"DLK" (space) message & send to 7575

طبقاتی استحصال اور مالی و سیاسی مفادات

سوویت یونین کے انہدام، چین میں سرمایہ دارانہ رد انقلاب اور مزدور تحریک کی وقتی پسپائی کے بعد عالمی سطح پر جو نظریاتی اور سیاسی خلا پیداہوااس کا سب سے زیادہ فائدہ مذہبی سیاست اور بنیاد پرستی کے رجحانات نے اٹھایا۔ آج مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں بنیاد پرست گروہ دنیا بھر میں مذہبی اور فرقہ وارانہ نفرت کی آگ بھڑکا رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اوردوسرے مسلمان ممالک میں فرقہ وارانہ کشت و خون شدت اختیارکرتا جارہا ہے۔ قدیم خطہ لیوانت میں ISIL(موجودہ ''ریاست اسلامی عراق وشام ‘‘) کے ابھار سے لے کر پاکستان اور افغانستان میں طالبان کی خونریزی تک، سامراج کے پیدا کردہ یہ بے قابو جنونی دیو انسانی سماج کو بربریت کی اندھی وادی میں غرق کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس عفریت کو جنم دینے والے سامراج آج انسانیت کا ٹھیکیدار بنا ہواہے اورکارپویٹ میڈیا اپنا پورا زور سامراج کو ''بنیاد پرستی کا دشمن‘‘ ثابت کرنے پر لگا رہا ہے۔
''تہذیبوں کے تصادم‘‘ (Clash of Civilizations) کا انسان دشمن نظریہ '' ویت نام کے قصاب ‘‘ اور سی آئی اے کے عیار نظریہ دان سیموئل پی ہٹنگٹن نے 1992ء میں اپنے میں پیش کیا تھا۔ 1996ء میں موصوف نے ''تہذیبوں کا تصادم اور ورلڈ آرڈر کی ترتیب نو‘‘ کے عنوان سے کتاب شائع کی جس کاخلاصہ یہ ہے کہ سرد جنگ کے بعد تنازعات کی بنیاد مذہبی شناخت ہوگی۔ دنیاکا ہر نظریہ کسی طبقے یا سماجی گروہ کے مفادات کی نمائندگی کرتا ہے۔اس نظریے کو مذہبی خصوصاً مذہبی بنیاد پرستوں نے آسمانی حکم کی طرح قبول کرلیا۔ یہ دراصل مذہبی تضادات کو ہوا دے کر محنت کش عوام کو تقسیم اور طبقاتی جدوجہدکی ابھرتی ہوئی لہروں کو زائل کرنے کی واردات تھی۔ مذہبی بنیاد پرستی کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ موجود رہی ہے لیکن سرمایہ داریت اور سامراجیت نے اپنے مفادات کے تحت اسے نیا سیاسی کردار عطا کیا ہے۔ سرمایہ دارانہ طرز پیداوار سے برآمد ہونے والے سماجی تعلقات اور تیسری دنیا کے سابق نوآبادیاتی ممالک میں اس نظام کے تحت ہونے والی غیر ہموار ترقی، وہ زرخیزحالات فراہم کرتی ہے جن میں مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصب کی فصل خوب پھلتی پھولتی ہے۔ مذہبی بنیاد پرستی کی جڑیںاگرچہ ماضی بعید میں پیوست ہیں لیکن ماضی قریب میں اس کی کئی ''جدید‘‘ شکلیں نمودار ہوئیں ۔
تخلیق پاکستان کے 67سال بعد بھی وہ مقاصد اور نظریاتی بنیادیں متنازع ہیں جن پر یہ ملک قائم ہوا تھا۔ لبرل طبقہ، قائد اعظم محمد علی جناح کو سیکولر ثابت کرنے میں مصروف ہے جبکہ ریاست اور مولوی اشرافیہ کا ایک وسیع دھڑا پاکستان کو تھیوکریٹک ریاست قرار دیتا ہے۔ دونوں گروہ قائد اعظم کی مختلف تقاریرکو دلائل کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ''اسلامی ریاست‘‘کا نعرہ لگانے والے سیاسی یا نیم سیاسی مولوی خود فرقہ وارانہ، نظریاتی اور''مالیاتی‘‘ بنیادوں پر تقسیم در تقسیم ہیں۔ مذہب کا کوئی 'ورژن‘ ایسا نہیں جس پر سب متفق ہوں۔ ریاست کی نوعیت پر اٹھنے والے یہ غیر حل پزیر سوالات اس حقیقت کو عیاں کرتے ہیں کہ اس ملک کا حکمران طبقہ چھ دہائیوں میں بھی ایک جدید سرمایہ دارانہ ریاست، یکجا قوم اور صحت مند معیشت تعمیر نہیںکر پایا۔ 
کئی لحاظ سے پاکستان ایک دیہی سماج ہے۔ تیزی سے پھیلنے والے شہروں پر بھی دیہی ثقافت کی چھاپ واضح ہے۔ خستہ حال سماجی اور معاشی انفراسٹرکچر میں شہروں کی جانب آبادی کے اس بہائوکو جذب کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ ہزاروں سالوں سے اس خطے کے دیہات سیکولر ثقافت اور طرز زندگی کا گہوارا رہے ہیں۔ چند دہائیاں پہلے تک دیہات کے مولوی کا سماجی مرتبہ ثانوی اور معاشی حیثیت قابل رحم ہوا کرتی تھی۔ 1980ء کی دہائی میں شروع ہونے والے کالے دھن اور ریاستی سرپرستی میں لڑے جانے والے ڈالر جہاد نے مذہب کے سماجی کردارکو بدل دیا اور ملاسائیکل سے اتر کر لینڈکروزر پر چڑھ بیٹھا۔ سماج جتنا بدحال ہوا،مذہب کے ٹھیکیدار اتنے ''خوشحال‘‘ ہوئے ۔ مسخ شدہ سرمایہ داری کے تحت دیہاتوں میں آنے والی ''جدیدیت‘‘ بھی انتہائی بدنما اور جعلی ہے۔ سرمائے نے دیہی زندگی کے اشتراکی پہلو اور رنگین ثقافت کو برباد کر دیا ہے، فطرت کا حسن بگڑ گیا، معاشی حالات بد تر ہوئے اور شعوری پسماندگی بڑھ گئی جس نے فرقہ واریت اور بنیاد پرستی کے لئے سازگار حالات فراہم کردیے۔ مذہب غربت کو قناعت اور صبر کے سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔ معاشی، سماجی اور ثقافتی گراوٹ کے ان ادوار میں کسی مذہبی یا فرقہ وارانہ گروہ سے وابستگی، سماج کی پسماندہ اور بیگانہ پرتوںکو تحفظ کا احساس دلاتی ہے۔
ایک دو جماعتوں اور طالبان جیسے مذہبی سیاست کے رجحانات کا تعلق سنی اسلام کے دو مکتبہ ہائے فکر سے ہے۔ گزشتہ ایک دو دہائیوں کے دوران ان میں سے ایک کے عقائد سے وابستہ بہت سے مسلح اور غیر مسلح گروہوںکی فرقہ وارانہ اور مین سٹریم سیاست میں شمولیت بھی بڑھی ہے۔ برصغیر میں شیعہ مسلک کے رجحانات کا بڑا ماخذ ایران رہاہے۔ دیوبندی تحریک کا آغاز 1866ء میں اترپردیش کے شہر دیو بند میں قائم ہونے والے'دارالعلوم‘ سے ہوا۔ تصوف سے متاثر بریلوی تحریک کا ماخذ بیسویں صدی کے آغاز میں اتر پردیش کے شہر بریلی میں قائم ہونے والا مدرسہ 'منظر اسلام‘ ہے۔ بریلوی مسلک کے طاہر القادری پاکستان عوامی تحریک دراصل دائیں بازو کی اصلاح پسند ی اور مذہب کا امتزاج ہے۔
مذہبی جماعتیں اور فرقہ وارانہ گروہ اپنی مالی آمدن اور سماجی بنیادوں میں اضافے کے لئے فلاحی کاموں اور قدرتی آفات کے دوران امدادی کارروائیوں کو خوب استعمال کرتے ہیں۔ یہ نئی حکمت عملی نہیں بلکہ عیسائی، یہودی، ہندو، بدھ مت اور اسلامی تنظیموں کا پرانا طریقہ کار ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جن طالبان کے خلاف وزیرستان میں فوجی آپریشن ہو رہا ہے انہی کے ہمدرد آئی ڈی پیزکیمپوں میں ''امدادی‘‘ کام کر رہے ہیں۔ 
صرف دو دہائیاں پہلے تک پاکستانی آبادی کا وسیع حصہ یا تو فرقہ وارانہ شناخت سے لاتعلق تھا یا لا شعوری طور پر بریلوی رجحانات سے وابستہ تھا۔ 1970ء کی دہائی کے اواخر تک فرقہ وارانہ تعصبات سماجی زندگی سے بالکل خارج تھے۔ بریلوی، دیوبندی یا وہابی جھگڑا تو دورکی با ت شیعہ اور سنی گھرانوں کے تعلقات اورشادیاں معمول تھیں۔
ضیا آمریت کے رد انقلابی عہد میں محنت کش عوام کی تحریک پسپا ہوئی اور سماج پر رجعت مسلط کی گئی۔ اپنے اقتدارکو نظریاتی بنیاد اور جواز فراہم کرنے کے لئے ضیاء الحق نے ریاست اور سماج کی ''اسلام آئزیشن‘‘کا عمل شروع کیا۔ سماجی بنیادوں اور عوامی حمایت سے محروم ملائوں نے آمریت کا بھرپور ساتھ دیا اور بدلے میں ملنے والی ریاستی پشت پناہی کو ریاست اور سیاست میں جگہ بنانے اور مال کمانے کے لئے استعمال کیا۔ افغان جہاد کے لئے درکار افرادی قوت پوری کرنے کے لئے ملک کے طول و عرض میں مدرسوں کا نیٹ ورک قائم کیا گیا جو آج بھی پھیلتاجارہا ہے۔ عوام کو تقسیم در تقسیم اور مزدور تحریک کو پسا رکھنے کے لئے فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ گروہوں کو پروان چڑھایا گیا۔ آمریت کی سیاسی فصیل کی طور پر حکمران طبقے کی روایتی جماعت مسلم لیگ کو ازسر نو ترترتیب دے کر مضبوط کیا گیا۔ آج رنگ برنگ کی کئی مسلم لیگیں (نواز، ق، عوامی، ضیائی) ضیا آمریت کی ہی سیاسی اولاد ہیں۔ 
یہ مذہبی جماعتیں اور بنیاد پرست گروہ اپنے منشوراور عزائم پر ''مذہبی فلاحی ریاست‘‘ کی کتنی ہی ملمع کاری کیوں نہ کر لیں،ان کا معاشی پروگرام سرمایہ داری سے شروع ہوکر اسی میں ختم ہوجاتا ہے۔ ان کی مجوزہ ''اصلاحات‘‘ ذرائع پیداوارکی نجی ملکیت، منافع اور منڈی کی معیشت پر مبنی اس نظام کوکبھی چیلنج نہیں کرسکتیں۔ بنیاد پرستوں اور سامراج کا تضاد جعلی ہے۔کمیونزم اور بائیں بازوکے خلاف بنیاد پرستوں نے ہمیشہ سامراج کے داہنے ہاتھ کا کردار ادا کیا ہے۔ مذہب کی سیاست وہ رجعت ہے جسے کچھ ریاستی دھڑوں نے کالے دھن کی آکسیجن پر زندہ رکھا ہوا ہے۔ عوام کی انقلابی تحریک اور طبقاتی جدوجہد کا ابھار مذہبی سیاست کا حقیقی چہرہ خود ہی بے نقاب کر ڈالے گا۔ اپنے عقائد دوسروں پر مسلط کرنے، مذہب کے نام پر بے گناہوں کا خون بہانے اور نجی زندگیوں میں دخل اندازی کرنے والوں سے حساب لیا جائے گا۔ محنت کش طبقے کی انقلابی فتح اس نظام کا خاتمہ کر ے گی جس نے مذہب کو طبقاتی استحصال اورمالی وسیاسی مفادات کے حصول کا اوزار بنا دیا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں