بے یقینی، مایوسی، قلت اور محرومی میں گھرے سماج میں قیاس آرائیاں اور سازشی تھیوریاں پھر سے زوروں پر ہیں۔موجودہ نظام کے سیاست دان محلاتی سازشوں کا مکروہ اور پر فریب کھیل، کھیل رہے ہیں۔پیسے کی سیاست میں، مکار کھلاڑیوں سے لے کر مذہبی بنیاد پرستوں کی، زیادہ سے زیادہ مال کمانے کے لیے، سیاسی چالبازیاں عروج پر ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ دورہ امریکہ اور اس کے دوران نائب صدر جو بائیڈن اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں کے بعد سابق صدر زرداری کے ہاتھ میں کچھ اہم پتے ہیں۔ اس کے ترجمان کے مطابق زرداری کے دورے کا مقصد جمہوریت کو بچانا تھا۔کیا اس کا مقصد مسلم لیگ (ن) کی حکومت ، یا پھرکسی بالاتر جمہوری ڈھانچے کو بچانا تھا، اس بارے میںقیاس ہی کیا جا سکتا ہے۔
موجودہ ڈھانچے کو لاحق خطرات سے فوج اور افسر شاہی کے حکام ِبالا کی لا تعلقی شکوک کو جنم دے رہی ہے۔قیاس آرائیاں کرنے والے جو بھی کہیں، اقتدار پر فوج کے قبضے کا امکان حقیقت سے زیادہ قریب نہیں ہے۔لیکن بحران اتنا شدید اور سماج اس قدر اضطراب میں مبتلا ہے کہ کوئی بھی غیر مشروط تناظر بنانا تقریباً نا ممکن ہے۔میڈیا کے اینکر اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے چوبیس گھنٹے یہ سنسنی پھیلا رہے ہیں کہ چودہ اگست کو کچھ ہونے والا ہے۔نامی گرامی تجزیہ کار تو جیسے روزِ قیامت کا منظر بنا رہے ہیں۔سٹہ باز مافیا کے کمائی کے دن ہیں، کرکٹ کی جگہ سیاسی صورتحال پر جواء کھیلا جا رہا ہے، جو انتہائی غیر متوقعہ ہوتے ہوئے بھی بہت واضح ہے ۔اربوں کا لین دین ہو گا جس میں وہی سٹہ باز سرغنہ جیتیں گے جن کے اشرافیہ سے قریبی تعلقات ہیں، جبکہ زیادہ تر جواری ہار جائیں گے۔
اگر کوئی تصادم ہوا بھی تو، انجام چاہے جو بھی ہو، اس میں شکست، مجبور اور مفلوک الحال عوام کی ہی ہو گی۔شریف برادران کی گھبراہٹ واضح ہے۔لیکن بوکھلاہٹ دونوں جانب موجود ہے۔عمران خان بہت کچھ دائو پر لگا چکا ہے، اور حکومت کے اعتماد کی گراوٹ کا یہ عالم ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو ابھارنے میں ،اس کے پاس موجود قوتوں کی نسبت حکومت کے اقدامات زیادہ کارگر ثابت ہو رہے ہیں ۔ان سب سیاست دانوں میں سب سے آگے چوہدری برادران ہیں جو اب انقلاب کی کال دے رہے ہیں۔کیا انہیں خفت محسوس نہیں ہوتی؟ آئین کی دفعہ245کے تحت دارالحکومت کی سکیورٹی فوج کے حوالے کرنے سے حکومت کی بوکھلاہٹ ظاہر ہو رہی ہے۔ جرنیلوں نے عقلمندی سے کام لیتے ہوئے، آئین سے وفاداری کے ثبوت کے طور پر تین سو کے قریب فوجی بھیجے ہیں۔لیکن یہ محض ایک علامتی کارروائی ہے جس کے بارے میں وہ زیادہ سنجیدہ نہیں لگ رہے۔ فوج شمالی وزیرستان کے آپریشن اور 'سٹریٹجک ڈیپتھ‘ کی پالیسی کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے۔ کیونکہ اس برس افغانستان سے ناٹو افواج کی اکثریت کے ممکنہ انخلا کے بعد نئی گریٹ گیم میں تیزی آئے گی۔
سنجیدہ منصوبہ ساز معیشت اور سماج کی اس تباہ کن کیفیت میں براہ ِراست اقتدار میں آنے کی بجائے تمام پالیسی معاملات پر پردے کے پیچھے سے فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی اپنی صلاحیت پر زیادہ پر اعتماد ہیں۔ بسترِ مرگ پر پڑے جابر نظام کی لپیٹ میں موجود سماج کے بالائی ڈھانچوں کی حقیقت کو، مشرف نے دوسروں کی نسبت کو زیادہ بے باک انداز میں بیان کیا ہے۔ اپنی کتاب ''سب سے پہلے پاکستان‘‘ میں لکھا ہے ''قانون چاہے جو بھی ہو، سول یا فوجی، غریب ہی ہمیشہ جبر کا شکار ہوتے ہیں‘‘۔ انقلاب، ہنگامہ آرائی یا مذہبی بنیاد پرستی پر مبنی انتہائی رجعت کے ہاتھوں سارے ریاستی ڈھانچے کو خطرہ لاحق ہونے کی کسی بے قابو صورتحال میں اگر فوج اقتدار پر براہ ِاست قبضہ کرنے پر مجبور ہوتی بھی ہے تو ایسا وہ نہ چاہتے ہوئے کرے گی اور اسے ایسے بحرانوں اور بغاوتوں کا سامنا کرنا ہو گا جو ماضی میں کبھی نہیں کرنا پڑا۔اس سے ایک عوامی بغاوت بھی مشتعل ہو سکتی ہے جو پیپلز پارٹی کے قائدین کے کنٹرول سے بھی باہر نکل جائے گی، جن پر لوگوں کو اعتماد اٹھ چکا ہے۔ بطور روایت پیپلز پارٹی ''کوما ‘‘ میں جا چکی ہے جس کی وجہ پارٹی پر مسلط شدہ قیادت کے جرائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ پھر سے بحال ہو پائے گی یا پھر اس کی مفلوج حالت بدتر ہوتی چلی جائے گی۔
معیشت اور سماج کی کیفیت کا اظہارسیاسی اور فوجی قیادت میں ہوتا ہے۔برطانوی صحافی اناٹول لیوین نے اپنی حالیہ کتاب 'پاکستان: ایک مشکل ملک‘ Pakistan: A Hard Country میں حکمران اشرافیہ کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے، '' پاکستان کے گلے سڑے نظام کو سہارا دے کر قائم رکھنے والے بیک وقت اس کا خون چوسنے والی جونکیں بھی ہیں ، اور بعض اوقات ان کا تعفن ان کے اپنے لیے بھی زیادہ ہو جاتا ہے... جب مقامی حالات فرض کردہ مغربی 'اصولوں ‘ سے مختلف ہو جاتے ہیں تو ان کا تجزیہ نہیں کیا جاتا، بلکہ ا نہیںوقتی مسائل ، یا پھر قابلِ علاج بیماریاں یا ایسی رسولیاں سمجھا جاتا ہے جنہیں صحت مند جسم سے کاٹ کر نکالا جا سکتا ہو۔در حقیقت یہ 'بیماری‘ خود یہ نظام ہے، جس کا واحد 'علاج‘ نظام کی انقلابی تبدیلی ہے... رشتہ داری ایک اہم انقلاب مخالف قوت ہے، خواہ انقلاب سوشلسٹ ہو یا پھر اسلامی... جس کی دعوت مذہبی انتہا پسند دے رہے ہیں، اور ان کا پیش کردہ علاج یقینا اس مریض کو جان سے ہی مار ڈالے گا۔‘‘
چند برسوں سے انتہائی دولت مند، محنت کش طبقے کے مخالف اور رجعتی سیاست دانوں کی جانب سے انقلابی نعرہ بازی کا شور ہے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف کو حبیب جالب جیسے انقلابی شاعروں کا کلام پڑھنے کا بہت شوق ہے۔جالب کو جاننے والے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس کے لیے یہ کتنا تکلیف دہ ہوتا۔عمران خان کا انقلاب انتہائی بھونڈا ہے کیونکہ وہ انہی قوتوں کے ذریعے انقلاب کی بات کر رہے ہیں جو اس ریاست اور نظام کے رکھوالے ہیں۔ ان کے نظریے کو سمجھنے کے لیے آنے والی نسلوں کو ناقابلِ یقین فہم وفراست درکار ہوگی۔ ان کی جماعت کی قیادت میں شامل سرمایہ داروں اور جاگیر دار اشرافیہ کو دیکھتے ہوئے ان کی
انقلاب کی باتیں ناقابلِ فہم ہیں۔ طاہر القادری کا انقلاب ہر جگہ ہے اور کہیں بھی نہیں ہے۔ چوہدریوں جیسے اتحادیوں اور مذہبی داستانوں کے تڑکے کے ساتھ اس انقلاب کو سمجھنا انسانی ذہن کے لیے نا ممکن ہے۔یہ تمام سیاسی کچر ا بوسیدہ سرمایہ داری کی شکستہ حالت کو ظاہر کرتا ہے، جو نہ صرف عام لوگوں کو تکلیف اور بربادی دے رہی ہے بلکہ ریاست اور سیاسی بالائی ڈھانچے کی شکل میں موجود اپنے دفاع کو بھی نگلتی جا رہی ہے ۔چودہ اگست کو جو بھی ہو، مجبور عوام کی اذیتیں ختم نہیں ہوں گی۔
پاکستان کی بوسیدہ اشرافیہ کے سیاسی منظر کو دیکھ کر انیسویں صدی کے وسط میں فرانس کی سیاست کے بارے میں مارکس کے یہ الفاظ یاد آتے ہیں: ''ایسے اتحاد جن کی پہلی شرط علیحدگی ہے؛جدو جہد جس کا اصل اصول یہ ہے کہ معرکے کو انجام تک نہ پہنچایا جائے۔ بے ہنگم اور بے معنی ایجی ٹیشن ہے جو امن وامان کے نا م پر کی جا رہی ہے،انقلاب کے نام پر امن کی بھرپور تلقین ہے ؛ جو ش بہت ہے لیکن اصلیت ناپید ؛ اصلیت ہے مگر اس میں جوش نہیں ، ہیرو ہیں جن کے کارنامے نہیں ؛ تاریخ ہے جس میں بڑے واقعات نہیں؛ واقعات کی رفتار ہے جسے اگر کوئی طاقت حرکت میں رکھنے والی ہے تو بظاہر کیلنڈر، پھر وہ بھی بار بار ایک ہی حالت کو یکسانی سے دہرائے جاتی ہے ، وہی ہر بار کا تنائو اور پھر معمول پر واپسی ۔ مخالفتیں جو بار بار انتہا کو پہنچنے لگتی ہیں، لیکن بغیر کچھ سلجھائے ان کے دھارے کند ہو جاتے ہیں؛ بڑے دعووں کے ساتھ، طاقت کے، زورزبردستی کے اور کم ظرفانہ دہشت کے دکھاوے کئے جاتے ہیں کہ گویا قیامت ٹوٹ پڑے گی لیکن اتنے میں دنیا کو تباہی سے بچانے والے نہایت گھٹیا جوڑ توڑ اورمحلاتی سازشوںکے تماشوں میں محوہو جاتے ہیں...‘‘