"DLK" (space) message & send to 7575

دہشت گردوں سے کون ٹکرائے گا؟

امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے حالیہ دورہ پاکستان نے سرمایہ دارانہ سفارت کی چالوں، پاکستانی اشرافیہ کی اطاعت اورامریکی سامراج کی بے بسی کو خوب بے نقاب کیا ہے۔ پاکستان کے حکمران امریکہ سے زیادہ ''امداد‘‘ نکلوانے کی چکر میں تھے جبکہ جان کیری یہ حقیقت جانتے بوجھتے ہوئے بھی ''ڈُو مور‘‘ پر زور دیتے رہے کہ وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے۔ امریکی سامراج کا جھکائو واضح طور پر بھارت کے ''مطالبات‘‘ کی طرف تھا جس کی وسیع و عریض منڈی کی امریکی ملٹی نیشنل اجارہ داریوںکو اشد ضرورت ہے۔ 
متضاد مفادات رکھنے والے امریکی سامراج اور پاکستانی ریاست کی ''دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں ''شراکت‘‘ حسب توقع بے سود ثابت ہوئی۔ 1979ء میں '' جہاد ‘‘ سے جنم لینے والا دہشت گردی کا ناسور پھیلتا جارہا ہے۔ سامراجی، ریاستی اور غیر ریاستی دہشت گردی کاگھن چکر 2001ء میں امریکی جارحیت کے بعد سے اور بھی خونخوار ہو گیا ہے۔ 
پاکستان کی ریاست اگر داخلی تضادات اور پیچیدگی کے باعث دہشت گردی کے خاتمے میں ناکام رہی ہے تو امریکی سامراج کی صورت حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ نائن الیون کے بعد بش، چینی اور رمز فیلڈ کے ٹولے نے قوم پرستی کے نعرے لگا کر افغانستان پر حملہ کرنے میں دیر نہ کی ۔ پھر انتہائی ڈھٹائی سے جھوٹے الزامات لگا کر عراق پر امریکی فوجیں چڑھا دی گئیں۔ سامراج کے پالیسی ساز اپنی قوت کو ناقابل تسخیر سمجھنے لگے۔ عراق اور افغانستان کے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کا کوئی حساب نہیں ۔ لاکھوں افراد مارے گئے اور اس سے کہیں زیادہ بے گھر ہوئے۔ان گنت زندگیاں برباد کرنے کے باوجود امریکی سامراج کا ''مشن‘‘ بری طرح ناکام و نامراد ہوا۔ امریکی خزانہ خالی ہوگیا، فوج کی کمر تقریباً ٹوٹ گئی اور مذہبی بنیاد پرستوںکو پھلنے پھولنے کے نئے مواقع اور علاقے میسر آ گئے۔ 
عراق اور افغانستان کی جنگوں نے امریکی ریاست پر 5 ہزار ارب ڈالرکا اضافی قرضہ چڑھا دیا ۔ یہ قرضہ فی امریکی شہری 16ہزار ڈالر بنتا ہے۔ دونوں ممالک میں 25 لاکھ امریکی تعینات کیے گئے اورکئی افراد ایک سے زیادہ بار تعینات ہوئے۔ عراق اور افغانستان میں اب تک 57ہزار امریکی فوجی ہلاک، زخمی یا عمر بھر کے لیے اپاہج ہو چکے ہیں۔ دنیا کو ''محفوظ‘‘ بنانے کے نام پرکی جانے والی جارحیت نے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کو انتشار اور شدید عدم استحکام سے دوچار کردیا ہے۔ عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر ''اسلامک سٹیٹ‘‘ کا قبضہ ہے جبکہ زیادہ تر افغانستان بدستور طالبان کے تسلط میں ہے۔بارک اوباما کی طرح امریکہ کی عسکری قیادت بھی واضح طور پر اعتراف کر رہی ہے کہ یہ جنگ مزیدکئی سال جاری رہے گی اور نیم فوجی، غیر تربیت یافتہ گروہوں کے سامنے دنیا کی سب سے طاقتور فوج بے بس ہے۔ سابق انٹیلی جنس افسر جم گورلے کے مطابق ''اب یہ بات ناقابل تردید انداز میں واضح ہوگئی ہے کہ امریکی فوج اپنا ایک بھی اسٹریٹیجک مقصد پورا نہیں کرپائی ، جنگ ہماری فوجوں کی بدترین شکست پر منتج ہوئی ہے‘‘۔
افغانستان میں امریکی سامراج کی شکست عراق سے بھی زیادہ شرمناک ہے۔ یہ امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ بن چکی ہے اور دوسری عالمی جنگ سے چارگنا زیادہ عرصے سے امریکی فوجیں افغانستان میں مزاحمت سے برسر پیکار ہیں۔ 14سال بعد اوباما نے سامراجی سفارت کی روایتی لچھے دار زبان میں فرمایا کہ ''جنگ ذمہ دارانہ طریقے سے منطقی انجام کو پہنچ رہی ہے‘‘۔ یہ جملہ انتہائی بے معنی اور پست ہے۔ 
