"DLK" (space) message & send to 7575

بڑے دھوکے ہیں اس راہ میں!

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اچانک ایک غیر معمولی بیان داغ دیا ہے۔ روزنامہ دنیا نے بلاول کا بیان اس طرح نقل کیا ہے: ''پیپلز پارٹی کے نظریاتی اور ناراض کارکنوں سے ذاتی طور پر معافی مانگتا ہوں‘ ایسے رہنما اور کارکنان، جن کا دل اب بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ دھڑک رہا ہے، میں ان سے کہتا ہوں کہ ماضی میں ہم سے غلطیاں ضرور ہوئی ہیں‘ ہم نے کسی طور بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ہم ہر لحاظ سے مکمل ہیں... لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ہم ماضی کی ان غلطیوں کا نہ صرف ازالہ کرنے پر کمربستہ ہیں بلکہ اس ازالے کی صورت میں ہم آپ کے کھوئے ہوئے اعتماد کو از سر نو بحال کرنے کا بھی عزم کئے ہوئے ہیں...‘‘
پہلا مسئلہ تو اس سوال کا ہے کہ پیپلز پارٹی میں کتنے ''نظریاتی کارکن‘‘ باقی بچے ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے: ''نظریاتی‘‘ کہلانے والوں کا ''نظریہ‘‘ کیا ہے؟ انقلابی سوشلزم پر مبنی پیپلز پارٹی کے بنیادی منشور اور نظریے پر ڈٹے رہنے کی ہمت اور جرأت کتنے ''نظریاتی‘‘ رہنمائوں اور ''کارکنان‘‘ میں ہے؟ شاید چند درجن بھی نہ ہوں گے۔
بائیں بازو کے بہت سے ناکام و نامراد دانشور بلاول کے اس بیان پر پھولے نہیں سما رہے۔ آج کے عہد میں ''بائیں بازو‘‘ کی اصطلاح بھی بڑی مبہم اور پُرفریب ہو گئی ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں نام نہاد ''بائیں بازو‘‘ کے سیاستدان اور پارٹیاں برسر اقتدار آنے کے بعد نیو لبرل سرمایہ دارانہ پالیسیاں اس بے دردی سے نافذ کرتے ہیں کہ بعض اوقات دایاں بازو بھی کانوں کو ہاتھ لگا لیتا ہے۔ چین اور بھارت کی ''کمیونسٹ‘‘ پارٹیوں سے لے کر فرانس کی سوشلسٹ پارٹی تک، بائیں بازو کی اصلاح پسندی اور ترمیم پرستی نے اس بوسیدہ اور انسان دشمن نظام کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ پاکستان میں سابق بائیں بازو کے دانش ور فوکو یاما کے تھیسس (تاریخ کا اختتام) پر ایمان لاتے ہوئے سرمایہ داری کو ابدی سمجھنے کے باوجود ''ترقی پسند‘‘ ہونے کے دعوے دار ہیں۔ یہ ''ترقی پسند‘‘ ایک ایسے نظام میں ترقی اور اصلاحات کے خواب دیکھ رہے ہیں جو تاریخی استرداد کا شکار ہو کر اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ یہ نظریاتی غلطی نہیں بلکہ سیاسی جرم ہے۔ 
جہاں تک بلاول کے بیان کا تعلق ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائزیشن کو ہی ''ماضی کی غلطیاں‘‘ قرار دے رہے ہوں۔ اس ''غلطی‘‘ کا اعتراف چند سال قبل یوسف رضا گیلانی نے اس وقت کیا تھا‘ جب وہ پیپلز پارٹی حکومت کے وزیر اعظم تھے۔ جہاں پارٹی کا وزیر اعظم پارٹی کے بنیادی منشور کو ببانگ دہل غلط قرار دے سکتا ہے‘ وہاں بعید نہیں کہ چیئرمین بلاول صاحب پارٹی کارکنان کے نام پیغام کی آڑ میں امریکی سامراج، پاکستان کے حکمران طبقات اور ریاست سے عرض گزار ہوں کہ ''ایسی غلطی دوبارہ نہیں ہو گی‘‘۔
بلاول بھٹو زرداری جس چیز کو بھی ماضی کی غلطی سمجھ رہے ہوں لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے آخری ایام میں ایک غلطی کا اعتراف کھل کر، بڑے واضح انداز میں کیا تھا۔ یہ سوشلسٹ انقلاب کو ادھورا چھوڑ دینے کی غلطی تھی۔ جیل کی کال کوٹھری میں ذوالفقار علی بھٹو نے ماضی اور حال کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی آخری کتاب ''اگر مجھے قتل کردیا گیا‘‘ میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ''میں اس آزمائش میں اس لئے مبتلا ہوا ہوں کہ میں نے دو متضاد طبقات کے درمیان آرزو مندانہ سمجھوتہ کروانے کی کوشش کی۔ فوجی شب خون کا سبق 
یہ ہے کہ مصالحت اور درمیانہ راستہ ایک یوٹوپیائی خواب ہے۔ طبقاتی جدوجہد ناقابل مصالحت ہے اور ایک طبقے کی دوسرے طبقے پر فتح پر ہی منتج ہو گی۔ وقتی مضمرات کچھ بھی ہوں اس جدوجہد میں ایک طبقہ ہی جیتے گا۔ یہ پتھر پر لکیر ہے‘‘۔
بلاول کو نہ جانے آج کون سے نظریات یاد آ گئے ہیں۔ نظریات کو تو تیس سال قبل ہی پارٹی قیادت نے ''پچھلی نشستوں‘‘ پر دھکیل دیا تھا۔ نیشنلائزیشن کی جگہ نج کاری کی پالیسی اپنائی گئی، ضیاالحق کی سیاسی باقیات کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پارٹی پر مسلط کرایا گیا، سامراجی اجارہ داریوں کو محنت کش عوام کا خون نچوڑنے کی کھلی چھوٹ دی گئی۔ بجلی کے شعبے میں آئی پی پیز کی شمولیت سب سے پہلے بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں ہی شروع ہوئی تھی جس کا خمیازہ عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔ لیکن سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ محنت کش عوام کی سیاسی روایت کو سرمایہ دارانہ نظام کا آلہ کار اور حکمران طبقے کی پارٹی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ یہ سارا تماشا ''جمہوریت‘‘ کے نام پر کیا گیا۔ جمہوریت ایک سیاسی طریقہ کار ہے جس کے ذریعے مختلف معاشی و سماجی نظام چلائے جاتے ہیں لیکن یہاں جمہوریت کو بذات خود ''نظام‘‘ بنا کر عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی گئی۔ یہ کھلواڑ آج تک جاری ہے۔ 
پیپلز پارٹی کی زوال پذیری اور نظریاتی انحراف کا سب زیادہ فائدہ دائیں بازو اور مذہبی پارٹیوں کو ہوا۔ رجعت کے راستے ہموار ہوئے۔ مسلم لیگوں سے لے کر جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم سے لے کر تحریک انصاف تک، ضیاالحق کے سیاسی اور نظریاتی وارث سماج پر غالب ہوتے چلے گئے۔ عوام کا معاشی استحصال اور سماجی ذلت بڑھتی رہی اور پیپلز پارٹی قیادت ''مصالحت‘‘ کا درس دیتی رہی۔ بلاول بھٹو آج بھی ''جمہوریت‘‘ کو ہی پارٹی کا نظریہ، مقصد اور منزل بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ انہوں نے پارٹی کی تاسیسی دستاویزات یا تو پڑھی نہیں یا پھر انہیں مسترد کر چکے ہیں۔ پارٹی کا بنیادی منشور بالکل غیر مبہم ہے: ''پارٹی کا حتمی مقصد طبقات سے پاک معاشرے کا قیام ہے جو صرف سوشلزم کے ذریعے ممکن ہے‘‘۔ جہاں تک ''جمہوریت‘‘ کا تعلق ہے تو چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے 1968ء میں اپنی کتاب ''پاکستان کی سیاسی صورتحال‘‘ میں واضح طور پر لکھا تھا: ''جمہوریت ضروری ہے لیکن کوئی حل نہیں ہے۔ جمہوری آزادیاں اہم ہیں لیکن معاشی برابری اور انصاف کہیں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ جمہوریت کو انقلابی سوشلزم کی بنیاد پر استوار کر کے ہی عوام کو غلامی سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔ معیشت کے غالب حصوں، صنعتوں اور انفراسٹرکچر کو عوام کی اشتراکی ملکیت میں دینا ہو گا۔ سوشلزم کے بغیر جمہوریت کی تکمیل ناممکن ہے‘‘۔
شاید سامراجی اور ریاستی آقائوں نے بلاول کے سیاسی مشیروں کو تنبیہہ کی ہے کہ دایاں بازو حکومت میں ہے، سیاسی دھارے کے دوسری جانب بھی ایک ملا ابھر چکا ہے لہٰذا ان حالات میں بلاول سے ''بائیں بازو‘‘ کی ''نظریاتی‘‘ باتیں کروائی جائیں۔ ویسے بھی پیپلز پارٹی اور سابق بائیں بازو میں کچھ عناصر یہ سمجھتے ہیں کہ بڑی پاپولسٹ پارٹیوں کی قیادت کو مشورے دے کر ''انقلاب‘‘ برپا کروایا جا سکتا ہے۔ انقلابات مقبول سیاسی شخصیات کی موشگافیوں سے نہیں آیا کرتے۔ محنت کش عوام انقلابی تحریکوں میں ابھر کر لینن اسٹ پارٹیوں کی اشتراکی قیادت میں انقلابات برپا اور مکمل کرتے ہیں۔ سیاسی جمود کے عہد میں انقلابی مارکسزم کے نظریات پر مبنی انقلابی پارٹی کی تعمیر انتہائی کٹھن، صبر آزما اور دشوار گزار کام ہے‘ لیکن لینن کے بقول ''انقلاب کے راستے میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے‘‘۔
نواز شریف کے بعد عمران خان کی سیاسی تنزلی کا تناظر سامنے رکھتے ہوئے سامراج اور دوسری قوتیں بلاول کو ابھارنے اور استعمال کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ بلاول کو آج ''نظریات‘‘ یاد آئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں عین ممکن ہے اس سے زیادہ ریڈیکل لفاظی کروائی جائے۔ محنت کش عوام پہلے ہی ماضی کے دھوکوں اور غداریوں سے گھائل ہیں۔ ایسے میں ایک نئی امید کے بننے اور ٹوٹنے سے مذہبی انتہا پسندی زیادہ خونریز طریقے سے سماج پر مسلط ہو گی اور حکمران طبقہ زیادہ وحشی ہو کر عوام کا معاشی قتل عام کرے گا۔ بلاول سے عوام کی امیدیں وابستہ کروانے والے ''سول سوسائٹی‘‘ اور ''بائیں بازو‘‘ کے خود ساختہ دانشور اس کھلواڑ میں حصہ دار ہوں گے‘ لیکن اس ملک کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے ماضی کے تلخ تجربات سے بہت سے اسباق بھی سیکھے ہیں۔ اس بار انہیں جھانسہ دینا اتنا آسان نہ ہو گا۔ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے کوئی بہتری اور خوشحالی ممکن نہیں اور بلاول بھٹو اس نظام سے بغاوت کرنے والے نہیں۔ مارکس نے بہت پہلے واضح کر دیا تھا کہ ''محنت کش طبقے کی نجات کا فریضہ محنت کش طبقہ ہی ادا کر سکتا ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں