"DLK" (space) message & send to 7575

جمود کا خلفشار

حکومت مفلوج اور بے بس ہے، حکومت مخالف لانگ مارچ اور دھرنے شاید کسی اندھی وادی میں بیٹھ کر دیے جا رہے ہیں اور عوام اسلام آباد میں جاری اس سرکس سے لاتعلق ہیں۔ ٹیلی وژن چینلوںکا جعلی 'سسپنس‘ بھی اب بوریت میں تبدیل ہو گیا ہے۔ عجیب طوفانی جمود ہے۔ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔ بہت کچھ ہو رہا ہے اور کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ بھاری مینڈیٹ لے کر 'قومی رہنما‘ بننے کا میاں صاحب کا خواب بھی چکنا چور ہو گیا ہے۔ مذاکرات کا عمل، آغاز اور تعطل کے چکر میں گھوم رہا ہے۔ سامراجی بھی پریشان ہیں کہ پہلے سے غیر مستحکم ملک میں یہ نیا انتشار کہیں قابو سے باہر نہ ہو جائے۔
عمران خان اور علامہ طاہرالقادری تا دم تحریر وزیر اعظم کے استعفیٰ کے مطالبے پر کم از کم بظاہر بضد ہیں۔ نواز لیگ ششدر ہے کہ پچھلے سال کے انتخابات کی عظیم الشان فتح اور پارلیمان میں اکثریت کس قدر بے معنی ہوکر رہ گئی ہے۔ حکومت ہی کی طرح کنفیوز اپوزیشن جماعتیں اپنی مراعات بچانے کے لئے موجودہ سیٹ اپ کی حمایت کر رہی ہیں‘ لیکن پارلیمانی سیاست کی شعبدہ بازیاں اور قراردادیں عرصہ پہلے عوام میں مقبولیت اور اعتماد کھو چکی ہیں۔ سرمائے کی جمہوریت اور اس کے علمبرداروں کی اصلیت کب کی بے نقاب ہو چکی ہے۔
میاں صاحب کی ایک آزاد،خود مختار اور طاقتور وزیر اعظم کے طور پر اپنا تشخص ابھارنے کی ساری تگ و دو کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔ سیاست اور سفارت کے حقیقی فیصلے آج بھی وہیں ہوتے ہیں‘ جہاں پہلے ہوتے تھے۔ بدھ کو شائع ہونے والی رائٹرز کی رپورٹ بڑی دلچسپ تھی جس میں ''اندر‘‘ کے ایک بندے کے یہ الفاظ نقل کئے گئے کہ ''فوج کا اقتدار پر قبضہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں لیکن اگر حکومت نے اپنے مسائل سے چھٹکارا پانا ہے اور اگلے چار سال گزارنے ہیں تو اسے اہم معاملات میں اس کی شراکت داری تسلیم کرنا ہو گی‘‘۔ یہاں ''شراکت داری‘‘ کا صاف مطلب یہ ہے کہ ''جمہوری‘‘ حکومت صرف داخلی سیاست کے معاملات پر فوکس کرے، سٹریٹجک پالیسی جیسے اہم معاملات پر توجہ نہ دے۔ سویلین حکمران اس اصطلاح کے معنوں سے واقف ہیں۔ یاد رہے، نواز شریف صاحب نے برسر اقتدار آنے کے بعد پاک بھارت تعلقات میں بہتری اور دو طرفہ تجارت کے آغاز کا عندیہ دیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف کے ایک قریبی ساتھی کے مطابق ''سیاست میں ایک فیصلہ کن عنصر کے طور پر عمران خان کے ابھار سے خوفزدہ ہو کر سربراہ حکومت نے سر تسلیم خم کر دیا ہے۔ محمد نواز شریف کے کردار کو بادشاہ جیسے وزیر اعظم سے کم کر کے ایک ڈپٹی کمشنر جیسے عہدے تک محدود کر دیا گیا ہے‘ جس کا کام ملک کے روزمرہ معاملات کو دیکھنا ہے، افغانستان اور بھارت جیسے اہم معاملات کا فیصلہ کرنا 'وہ‘ کریں گے‘‘۔
پاکستان کی سیاست اور ریاست کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ انکشافات حیران کن نہیں ہیں؛ تاہم پچھلی دو سے تین دہائیوں کے دوران ریاست میں بڑے پیمانے پر کالے دھن کی سرایت، بدعنوانی اور معاشی بحران کے باعث کچھ گروہوں اور دوسرے 'نان اسٹیٹ ایکٹرز‘ پر ریاستی اداروں کی گرفت ڈھیلی پڑ چکی ہے۔ دہشت گردوں کے مختلف گروہ سامراجی اور مقامی آقائوں کے قابو سے باہر ہو کر درد سر بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح سیاست اور میڈیا کے کچھ دھڑوں کی جانب سے وفاداریاں بدلنے، ریاست کے فیصلہ کن حصوں پر غالب آنے یا آزادانہ کردار ادا کرنے کی کوششوں نے بھی کئی نئے تضادات کو جنم دیا ہے۔ موجودہ صورت حال بھی انہی تضادات کی پیداوار محسوس ہوتی ہے۔ ریاست کے ایک دھڑے کی مبینہ آشیرباد اور تعاون سے اس سیاسی مقام پر پہنچنے والے عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری مقررہ حدود سے کافی تجاوز کر چکے ہیں اور ساری منصوبہ بندی کھٹائی میں پڑ گئی ہے۔
موجودہ صورت حال کا ایک اور اہم پہلو افغانستان سے امریکہ کا ممکنہ انخلا اور پاکستانی ریاست کی ''سٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ کی پالیسی ہے۔ امریکی انخلا کے بعد 'گریٹ گیم‘ کا نیا معرکہ شروع ہو سکتا ہے۔ لوٹ مار اور کشت و خون میں ملوث مختلف علاقائی اور عالمی طاقتوں کی خطے میں مداخلت کم ہونے کی بجائے مزید بڑھے گی۔ حال ہی میں کیے گئے کچھ اقدامات دراصل مغرب میں تزویراتی گہرائی کی پالیسی کو از سر نو ترتیب دے کر زیادہ ٹھوس کرنے کے اقدامات ہیں۔ بھارت سے امن مذاکرات کے آغاز سے پہلے ہی اختتام اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ہندو بنیاد پرست بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد ویسے بھی دونوں ممالک میں ریاستوں کے قدامت پرست دھڑوں اور بنیاد پرستوں کے لیے تعصب اور نفرت کی سیاست کرنا آسان ہو گیا ہے۔ جعلی دشمنی، کشیدگی اور پراکسی جنگوں کی آگ میں یہ پورا خطہ جل رہا ہے‘ جو کبھی رنگون سے لے کر کابل تک ایک ملک ہوا کرتا تھا‘ لیکن عداوت اور عناد کی سیاست جب تجوریوں کو پیسے سے بھرتی چلی جا رہی ہو تو کون پروا کرتا ہے؟
اسلام آباد میں جاری دھرنوں کا انت جو بھی ہو، نواز لیگ کو لگنے والی چوٹ جان لیوا نہ سہی، گہری ضرور ہے۔ سرمایہ داروں کی یہ حکومت ڈیڑھ سال میں ہی اپنی نامرادی کو بے نقاب کر بیٹھی ہے۔ دائیں بازو کی لچھے دار لفاظی، دعووں اور وعدوں پر سے چھوٹے کاروباری حضرات اور تاجر طبقے (جو نواز لیگ کی روایتی سماجی و سیاسی بنیاد ہیں) کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ عمران خان کے ''آزادی مارچ‘‘ کے پاس عوام کو بیروزگاری، غربت اور مہنگائی سے آزاد کرانے کے لیے کوئی پروگرام اور لائحہ عمل نہیں ہے۔ قادری صاحب کا انقلاب ویسے ہی بے نام ہے‘ جس کے بے بنیاد اور ہوائی ایجنڈے کے نکات بدلتے رہتے ہیں۔ 
''یکساں نظام تعلیم‘‘ کی بات کرنے والے تحریک انصاف کے رہنما کبھی ایسے اقدامات نہیں کریں گے جن کا مقصد غریب اور ''جاہل‘‘ عوام کے میلے کچیلے بچوں کو اعلیٰ اور جدید تعلیم دلانا ہو۔ 
منشیات اور اغوا برائے تاوان کے بعد تعلیم اور علاج اس ملک کے سب سے منافع بخش کاروبار بن چکے ہیں۔ اسلام آباد کے دونوں ''انقلابی‘‘ بنیادی انسانی حقوق کے ان دھندوںکی طرف اشارہ کرنے کی جرأت بھی نہیں رکھتے۔ سرمایہ داروں اور سامراجی اجارہ داریوں کی مالی حمایت اور ''فنڈ‘‘ کے بغیر کارپوریٹ دھرنے ایک دن بھی نہیں چل سکتے۔ اس ملک کی سیاست پر براجمان تمام بڑی سیاسی جماعتیں سفید، سیاہ یا ''سرمئی‘‘ سرمائے کے مختلف دھڑوں کی نمائندہ ہیں۔ میرے خیال میں ''آزادی‘‘ اور ''انقلاب‘‘ مارچ نیچے سے ابھرنے والی ایک حقیقی انقلابی تحریک کو دبانے اور بد ظن کرنے کی بھونڈی کوشش ہے۔ حکمران طبقہ کے سنجیدہ پالیسی ساز سماج کی سطح کے نیچے پنپنے والی بے چینی اور خلفشار کی حدت کو بخوبی محسوس کر سکتے ہیں۔ حقیقی انقلاب سے خوفزہ ہو کر وہ جعلی انقلاب کرواتے پھر رہے ہیں‘ لیکن کیا یہ لوگ تاریخ کا دھارا موڑ سکتے ہیں؟ تماشوں اور تھیٹروں کے ذریعے محرومی، ذلت اور استحصال کو محنت کش عوام پر ہمیشہ کے لئے مسلط رکھ سکتے ہیں؟ کیا انسانیت سرمایہ داری کی ذلتوں میں ہمیشہ سسک سکتی ہے؟ انقلاب کے یہ ڈرامے حکمران طبقے کو بہت مہنگے پڑیں گے۔ تاریخ کا جمود ٹوٹے گا۔ عوام جب انقلابی تحریک میں اٹھیں گے تو ایک انقلابی قیادت خود تراشیں گے اور استحصال پر مبنی طبقاتی نظام کو اس کے سیاسی مداریوں سمیت نیست و نابود کر دیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں