تیس سال قبل 20نومبر 1984ء کو برصغیر کے عظیم شاعر، دانشور اور کمیونسٹ انقلابی فیض احمد فیض رحلت فرما گئے۔ فیض صاحب کی شاعری آج ان کے عہد سے بھی زیادہ مقبول ہے، ان کے کروڑوں مداح ہیں لیکن کچھ ناقدین اور لکھاری فیض کی شخصیت، ان کی زندگی کے مقصد اور نظریات کو مسخ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہاں کا المیہ یہ ہے کہ فرد کی پزیرائی میں کی جانے والے مبالغہ آرائی تلے اس کی اصل شخصیت دب کے رہ جاتی ہے۔خصوصاً کسی ''بڑی‘‘ شخصیت کے بچھڑ جانے کے بعد مختلف سیاسی اور مذہبی رجحانات اس کی فکر کوگھائل کرکے رکھ دیتے ہیں۔ بعض اوقات تو ''خراج عقیدتوں‘‘ کے چکر میں متعلقہ شخصیت کے نظریات کو ان کی ضد میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور داد تحسین کے نعرے بھی ساتھ ساتھ گونجتے رہتے ہیں۔ سیاست اور صحافت کے مختلف رجحانات آج فیض صاحب کی شاعری اور شخصیت کو بھی اپنے اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے میں مصروف ہیں۔
جناح صاحب کو یہاں کا حکمران طبقہ لمبے عرصے تک ایک جمہوری اور سیکولر سیاستدان کے طور پر پیش کرتا رہا۔ ان کی 11اگست کی تقریر کا حوالہ یہاں کی ''سول سوسائٹی‘‘ اور سیاست کے ''سیکولر‘‘ رجحانات آج بھی دیتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے مذہبی جماعتیں اور قدامت پرست دانشور جناح صاحب کی کئی دوسری تقاریر کو استعمال کرتے ہوئے ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ نفاذ شریعت پر مبنی سخت گیر تھیوکریٹک ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔ یہ وہی رجحانات ہیں جو جناح صاحب کی زندگی میں ان کے کٹر دشمن اور پرتشدد حد تک نظریہ پاکستان کے دشمن تھے۔
1967ء میں قائم ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کو جب عوام میں وسیع تر حمایت اور پزیرائی ملنی شروع ہوئی تو پارٹی میں گھسائے جانے والے چند ملائوں نے جناح صاحب کی چٹاگانگ کی تقریر (مارچ 1948ء )کا حوالہ دیتے ہوئے پارٹی کی بنیادی دستاویزات اور منشور میں شامل سائنسی سوشلزم کو ''اسلامی سوشلزم‘‘ بنا دیا۔انقلابی سوشلزم سے خوفزدہ حکمران طبقہ اور ریاست ''سوشلزم‘‘ کی اصطلاح اور مطلب کو ہی مسخ کرنا چاہتے تھے۔ المیہ یہ ہے کہ آج مزار بنا کے ذوالفقار علی بھٹو کو بھی ایک ''صوفی‘‘ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ انقلابی سوشلزم کے نعرے پر برسر اقتدار آنے والے عوامی رہنما کے حامیوں اور پارٹی کارکنان کو پیری فقیری کے چکر میں ڈال کر نظریاتی اور سیاسی طور پر مفلوج کر دیا جائے۔
فیض صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی کیا جارہا ہے۔ ایک حالیہ اخباری تجزئیے میں فیض صاحب کی شاعری کو کسی ''مخصوص نظرئیے‘‘ کے ساتھ جوڑنا باقاعدہ جرم قرار دیا گیا ہے۔ فیض صاحب نے تمام عمر اپنے نظریات کبھی نہیں چھپائے۔ وہ کھل کر بڑی جرأت سے خود کو کمیونسٹ قرار دیتے تھے۔ اسی نظرئیے کی پاداش میں انہیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، جلا وطن بھی ہوئے لیکن ہر قسم کی تضحیک، جبر اور اذیت کے باوجود ،مرتے دم تک اپنے نظریات چھپائے نہ ان سے منحرف ہوئے۔ فیض کو مارکسزم اور کمیونزم سے الگ قرار دینا کم از کم کسی ذی شعور انسان کے لئے ممکن نہیں ہے۔ وکی پیڈیا پر درج فیض صاحب کے اس تعارف کو کسی حوالے کے ضرورت نہیں ہے کہ فیض ''پروگریسو رائیٹرز موومنٹ‘‘ (PWM)کے سرخیل رکن تھے۔ وہ واشگاف طور پر مارکسسٹ تھے۔1962ء میں انہیں سوویت یونین کی طرف سے 'لینن امن انعام‘ سے نوازا گیا...‘‘
ستمبر 1982ء میں پاکستان سے جلاوطن بائیں بازو کے انقلابی کارکنان سے ایمسٹرڈیم میں گفتگو کرتے ہوئے فیض صاحب نے بڑی عاجزی سے اعتراف کیاکہ مارکسزم اور کمیونزم کے نظریات ہی ان کی گہری، سچی اور پرکشش شاعری کی اصل قوت محرکہ ہیں، سماج کی انقلابی تبدیلی کی تڑپ نے ہی ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارکر اجاگرکیا۔اس ملاقات میں فیض صاحب نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (متحدہ ہندوستان) اور بعد ازاں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے کارڈ ہولڈنگ ممبر ہونے کی حیثیت سے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا ذکر بھی چھیڑا۔ فیض مزدور تحریک میں سرگرم رہے اور انتہائی جانفشانی سے ٹریڈ یونین تنظیموں کو انقلابی بنیادوں پر متحد اور منظم کرنے کی جدوجہد کا حصہ بنے۔
1951ء میں فیض صاحب کو ''راولپنڈی سازش کیس‘‘ میں گرفتار کیا گیا۔ اس کیس کو امریکی سامراج کی خفیہ دستاویزات میں ''کمیونسٹ کُو‘‘ قرار دیا گیا اور کئی دہائیوں تک پاکستان میں بائیں بازو کی قوتوں پر ریاستی جبر کے جواز کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ اس کیس میں فیض صاحب کو گرفتار اور بعد ازاں قید کروانے میں امریکی سامراج کا گہرا عمل دخل تھا۔ امریکی سامراج اور اس کی پروردہ علاقائی قوتوں کے خلاف تحریکوں میں فیض نے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے جلاوطنی کا زیادہ تر وقت بیروت (لبنان) میں گزارا جس کی اہم وجہ فلسطین کی جدوجہد آزادی میں ان کی گہری دلچسپی اور شراکت تھی۔ اس عہد میں چونکہ پی ایل او پر مارکسزم اور بائیں بازو کے نظریات حاوی تھے چنانچہ فیض کو اس تحریک میں مداخلت اور کام کرنے کے زیادہ مواقع میسر آئے۔
فیض صاحب نے جہاں عالمی سامراج سے ٹکر لئے رکھی وہاں مذہبی بنیاد پرستی اور رجعت کے خلاف بھی جدوجہد کرتے رہے:
جن کا دیں پیروی کذب و ریا ہے ان کو
ہمت کفر ملے، جرأت تحقیق ملے
جن کے سر منتظر تیغِ جفا ہیں ان کو
دست قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے
عشق کا سر نہاں جان تپاں ہے جس سے
آج اقرار کریں اور تپش مٹ جائے
حرفِ حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح
آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے
آج فیض کے کئی قریبی دوست اور نئی نسل میں ان کے بہت سے مداح سماج پر حاوی رجعت اور پراگندگی سے گھبرا کر ان کے کمیونسٹ ہونے کی سچائی کو چھپانے یا رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشکل سے مشکل عہد میں فیض نے ایسی کوئی کوشش کبھی نہیں کی۔ مارکسزم سے فیض کی شخصیت کو جو جلا بخشی اس کا ذکر وہ اپنی نظم ''رقیب سے‘‘ میں برملا کرتے ہیں :
عاجزی سیکھی، غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے، دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
فیض صاحب میں بہت سی نظریاتی کمزوریاں ہو سکتی ہیں، وہ سوویت یونین کے انہدام کا تناظر تخلیق نہیں پائے لیکن مشکل ترین حالات میں بھی انقلابی سوشلزم اور انسانیت کے کمیونسٹ مستقبل پر فیض صاحب کا یقین کبھی متزلزل نہیں ہو۔ان کے حوصلے ہمیشہ بلند رہے۔
یہ غم جو اس رات نے دیا ہے
یہ غم سحر کا یقیں بنا ہے
یقیں جو غم سے کریم تر ہے
سحر جو شب سے عظیم تر ہے
آج مارکسسٹوں کا وقت خراب ہے لیکن ہمیشہ نہیں رہے گا۔ اگر وہ وقت نہیں رہا تو یہ بھی نہیں رہے گا۔ ذلت اور بربادی کے اس عہد میں بغاوت بھی پک رہی ہے۔ کسی زمانے میں ''بائیں بازو‘‘ کے سرخیل رہنما اور دانش ور بھلے مارکسزم اور کمیونزم سے ''تائب‘‘ہوچکے ہوں لیکن وقت بدلتا ہے، حالات کروٹ کھاتے ہیں۔ تحریک پھر سے ابھرے گی، محنت کش طبقے پھر بیدار ہو گا۔جب تک محنت کش طبقہ موجود ہے، طبقاتی کشمکش پسپا تو ہوسکتی ہے، مٹ نہیں سکتی۔ انسانی سماج کا یہ سائنسی قانون ہی انقلابیوں میں اس امید کو زندہ رکھتا ہے جو ذلت کے اس نظام کو بدلنے اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے نسل انسان کی بقا اور نجات کو یقینی بنائے گی۔ فیض نے اس امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑا تھا۔
اور کچھ دیر ٹھہر جائو کہ پھر نشتر صبح
زخم کی طرح ہر اک آنکھ کو بیدار کرے!