امریکی سیکرٹری دفاع چک ہیگل کے بقول:''امریکی تسلط نے افغانستان کو محفوظ، جمہوری اور خوشحال مستقبل حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔۔۔افغان ریاست کابل کا دفاع کر سکتی ہے۔۔۔‘‘ باقی افغانستان کا ذکرکرنا شاید موصوف بھول گئے ۔ چک ہیگل نے یہ بھی نہیں بتایا کہ سرکاری طور پر انخلا کے بعد بھی ''جمہوری اور خوشحال‘‘ افغانستان میں دس ہزار امریکی فوجی بدستور تعینات اور ڈرون حملے مسلسل جاری رہیں گے۔ ان جنگوں نے سامراج کے حتمی آلہ کارکی حیثیت سے امریکی فوج کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ امریکہ کے عسکری تجزیہ نگار ولیم گریڈرکے مطابق ''ناقابل تسخیر ہونے کے خبط نے ہمیں ایسے تنازعات میں الجھا کے رکھ دیا جن میں فتح ناممکن ہے‘‘۔
افغانستان میں کھلی شکست کی ہزیمت سے بچنے کے لیے امریکہ کو طالبان کے مختلف دھڑوں سے بھی مذاکرات کرنے پڑے تاکہ اس نازک مرحلے پر وسیع خانہ جنگی سے بچا جاسکے۔ بی بی سی کے مطابق افغان صدر اشرف غنی کو اپنی حکومت بچانے کے لیے طالبان کوکئی حکومتی عہدوں کی پیشکش کرنا پڑی۔ جن تین افرادکو صدر اشرف غنی حکومت میں شامل کرنا چاہتے تھے‘ ان میں پہلا ملا ضعیف ہے جو پاکستان میں طالبان کا سفیر رہ چکا ہے اورگزشتہ کچھ عرصے سے کابل میں نسبتاً کھلی زندگی گزار رہا ہے۔ دوسرا وکیل متوکل جو طالبان کا سابق وزیر خارجہ رہا اور تیسرا غیرت باہیر جوگلبدین حکمت یارکا قریبی رشتہ دار ہے۔ نیمروز ، قندھار اور ہلمند میں طالبان کے نامزدگورنر تعینات کرنے کے لیے بھی مذاکرات کیے گئے ۔ یاد رہے کہ ان تینوں صوبوں میں ہی امریکی اور برطانوی فوجوں کا سب سے زیادہ جانی نقصان ہوا۔ ''ہم دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں کرتے‘‘ کی بڑھک مارنے والے امریکی سامراج کی اس سے زیادہ تذلیل اورکیا ہوسکتی ہے؟ یہ مذاکرات بہر حال ناکام رہے اور طالبان نے حکومت کا حصہ بننے سے انکارکر دیا کیونکہ امریکہ کی کٹھ پتلی ''جمہوری‘‘ حکومت کا انجام انہیں اچھی طرح معلوم ہے۔ وہ مستقبل قریب میں پورے ملک پر اپنی حکومت قائم کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق ''اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ حکومت میں طالبان کی شمولیت سے مزاحمت ختم ہوسکتی ہے کیونکہ طالبان کے کئی کمانڈر ہر قسم کی مصالحت کے خلاف ہیں‘‘۔ یہ ہیں ''دہشت کے خلاف‘‘ جنگ کے حقیقی ثمرات جس کا ایندھن لاکھوں انسان اب تک بن چکے ہیں۔
امریکی سامراج پاکستانی ریاست پر'' ڈو مور‘‘ کے لیے زور دے رہا ہے جبکہ پاکستانی حکمرانوںکا سارا زور ''مزید امداد‘‘ پر ہے۔ شدید معاشی بحران اور خسارے سے دوچار امریکی ریاست اپنے حواریوںکی طرف مونگ پھلی کے دانے پھینکنے کے قابل بھی نہیں رہی ۔ پاکستان کے حکمران ایک طرف عوام کو آئی ایم ایف کے قرض تلے دفن کرتے جا رہے ہیں تو دوسری طرف چین اور ''برادر اسلامی ممالک‘‘ سمیت ہر سامراجی قوت کو اپنی ''خدمات‘‘ بیچنے یا کرائے پر دینے کے لیے بیتاب ہیں۔ ملک کی اسٹریٹیجک اہمیت، ریاستی ادارے، محنت کی منڈی، زرعی زمین سمیت سب کچھ برائے فروخت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ''حب الوطنی‘‘ اور ''ملکی سالمیت‘‘ کا درس بھی عوام کو دیا رہا ہے۔ 
یہاں کے مزدور، کسان اور نوجوان سامراجی ڈاکہ زنی اور مذہبی دہشت گردی کی بھٹی میں نسل در نسل سلگ رہے ہیں۔ حکمران طبقے کی معاشی دہشت شدت اختیارکرتی جارہی ہے۔ ریاستی جبر، ثقافتی گھٹن اور سماجی انتشار نے معاشرے کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ طبقاتی استحصال عروج پر ہے۔ محنت کش عوام فی الوقت خاموش ہیں لیکن جبر و استحصال کے سامنے ہمیشہ پسپا نہیں رہیں گے۔ سامراج کی وحشت اور بنیاد پرستی کی دہشت درحقیقت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ دونوں رجعتی قوتیں سرمایہ دارانہ نظام کی ناگزیر پیداوار ہیں۔ حکمران طبقے کے تمام دھڑے اس خونی کھیل میں برابر کے شریک ہیں جس میں عوام کا قتل عام بارود یا پھر بھوک اور غربت سے کیا جارہا ہے۔ محنت کش عوام کا اجتماعی شعور اس استحصال، جبر اور قتل و غارت گری کے طبقاتی کردارکا ادراک جلد یا بدیر حاصل کرلے گا۔ سماج میں یہ معیاری جست محنت کشوں کی طبقاتی جڑت اور انقلابی تحریک کو جنم دے گی۔ طبقاتی جنگ میں فتح ہی محنت کش طبقے کو اس نظام کی ذلت اور محرومی سے نجات دلا سکتی ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں