جارحیت کے خلاف ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے محنت کش عوام کو سامراج کا حصہ سمجھنا غلطی نہیں جرم ہے۔ سامراجی ریاستیں اپنے عوام پر بھی جبر و استحصال روا رکھتی ہیں۔مغربی عوام اپنے حکمرانوں اوران کی معاشی و سفارتی پالیسیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ 2008ء کے بعد شروع ہونے والی معاشی جارحیت کے خلاف عام ہڑتالیں اور پولیس سے ٹکرائو یورپ کا معمول ہے۔ ویت نام اور عراق کی سامراجی شکست میں امریکہ کے نوجوانوں اور محنت کشوں کی جرأت مندانہ تحریک نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ 1983ء میں صابرہ اور شتیلہ کیمپوں میں صہیونی فوجوں کی جانب سے فلسطینی اور لبنانی شہریوں کے قتل عام کے خلاف تل ابیب میں ساڑھے تین لاکھ اسرائیلی نوجوان اور محنت کشوں نے احتجاج کیا تھا۔
صہیونی ریاست کی موجودگی میں آزادی فلسطین ممکن نہیں۔ مذاکرات فریب ہیں۔ دنیا کی چوتھی طاقتورترین فوج کو بندوق اورگوریلا لڑائی کے ذریعے شکست نہیں دی جاسکتی۔ عرب ریاستوں کا کردار پہاڑی پر چڑھ کے جنگ کا نظارہ کرنے والے صہیونیوں سے مختلف نہیں ۔صہیونی ریاست اور عرب حکمرانوں کو اکھاڑے بغیرخطے کے فلسطینی، یہودی ، عرب اور دوسری قومیتوں کے عوام کی آزادی ممکن نہیں ۔ طبقاتی بنیادوں پر لڑی جانے والی انقلابی جنگ نجات کی واحد راستہ ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں