"DLK" (space) message & send to 7575

گھٹا ٹوپ‘ بے انت راتوں کے سائے

انسان کتنا ہی بے بس ہو، معاشرہ کتنا ہی بے حس ہو جائے لیکن رگِ جان میں ایسے خلیے ضرور ہوتے ہیں‘ جنہیں کوئی واقعہ سلگا دیتا ہے۔ ابتدا میں یہ کیفیت کرب اور اذیت کو جنم دیتی ہے لیکن پھر روح کے زخم بھی جاگ کر غصے کو جنم دیتے ہیں، ظلم و بربریت کے خلاف انتقام کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں۔ افراد میں بکھرا ہوا دکھ جب شریانوں میں دوڑ کر ظلم سے انتقام کی اجتماعی تڑپ کو بیدار کرتا ہے تو بکھری ہوئی گھائل بغاوت مجتمع اور بیدار ہو جاتی ہے۔
ہر ماں اور باپ آج اپنے بچوں کو خوفزدہ نظرسے دیکھ رہے ہیں، جیسے انہیں کھو دینے کا اندیشہ ہو۔ بچوں کے ذہن میں سکول کا تناظر بدل رہا ہے۔ دہشت کا خوف، زندگی کی ذلت، مذہبی جنون اور لبرل بیہودگی کا تسلط جس سماجی بیگانگی کو جنم دے رہا ہے اس سے اجتماعی نفسیات فی الوقت مفلوج ہے۔ پشاور میں مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں بچوں کے قتل عام کے بعد انسانیت غم سے نڈھال ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ فیض صاحب نے اپنے یہ اشعار انہی بچوں کے نام کئے تھے:
پڑھنے والوں کے نام 
جو اصحاب طبل و علم... کے دروں پر کتاب اور قلم... کا تقاضا لیے، ہاتھ پھیلائے... پہنچے مگر لوٹ کر گھر نہ آئے... وہ معصوم جو بھولپن میں... وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن... لے کے پہنچے جہاں... بٹ رہے تھے گھٹا ٹوپ، بے انت راتوں کے سائے!
بھوک، ننگ، افلاس اور محرومی کے عذاب در عذاب میں گھرے محنت کش عوام کی روح اور احساس پہلے ہی سلگ رہے ہوتے ہیں۔ ایسے المناک واقعات کے بعد رائج الوقت حاکمیت کے خلاف نفرت کی چنگاری، بغاوت کے شعلوں کو بھڑکا سکتی ہے۔ حکمران درحقیقت اسی بغاوت سے گھبرائے ہوئے ہیں؛ چنانچہ حکمران طبقہ اپنی ریاست، سیاست اور صحافت کے ذریعے اس واقعے کو عوام میں بددلی پھیلا کر انہیں مایوسی کی دلدل میں مزید غرق کر دینے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ 
سب پارٹیوں نے اور ریاستی اداروں کے سربراہان نے حسب روایت ''مذمت‘‘ کی ہے۔ نریندر مودی کی وجہ شہرت ہی وحشت ہے۔ جس شخص کی سیاسی طاقت ہی ہندو بنیاد پرستی کی بربریت ہو، دہشت گردی پر اس کا ''اظہار افسوس‘‘ بڑا عجیب سا لگتا ہے۔ لاطینی امریکہ سے لے کر فلسطین، عراق اور افغانستان تک اپنے ہاتھ لاکھوں انسانوں کے لہو سے رنگنے والے ڈیوڈ کیمرون اور جان کیری جیسے افراد کی مذمتیں بھی طنز محسوس ہوتی ہیں۔ یہ اسی سامراج کے نمائندے ہیں جس نے بنیاد پرستی کی اس بربریت کو جنم دیا تھا۔ مینار پاکستان کے سائے میں ایک جماعت کے اجتماع عام میں کچھ ہی دن پہلے ''جہاد‘‘ اور ''قتال‘‘ کا درس سر عام دیا گیا۔ طالبان اور مذہبی دہشت گردی کی طرف اس رجعتی طاقت کا رویہ نہ صرف معذرت خواہانہ رہا بلکہ اکثر و بیشتر اس بربریت کے جواز پیش کئے جاتے رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب ٹسوے بہا کر زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔
ایسے ''سرکاری ملا‘‘ بھی ہیں جو اس واقعے کو رجعت کے مزید ابھار کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ عوامی غم و غصے کے پیش نظر ان ملائوں نے مذہب کے نام پر ہونے والی اس درندگی کو غیر اسلامی قرار دینا شروع کر دیا ہے۔ افغان ڈالر جہاد میں امریکہ نے ملائوں کی جو کھیپ پیدا کی تھی وہ خود بری الذمہ ہونے کے لئے امریکہ پر الزام تراشی کر رہی ہے۔ 16 دسمبر کی شام دارالحکومت اسلام آباد کے دل میں واقع جامعہ حفصہ کے ایک اہم کردار نے پشاور کی بربریت کی مذمت کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ بھارت کی طرف بھی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں اور اس سلسلے میں جہادی گروہوں کے بانی کچھ سابق جرنیل پیش پیش ہیں کیونکہ ''قوم‘‘ اور مذہب کی دشمنی کا یہ تعصب نہ ہو تو ریاستی سرپرستی پر منحصر ان کا بچا کھچا سیاسی وجود بھی ختم ہو جائے۔
