"DLK" (space) message & send to 7575

انقلاب آخر ہوتا کیا ہے؟

آج پاکستان بھر میں جس طرح سماجی خلفشار‘ محرومی‘ استحصال‘ جرائم‘ غربت اور ذلت کی انتہا ہو چکی ہے اس سے عوام صرف بیزار اور خوار ہی نہیں بلکہ شدید برہم بھی ہیں۔ اس اذیت ناک کیفیت میں تبدیلی کی عوام کی خواہش اب سلگنا شروع ہو گئی ہے۔ اس پس منظر میں یہ کوئی حادثاتی امر نہیں کہ اس نظام اور دولت کی سیاست کے بہت سے جغادری ''انقلاب‘‘ کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ اب یہ رٹ مختلف سرگرمیوں کی شکل میں معاشرے میں انتشار کو شدید تر کر رہی ہے۔ اس ملک کے جو حکمران اس ظالم نظام کی مسندِ اقتدار پر براجمان اور دولت کی ریل پیل میں رہنے کے باوجود انقلاب کی نعرہ بازی سے گریز نہیں کرتے ان کے بارے میں اتنا ہی کہا جا سکتا ہے ''کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟‘‘۔ عمران خان نیم اقتدار اور ڈاکٹر طاہرالقادری دولت کے انباروں پر بیٹھ کر بھی ''انقلاب‘‘ لانے کا ناٹک رچا رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ نہ تو ان کے انقلابوں کا کوئی نام ہے اور نہ ہی کسی کو ان کے کردار کا پتہ ہے۔ حکمرانوں کی تمام تر دانش کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ ان کے پاس شاید بہت زیادہ جنرل نالج ہو گا لیکن یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ان کو آج کے عہد اور نظام کے بنیادی بحران کی تشخیص کے ساتھ ساتھ‘ اس کو دور کرنے والے انقلاب کے بارے میں یقینا کوئی علم نہیں۔ انقلاب وہ عمل ہوتا ہے جس سے صرف حکومتیں اور اقتدار ہی نہیں بدلتا بلکہ حکمران طبقات کا پورا نظام اور اس کو چلانے والے ڈھانچے‘ سوچیں‘ اخلاقیات اور ریت و رواج سب بدل جاتے ہیں۔ 
آج کے سماج کی بنیادیں جس سرمایہ دارانہ معیشت پر مبنی ہیں‘ وہ معاشرے کو مجموعی طور پر ترقی دینے اور اس کے ارتقا کو یقینی بنانے کی اہلیت کھو چکی ہے۔ کارل مارکس نے اس کی انتہائی گہری سائنسی وضاحت کرتے ہوئے تحریر کیا تھا ''جب بھی کوئی معاشی نظام اور اس کے ذرائع پیداوار سماجی ترقی کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں تو معاشرہ ایک جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ جمود ایک بحران کو جنم دیتا ہے جو سماجوں میں بغاوتیں پیدا کرتا ہے۔ یہیں سے وہ انقلاب ابھرتے ہیں جو اس معاشرے کی معاشی سماجی اور اقتصادی بنیادوں کو یکسر بدل دیتے ہیں‘‘۔ مارکس نے اس کو سوشلسٹ انقلاب کا نام دیا تھا‘ لیکن کوئی بھی سوشلسٹ انقلاب اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا اور درست بنیادوں پر کارآمد نہیں ہوتا جس میں کم از کم محنت کشوں کے ایک بڑے حصے کی براہِ راست شمولیت اور معاشرے کی اکثریت کی حمایت حاصل نہ ہو۔ محنت کش طبقہ ہر وقت اور ہر دور میں اس ذہنی اور شعوری کیفیت میں نہیں ہوتا۔ وہ اس قسم کی صورتحال میں کبھی کبھی داخل ہوتا ہے۔ اس لیے انقلابات تاریخ کے معمول کے نہیں بلکہ غیر معمولی اور کبھی کبھی جنم لینے والے حالات میں برپا ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ کے عظیم ترین روس کے اکتوبر 1917ء کے بالشویک انقلاب کے قائد ولادیمیر لینن نے ایک انقلابی صورتحال کی جو علامات اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ''ریاست اور انقلاب‘‘ میں واضح کی تھیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
٭ حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں کے درمیان تنازعات‘ تضادات اور تصادموں کا شدت اختیار کر جانا۔
٭ درمیانے طبقے کا شدید اضطراب اور ہلچل کی کیفیت میں مبتلا ہونا اور کبھی حکمرانوں اور کبھی محنت کشوں کی جانب جھولنا اور رغبت اختیار کرنا۔
٭ محنت کش طبقے کا اپنی تاریخ اور روایات میں ثابت کر چکے ہونا کہ وہ انقلابی تحریکوں کو ابھار سکتے ہیں اور اس میں ہراول کردارا دا کر چکے ہوں۔
٭ ایک انقلابی پارٹی کی موجودگی اور اس کا ٹھوس نظریاتی‘ سیاسی‘ تنظیمی اور لائحہ عمل و تناظر کی بنیادوں پر موجود ہونا ہوتا ہے۔ 
عام حالات میں محنت کش حکمران طبقات کی رسومات‘ اخلاقیات‘ قدروں ریت و رواج‘ عادات و اطوار اور ثقافتی و سیاسی رجحانات کی پیروی کرتے ہیں۔ اس لیے مارکس نے دو مختلف ادوار کی کیفیتوں میں ان کے وجود کی وضاحت کی تھی۔ ایک وہ جب محنت کش ''اپنے اندر‘‘ ایک طبقہ ہوتے ہیں اور پھر ایک انقلابی صورتحال میں وہ '' اپنے لیے‘‘ ایک طبقہ بنتے ہیں۔ محنت کش عوام کے شعور کی ان دونوں کیفیتوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ 
اس قسم کے سائنسی انقلاب میں بنیادی ہدف پیداوار کے بنیادی مقصد کو تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر ضرورت اور جنس کی پیداوار کا مقصد منافع اور شرح منافع کا حصول اور دولت کا اجتماع ہوتا ہے۔ منصوبہ بندی پر استوار ایک سوشلسٹ معیشت میں پیداوار میں سے منافع کا عنصر ختم کر دیا جاتا ہے اور یہاں ہر شے کے بننے کی وجہ انسانی ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے۔ وہ بے پناہ وسائل جو حکمران اور سامراج نسل در نسل لوٹتے رہے ہیں‘ ان کو ضبط کر لیا جاتا ہے۔ تمام وسائل و ذخائر اور دولت کی مساوی تقسیم ہی نہیں ہوتی بلکہ ان کو سارے معاشرے اور خطوں کو مساوی بنیادوں پر ترقی دے کر برابری کے درجے پر لانے کا منصوبہ ہوتا ہے۔ اس سارے عمل میں انقلابی پارٹی اور سوشلسٹ جمہوریت کے ڈھانچے اس نئی محنت کش ریاست اور اقتدار کا فریضہ انجام دیتے ہیں جو ان مقاصد اور اہداف کے حصول کو یقینی بناتی ہے۔ یہاں دولت کی وجہ سے سماجی اور سیاسی اونچ نیچ کے خاتمے کے بعد جو جمہور کی جمہوریت جنم لیتی ہے وہ نیچے سے ہر گلی محلے‘ دیہات سے لے کر فیکٹریوں اور کارخانوں کی پنچایتوں سے شروع ہو کر اوپر تک ایک ایسے ڈھانچے کو جنم دیتی ہے جس سے عوام کا ریاست سیاست اور خصوصاً معیشت پر جمہوری کنٹرول ہوتا ہے۔ کسی ریاستی اہلکار کی اجرت کسی ہنرمند مزدور سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ ہر اہل کار ان پنچایتوں اور ان کے منتخب شدہ اوپر کے اداروں کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے اور پانچ سال یا کسی مخصوص مدت کے لیے منتخب ہونے کی بجائے اس میں مسلسل تبدیلی کا ایک سلسلہ جاری رہتا ہے۔
پاکستان میں ہمیں اس قسم کی سماجی صورتحال 1968-69 ء کے انقلاب کے دوران بہت واضح انداز میں ملتی ہے۔ اسی انقلاب سے متاثر ہو کر بھارت کے مشہور صحافی اور پارلیمنٹیرین کلدیپ نیر نے ایک مرتبہ کہا تھا ''بھارت سے پاکستان میں نہیں بلکہ پاکستان کے ذریعے بھارت میں انقلاب آئے گا‘‘۔ لیکن انقلابی پارٹی کسی ایک مقبول سے مقبول ترین فرد کی قیادت میں بھی نہیں بن سکتی۔ اس کے لیے مارکسی نظریات سے لیس ایک اجتماعی قیادت درکار ہوتی ہے‘ جو جمہوری مرکزیت کے طریقہ کار کے تحت تاریخ کے دھارے کو موڑ دینے والے انقلاب کی قیادت کی اہل ہو سکتی ہے۔ 
جعلی انقلابوں کی بوچھاڑ میں گھرے یہاں کے نوجوانوں اور محنت کشوں کا یہ حق ہے کہ ان کو یہ ادراک ملے کہ ''انقلاب آخر ہوتا کیا ہے؟ انقلاب کی تعریف انقلابِ روس کے معمار لیون ٹراٹسکی نے ان الفاظ میں کی تھی: ''عوام کی تاریخی واقعات میں براہِ راست مداخلت ہی کسی بھی انقلاب کی سب سے نمایاں خوبی ہوتی ہے۔ عام دنوں میں ریاست خواہ اس پر بادشاہت براجمان ہو یا جمہوریت‘ خود کو عوام سے بے نیاز رکھتی ہے اور مورخین سربراہان مملکت‘ وزرا‘ دانشوروں اور صحافیوں کے حوالے سے ہی تاریخ کو مرتب کرتے ہیں... لیکن جب وہ وقت آجاتا ہے کہ یہ فرسودہ نظام عوام کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے تو وہ سبھی حددو و قیود پامال کرتے ہوئے ان لوگوں کو سیاسی دھارے سے نکال باہر کرتے ہیں‘ اپنے روایتی نمائندوں کو اٹھا کر ایک طرف کر دیتے ہیں‘ اور پھر اپنی مداخلت و شمولیت سے ایک نئی طرز حکومت کی بنیادیں رکھتے ہیں۔ یہ عمل اچھا ہے کہ برا‘ اس کا فیصلہ اخلاقی مبلغین کرتے پھریں۔ ہمیں تو ان کے حقائق سے ویسے ہی سروکار ہے جیسے وہ اپنے معروضی حالات کی کوکھ سے جنم لیتے اور تشکیل پاتے ہیں۔ ایک انقلاب کی تاریخ ہمارے لیے‘ سب سے پہلے‘ حکمرانی کے عمل میں عوام کا دخل ہوتا ہے جو وہ اپنے مقدر بدلنے کے لیے کرتے ہیں‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں