واہگہ میں درجنوں معصوم انسانوں کو لقمہ اجل بنا ڈالنے والے خود کش حملے کے کچھ ہی دنوں بعد کوٹ رادھا کشن میں ایک عیسائی جوڑے کو زندہ جلا ڈالنے کے واقعے نے ہرذی شعور کو ایک بار پھر لرزا کے رکھ دیا ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں سے محنت کش بدترین جبر و استحصال کا شکار ہو رہے ہیں۔
نومبر کا پہلا عشرہ ملکی اور عالمی سطح پر تاریخ کا دھارا موڑ دینے والے کئی واقعات کی یادیں سمیٹے ہوئے ہے۔ چھیالیس سال قبل، 6نومبر 1968ء کے دن اس انقلابی ابھار کا آغاز ہوا تھا جو اس کے بعد آنے والے مہینوں میں ملک کے طول و ارض میں سرایت کرتا چلا گیا۔ محنت کش عوام کی اس بغاوت میں اتنی طاقت موجود تھی کہ جسے درست راستہ اور لائحہ عمل فراہم کرتے ہوئے سرمایہ داری اور جاگیر داری کو اکھاڑ پھینکا جاسکتا تھا۔ریاست اور حکمران طبقے کی ''سرکاری تاریخ‘‘ میں اس انقلابی تحریک کا ذکر شاید ہی کہیں ملتا ہو۔ دائیں بازو کے دانشور تو ایک طرف، نام نہاد ''لیفٹ لبرل‘‘ تاریخ دانوں نے بھی اس تحریک کے کردار کو محدود اور ''بے ضرر‘‘ بنا کر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ کہیں اسے ''ایوب مخالف ایجی ٹیشن‘‘ بنا دیا گیا تو کہیں ''جمہوریت‘‘ کے لئے مزدوروں کی ہڑتالیں اور طلبہ کے مظاہرے کہہ کر بات سمیٹ دی گئی۔ 1968-69ء کی تحریک ''آمریت‘‘ کے خلاف ''جمہوریت‘‘ کے لئے کی جانے والی ''ایجی ٹیشن‘‘ نہ تھی۔ یہ ایک ملک گیر عوامی بغاوت تھی جس کا سماجی و معاشی کردار سوشلسٹ تھا اور جس نے انقلابی صورتحال پیدا کر دی تھی۔ ڈاکٹر مبشر حسن اپنی کتاب ''پاکستان کے بحران اور ان کا حل‘‘میں مارچ 1969ء کے طوفانی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''7مارچ کو نیشنل بینک کے ملازمین نے ہڑتال کر دی اور ویسٹ پاکستان فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز نے بڑی ریلی نکالی۔ 8مارچ کو کراچی میں اساتذہ نے ریلی نکالی جس میں دیگر اداروں کی ریلیاں بھی شامل ہوگئیں۔9مارچ کو واپڈا سنٹرل ہائیڈرو یونین نے مظاہرہ کیا اور کم از کم تنخواہ 150روپے کرنے کا مطالبہ کیا۔اس دن پہلی بار بنیادی صنعتوں کو قومی تحویل میں لینے کا مطالبہ سامنے آئے۔ 11مارچ کو واپڈا کے مزدوروں نے ہڑتال کی۔ اسی روز ٹیلی کمیونیکیشن کے مزدوروں نے ہڑتال کردی جو آٹھ روز تک جاری رہی جبکہ اسی دن کراچی میں پانچ ہزار اساتذہ نے ریلی نکالی جس میں ڈاک کے مزدور بھی شریک ہو گئے۔ 12مارچ کو ٹیلیفون آپریٹروں نے ہڑتال کردی۔ 13مارچ کو ٹیلی کمیونیکیشن کے مزدوروں نے مظاہرہ کیا جس کے بعد انجینئرنگ سٹاف نے بھی اظہار یکجہتی کے طور پر ہڑتال کر دی۔ 15مارچ کو نیشنل بینک اور گرینڈ لیزنگ بینک میں ہڑتال ہوئی۔ 17مارچ کو لاہور میں 12اضلاع کے بیس ہزار پرائمری سکول اساتذہ نے ایک میل لمبا جلوس نکالا۔18مارچ کو جوائنٹ لیبر کمیٹی کی کال پر ملک بھر میں 25لاکھ مزدوروں نے ہڑتال کردی۔ 19مارچ کو کراچی پورٹ ٹرسٹ کے چھ ہزار مزدوروں نے کوئی نوٹس دئیے بغیر ہڑتال کر دی۔ 21مارچ کو انڈیا فلور ملز اور کراچی سٹیم رولرز ملز کے مزدوروں نے ملوں کا کنٹرول سنبھال لیا اور انتظام چلانے کے لئے کمیٹیاں تشکیل دے دیں۔ اسی روز اکائونٹس ڈیپارٹمنٹ کے بیس ہزار مزدوروں نے ہڑتال کردی۔ 21مارچ کو ہسپتالوں کے گریڈ 4کے ملازمین نے ہڑتال کر دی۔ اس سارے عرصے کے دوران مشرقی پاکستان میںگھیرائو کے 24واقعات پیش آئے جن میں مزدوروں نے کارخانوں پر قبضہ کرکے کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس کے ساتھ ہی کئی سرکاری ونیم سرکاری دفاتر پر قبضے کر کے مطالبات تسلیم کروائے گئے۔ 25مارچ کو جوائنٹ لیبر کونسل نے مزدور مطالبات کا ہفتہ منانے کا اعلان کردیا‘‘۔
17مارچ 1969ء کو مزدور تنظیموں نے ملک گیر عام ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ اس تاریخی ہڑتال نے ریاست اور معیشت کو جام کردیا۔ اس دن واپڈا کے مزدوروں نے اسلام آباد میں ایوان صدر، سول سیکرٹریٹ اور سرکاری دفاتر کی بجلی کاٹ دی۔ ویسٹ پاکستان فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز کے صدر بشیر بختیار کے الفاظ میں یہ صدر ایوب کے لئے واضح پیغام تھا کہ ''تمہیں جانا ہوگا، نہیں گئے تو ہم یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔‘‘(فلپ ای جونز، ''پاکستان پیپلز پارٹی کاابھار‘‘)
25مارچ 1969ء کو ایوب خان نے اپنی الوداعی تقریر میں کہا تھا کہ ''میں آخری بار بطور صدر آپ سے خطاب کر رہا ہوں... ریاستی ادارے مفلوج ہو چکے ہیں...عوام کے گروہ گھیرائو کے ذریعے اپنے مطالبات منوا رہے ہیں...ملک کی خدمت کرنے والے لوگ (ریاستی اہلکار) اس جم غفیر کے ماتحت کام کرنے پر مجبور ہیں... میری خواہش ہے کہ سیاسی طاقت آئینی طریقے سے منتقل ہو لیکن ملک کے موجود حالات میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا ممکن نہیں ہے۔ کئی ممبران اسمبلی تو سیشن میں آنے کی جرات ہی نہیں کر سکتے...میں یہ کہتے ہوئے بہت افسردہ ہوں کہ صورتحال اب حکومت کے کنٹرول میں نہیں رہی ہے...تمام حکومتی ادارے خوفزدہ، مجبور اور محکوم ہو چکے ہیں...ملک کا ہر فیصلہ اب سڑکوں پر ہورہا ہے‘‘۔
بدقسمتی سے آج پاکستان کو بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا گڑھ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ایک تھیوکریٹک ریاست کے طور پر اس کی پیدائش، مارشل لاکے طویل ادوار، ریاستی جبر، لا قانونیت، جرائم، فراڈ، کرپشن، مذہبی جنونیوں کے جتھے اور مسلسل عدم استحکام ہی عالمی سطح پر اس ملک کی پہچان بن کے رہ گئے ہیں۔ مذہبی بنیاد پرست مسائل کا ''حل‘‘ ماضی بعید کے اندھیروں میں تلاش کرتے پھر رہے ہیں تو سامراج کے وظیفہ خوار ''لبرل ڈیموکریسی‘‘ اور ''گڈ گورننس‘‘ کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے مجبور اور محکوم عوام نے یہ دونوں ''نسخے‘‘ نسل در نسل آزمائے ہیں اور مرض بڑھتا ہی چلا گیا ہے۔ ''سیکولر ازم‘‘ اور بنیاد پرستی، ''جمہوریت‘‘ اور آمریت کے جعلی تضادات کی چکی میں انہیں پیسا جاتا رہا ہے۔ حکمران طبقے کے ان مختلف دھڑوں اور رجحانات کا ہر ''حل‘‘ اس نظام میں شروع ہو کر اسی میں ختم ہوجاتا ہے جو غربت، ظلم اور بربادی کے سوامحنت کش عوام کو کچھ نہیں دے سکتا۔
6نومبر اگر ایک ادھورے انقلاب کے آغاز کی تاریخ ہے تو 7نومبر کا دن نسل انسان کی تاریخ کا دھارا موڑ دینے والے کامیاب سوشلسٹ انقلاب کی یاد دلاتا ہے، یخ بستہ روس کو جرأت اور بغاوت کی حرارت سے گرما دینے والا1917ء کا بالشویک انقلاب۔ آج سے 97برس قبل انسانی تاریخ کے اس بے نظیر سماجی، سیاسی اور معاشی تجربے کا آغاز ہوا جس نے ثابت کیا کہ سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور بینکاروں کے بغیر بھی سماج کو چلایا جاسکتا ہے اور بہت بہتر انداز میں چلایا جاسکتا ہے۔ اکیس سامراجی فوجوں کی یلغار، بدترین معروضی مشکلات، تکنیکی اور اقتصادی پسمانگی اور عالمی سطح پر تنہائی کے باوجود منڈی کی معیشت کا خاتمہ کر کے استوار کی جانے والی منصوبہ بند معیشت نے سوویت روس میں پیداواری قوتوں کو وہ جلا بخشی جس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ 1928ء سے 1970ء تک سوویت یونین میں فی فرد جی ڈی پی میں اضافے کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ رہی۔ بالشویک انقلاب کے چشم دید گواہ، امریکی صحافی جان ریڈ اپنی شہرہ آفاق کتاب ''دنیا کو ہلا دینے والے دس دن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ''بالشویزم کے بارے میں کوئی کچھ بھی کہتا رہے، یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انقلاب روس انسانی تاریخ کے عظیم ترین واقعات میں سے ایک ہے اور بالشویک پارٹی کا اقتدار ایک عالمگیر اہمیت کا مظہر ہے‘‘۔
بالشویک انقلاب نے صدیوں تک مزدوروں اور کسانوں کا استحصال کرنے والے مٹھی بھر حکمرانوں سے اقتدار چھین کر اکثریتی محنت کش عوام تک منتقل کیا۔ پرولتاریہ کی رہنما پارٹی کی طرف سے سرمایہ دارانہ ریاست کا تختہ الٹنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے تمام تر عمل میں محنت کشوں کی اکثریت شعور ی اور عملی طور پر شریک تھی۔ کلاسیکی مارکسسٹ خطوط پر چلنے اور مکمل ہونے والا یہ اب تک کا واحد انقلاب ہے۔
محکوم طبقات کے لئے بالشویک انقلاب کے کیا معنی ہیں؟ اس سوال کا جواب جان ریڈ انقلابی سرکشی کی شام کا نظارہ بیان کرتے ہوئے دیتا ہے: ''دارالحکومت کی جگمگاتی ہوئی روشنیاں افق پر پھیلی تھیں، رات کو یہ نظارہ دن کی نسبت کہیں زیادہ دل فریب تھا، جیسے بانجھ زمین میں کسی نے موتی جڑ دئیے ہوں۔ بوڑھا مزدور ایک ہاتھ سے ریڑھی کھینچتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے سڑک پر جھاڑو دے رہا تھا۔ ایک لمحے کے لئے اس نے دور دمکتے ہوئے دارالحکومت کو دیکھا اور خوشی سے بے قابو ہو کر بلند آواز میں بول اٹھا ''میرا! میرا پیٹروگراڈ اب سارے کا سارے میرا ہے‘‘۔ (جاری)