''اچھے‘‘ اور ''برے‘‘ طالبان کی بحث کو ریاستی دانشور دانستہ طور پر پھر سے ابھار رہے ہیں۔ ''اعتدال پسندوں‘‘ اور انتہا پسندوں کے درمیان مصنوعی لکیر کھینچنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ یہاں بڑے بڑے ''معتدل‘‘ بوقت ضرورت جنونی ہو جاتے ہیں اور جہادی گروہ ''فلاحی اداروں‘‘ کے ذریعے ''انتہا پسندانہ اعتدال‘‘ کے کاروبار چلاتے نظر آتے ہیں۔ ایسے ''اعتدال پسند‘‘ تبلیغی رجحان بھی ہیں جن کے سالانہ اجتماعات میں بیوروکریٹوں اور ارب پتی سرمایہ داروں سے لے کر خونخوار دہشت گردوں تک ہر طرح کے لوگ ملتے ہیں۔ مذہبی جنون کی ان ''اعتدال پسند‘‘ نرسریوں کی اصلیت ٹالبوٹ کی نئی کتاب ''پاکستان کی نئی تاریخ‘‘ میں بے نقاب کی گئی ہے کہ میڈرڈ اور لندن کی ٹرینوں میں ہونے والی دہشت گردی میں کوئی اور نہیں بلکہ اسی رجحان کے افراد براہ راست ملوث تھے۔ 
مذمت سے لے کر ہنگامی اجلاسوں میں ''عزم‘‘ کے اظہار تک، یہ حکمران ہر وہ کام کریں گے جس سے مذہبی جنون اور دہشت گردی کے کاروبار پر کوئی ضرب نہ لگے۔ سرعام دندنانے والی کسی ''کالعدم‘‘ تنظیم پر ہاتھ ڈالا جائے گا نہ کوئی مدرسہ بند ہو گا۔ پاکستان کی سرمایہ داری اتنی گل سڑ چکی ہے کہ کالے دھن کے سہارے کے بغیر ڈھیر ہو جائے گی۔ کالے دھن کو تحفظ دینے کے لئے کئی ملکوں کے حکمران مذہب کا استعمال دہائیوں سے کرتے آرہے ہیں۔ کسی عقیدے کو سیاسی اور سٹریٹجک مقاصد کے لئے استعمال کرنے والوں کے دامن بعض اوقات اپنی ہی بھڑکائی ہوئی آگ سے جل جاتے ہیں۔ امریکی سامراج کے بعد پاکستانی ریاست کو اس حقیقت کا ادراک بڑے تلخ تجربات کروا رہا ہے۔ 
لیکن بنیاد پرستی صرف مدرسوں اور مذہبی تنظیموں تک محدود نہیں بلکہ ریاستی مشینری کے اندر تک سرایت کر چکی ہے۔ ضیاالحق کی یہ پالیسی ہر ''جمہوری‘‘ حکمران نے جاری رکھی ہے۔ بنیاد پرستی کو سیاسی حکمرانوں نے بھی استعمال کیا ہے اور سرمایہ داروں نے بھی۔ آج کل کئی تنظیمیں سر عام ''خیراتی کام‘‘ کر رہی ہیں۔ دہشت گردوں کو سزا نہ ملنا یا انتظامیہ کا ان پر ہاتھ نہ ڈالنا کوئی حیران کن امر نہیں ہے۔ یہ اس رجعت کا ہی اظہار ہے جسے حکمران طبقہ اپنے بوسیدہ نظام کے تسلط کے لئے بے دریغ استعمال کرتا آیا ہے۔ 
نیک نامی کے لئے خیرات کرنے والے بعض سخی بنیاد پرستوں پر بھی بھاری سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ جب تک منشیات، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، ڈاکہ زنی جیسے جرائم کے کالے دھن کی بے پناہ سپلائی اس دہشت گردی کو حاصل ہے، یہ کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ یہ منافع بخش کاروبار ہے۔ فاٹا جیسے پسماندہ قبائلی سماجوں میں پاکستان کی بوسیدہ اور مافیا سرمایہ داری کی مداخلت نے سماجی ارتقا کی ناہمواری کو بھڑکا کر اس بربریت کو جنم دیا ہے جس کے وار پورے معاشرے کو گھائل کر رہے ہیں۔ کالے دھن کی یہ ''جدیدیت‘‘ قبائلی سماج کے پسماندہ ڈھانچوں کو توڑنے کی بجائے انہیں مسخ کر کے خونخوار بنانے کا موجب بنی ہے۔ 
مذہبی فسطائیت اور دہشت گردی آخری تجزیے میں سرمایہ دارانہ نظام کے بھیانک بحران کا نچڑا ہوا عرق ہے۔ اس حقیقت کو چھپانا ہی کارپوریٹ میڈیا اور حکمران طبقے کے دانشوروں کا کاروبار ہے۔ اس نظام میں دہشت گردی اور بڑھے گی، رکے گی نہیں۔ سکیورٹی کمپنیاں خوب مال بنا رہی ہیں لیکن کس کس سکول میں کہاں کہاں سکیورٹی دی جا سکتی ہے؟ جس ریاست کے اندر کالا دھن سرایت کر جائے، جس معیشت میں جائز اور ناجائز کی لکیر ہی مٹ جائے، اہل ہوس جب مدعی ہوں اور منصف بھی، جس خمیر میں ہی وحشت کے جراثیم ہوں وہاں یہ ناسور کیسے ختم ہو سکتا ہے؟
فریڈرک اینگلز نے سو سال پہلے لکھ دیا تھا کہ ''ایک صدی بعد نسل انسان کے سامنے دو ہی راستے ہوں گے۔ بربریت یا سوشلزم!‘‘ بربریت کا ننگا ناچ جاری ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد، نسل انسان اور تہذیب کے بقا کی فیصلہ کن جنگ بن چکی ہے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں