"DLK" (space) message & send to 7575

سقوط بنگال‘ محنت کشوں کی نظر سے!

سقوط ڈھاکہ کی بحث کو حکمران طبقے کے ''نظریہ دان‘‘ آپسی الزام تراشی اور تکرار میں الجھا دیتے ہیں۔ محنت کش طبقے کے نقطہ نظر اور 1971ء کے واقعات میں انقلاب اور رد انقلاب کے فیصلہ کن کردار کو جنگ اور سفارتی تصادم کی کہانیوں میں غرق کر دیا جاتا ہے۔ سقوط بنگال کی تاریخ درحقیقت 1968-69ء کے انقلاب کی پسپائی اور اس خطے کے محنت کش طبقے کی عظیم ترین بغاوت کے کچلے جانے کی داستان ہے۔ 
1968-69ء میں ایوب آمریت کے خلاف ابھرنے والی انقلابی تحریک جہاں مغربی پاکستان میں روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کے گرد مرتکز ہو رہی تھی وہاں مشرقی پاکستان میں سلگتے ہوئے معاشی مسائل اور قومی جبر اس تحریک کو آگے کی جانب لے کر جا رہے تھے۔پشاور سے چٹاگانگ تک، پہلی بار مشرقی و مغربی پاکستان کے محنت کش یکجا ہوئے تھے۔ مشرقی پاکستان کی سٹالنسٹ قیادت جب مرحلہ وار انقلاب کے غلط نظریات کے باعث ا س تحریک کو سوشلسٹ انقلاب کے ساتھ نہیں جوڑ سکی تو شیخ مجیب کی قیادت میں قوم پرستوں کو قدم جمانے کا موقع ملا۔آج چار دہائیوں سے زائد گزرنے کے بعد یہ واضح ہے کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر'' قومی آزادی‘‘ کا حصول بنگالی عوام کا کوئی ایک مسئلہ حل نہیں کر پایا۔ اگر اس تحریک کو سرمایہ دارانہ نظام کی تبدیلی کے ساتھ جوڑتے ہوئے پورے خطے کے محنت کش طبقے کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا جاتا اور اس طبقاتی نظام کا خاتمہ کر دیا جاتا تو نہ صرف قومی جبر سے نجات ملتی بلکہ محنت کش عوام کے تمام معاشی اور سماجی مسائل بھی حل کیے جا سکتے تھے۔
برطانوی سامراج سے آزادی کی جدوجہد میں بنگال کے انقلابیوں کا کردار آغاز سے ہی نمایا ں تھا۔اسی بنیاد پر 1905ء میں بنگال کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر کے اس تحریک کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ''تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت ہونے والے اس فیصلے کے خلاف پورے ہندوستان میں عوامی تحریک بھڑک اٹھی۔ برطانوی سامراج کو 1911ء میں یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ 1947ء میں دوبارہ جب پورے ہندوستان کا خونی بٹوار ہ کیا گیا تو پھر بنگال کو سامراجی مقاصد کے لیے چیر دیا گیا۔
قیام پاکستان کے دو سال بعد مشرقی بنگال میں مولانا بھاشانی کی صدارت میں عوامی لیگ کا قیام سماجی بے چینی کا ایک اظہار تھا۔ اس کے چار بنیادی نکات ''جمہوریت، سوشلزم، سیکولرازم اور نیشنلزم‘‘ تھے۔ بعد ازاںحسین شہید سہروردی کے وزیر اعظم بننے اور امریکہ کی سامراجی پالیسیوں کا حصہ بننے کے باعث بھاشانی نے 1957ء میں عوامی لیگ سے الگ ہو کر مشرقی اور مغربی پاکستان کی بائیں بازو کی مختلف قوتوں کو ملا کر ڈھاکہ میں ہی نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی۔ ایوب آمریت کے خلاف طلبا اور مزدوروں کی تحریکوں میں اس پارٹی کا اہم کردار رہا۔مصر میں نہر سوئز کے قومیائے جانے سے لے کر بہت سے افریقی اور ایشیائی ممالک میں ابھرنے والی عوامی تحریکوں اور بائیں بازو کی حکومتوں نے اس پارٹی پر اہم اثرات مرتب کئے لیکن سٹالنزم کی غلط نظریاتی بنیادوں کے باعث یہ محنت کشوں اور طلبہ کو کبھی بھی مکمل سماجی تبدیلی کی جانب نہیں لے جا سکی۔ یہاں تک کہ 1965ء کے ''بنیادی 
جمہوریت‘‘ کے انتخابات میں بھاشانی کو چین کی جانب سے مجبور کیا گیا کہ وہ ایوب خان کی مخالفت نہ کریں۔مائو زے تنگ کے دباؤ پر اس کے دوست ایوب خان کے خلاف 1968-69ء کی انقلابی تحریک سے بھی مولانا بھاشانی دستبردار ہوگئے۔ 1970ء کے انتخابات میں مولانا بھاشانی نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا جس کے باعث شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان کی قومی اسمبلی کی 169 نشستوں میں سے 167پر کامیابی حاصل کی۔قیادت کی غداری سے یہ طبقاتی تحریک ، قوم پرستی کی کھائی میں گرنے لگی۔ 
پاکستان کے قیام کے بعدجہاں نومولود حکمران طبقے نے محنت کشوں کو نوچنا شروع کیا وہاں مشرقی بنگال کا قومی استحصال بھی شدت اختیار کرتا گیا۔یہاں کا حکمران طبقہ کسی انقلاب کے ذریعے اقتدار میں نہیں آیا تھا بلکہ سامراج کی کاسہ لیسی اور گماشتگی کے باعث اسے یہ حکمرانی بھیک میں ملی تھی۔اس لیے جہاں سامراجی آقاؤں کی خدمت اور ان کے مفادات کا تحفظ ان کی اولین ذمہ داری تھی وہاں اس خدمت کے عوض لوٹ مار میں اپنا کمیشن وصول کرنا بھی وہ اپنا حق سمجھتے تھے۔مشرقی بنگال میں طبقاتی تحریک زوال پزیری کے عالم میں خانہ جنگی بن گئی۔ فوج کشی ہوئی، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا، دونوں ممالک نے اپنے اپنے سامراجی عزائم کے تحت فوج کشی کی۔ جماعت اسلامی نے اپنا رجعتی اور رد انقلاب کردار ریاست اور سامراج کی ایما پر ادا کیا۔ہزاروں خواتین کا بلادکار کیا گیا، لاکھوں بے گناہ لقمہ اجل بن گئے۔
درحقیقت 1970ء کے انتخابات کے انعقاد کا مقصداس انقلابی تحریک کو ''جمہوری‘‘ بنیادوں پر زائل کرنا تھا جو ملک کے دونوں حصوں میں سوشلسٹ انقلاب کی جانب تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ لیکن تحریک تمام تر جبر کے باوجود تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی اور سرمایہ دارانہ نظام لرز رہا تھا۔امریکی جریدے ''ٹائم‘‘ میں اس وقت پیٹر ہیزل ہرسٹ نے لکھا تھا کہ''سرخ بنگال اسلام آباد سے زیادہ دہلی کے لیے خطرہ ہے‘‘۔ 
عالمی سطح پر انقلابی تبدیلیوں کے عہد میں سرخ بنگال طاقتوں کا توازن تبدیل کر سکتا تھا۔ اسی خطرے کے پیش نظر امریکی بحری بیڑہ بھی خلیج بنگال میں موجود تھا تا کہ پاکستان کے بعد ہندوستانی فوج بھی اگر ناکام ہوتی ہے تو وہ اس تحریک کو کچلنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انقلاب میں ابھرے ہوئے عوام کو فوجی جبر کے ساتھ نہیں کچلا جا سکتا بلکہ قیادتوں کی نظریاتی غداریاں تحریکوں کو برباد کرتی ہیں۔
لاکھوں افراد کی قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والی ''آزادی‘‘ میں بنگلہ دیش کے محنت کش آج بھی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ ان پر ظلم اور استحصال کرنے والے اب پاکستان کی بجائے بنگلہ دیش کے حکمران طبقات ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں اور سامراج کا جبر و استحصال نہ صرف موجود ہے بلکہ 1971ء کے بعد پاکستان کی طرح بنگلہ دیش میں بھی کئی گنا بڑھا ہے۔ عالمی منڈی کی جکڑ بندیاں بھی پہلے سے زیادہ سخت ہوئی ہیں۔گارمنٹس کی صنعت کے لاکھوں محنت کش آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور انتہائی بے سر و سامانی کی کیفیت میں زندگی گزار رہے ہیں۔دنیاکے سستے ترین محنت کشوں میں شمار ہونے والے بنگلہ دیش کے محنت کش ملٹی نیشنل کمپنیوں کا منافع بڑھانے والا خام مال بن کے رہ گئے ہیں۔کبھی فیکٹریوں میں لگنے والی آگ میں جھلس کر اور کبھی ناقص عمارت کے انہدام سے مرنے والے محنت کش آج بھی اپنے بنیادی حقوق کی جدوجہد میں سرگرداں ہیں۔عوامی لیگ کی موجودہ حکومت آزادی کے 43سال بعد بھی انہیں بنیادی سہولیات دینے سے قاصر ہے اور حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے 1971ء کے مجرموں کو سزائیں دینے کا ناٹک کررہی ہے۔ لیکن ان سے کہیں بڑے مجرم وہ حکمران اور ان کا نظام ہے جو نسل در نسل محنت کش عوام کو غربت، محرومی، بھوک، بیماری اور ناخواندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق کئے ہوئے ہیں۔بنگلہ دیش کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں غربت کے باعث عصمت فروشی کا رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔
1971ء کے قتل عام میں اصل خون اس انقلابی تحریک کا ہوا تھاجو بر صغیر کی سوشلسٹ فیڈریشن کی جانب بڑھ رہی تھی۔برصغیر دنیا کی سب سے زیادہ غربت پالنے والے خطے کی بجائے انسانی تہذیب کی ترقی اور امن کا گہوارہ ہوتا۔یہ ڈیڑھ ارب انسان ماضی کے فرسودہ تعصبات سے پاک ہو کر یکجا ہوجاتے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں