اس ملک کی بالادست سیاست بھی مقامی فلم انڈسٹری اور تھیٹر کی طرح ناکام اور خاصی لایعنی ہو چکی ہے، لیکن اس فلاپ سیاسی فلم میں بھی کچھ ایکشن سین ایسے آتے ہیں جو عوام کے لاشعور میں چھپے شبہات کو درست ثابت کر دیتے ہیں۔ سب سے پہلے اس کرپٹ نظام کے ناخدائوں کے بارے میں افواہیں گردش کرتی ہیں۔ پھر یہی افواہیں متحارب سیاسی جغادریوں کی بیان بازی کا حصہ بنتی ہیں۔ سرکاری ایجنسیوں اور میڈیا کی مہر ثبت ہو جانے کے بعد عوام کو احساس ہوتا ہے کہ ان کے خدشات درست تھے۔ انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ 'قحط الرجال‘ کے اس عہد میں نہ چاہتے ہوئے بھی انہوں نے حکمران طبقے کے جن دھڑوں سے امیدیں وابستہ کی تھیں‘ ان کی اصلیت وہی ہے جس کا اندیشہ تھا۔
حکمران طبقے کے سیاسی نمائندے یہ دنگل اس لیے بھی لگائے جا رہے ہیں کہ سلگتے ہوئے مسائل سے عوام کی توجہ ہٹا کر انہیں جعلی لڑائیوں میں مسلسل الجھائے رکھا جائے۔ یہ تصادم اس لحاظ سے حقیقی بھی ہیں کہ دولت کم پڑتی جا رہی ہے اور لوٹنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ مقامی حکمرانوں کی نسبت سامراجی اجارہ داریوں کی لوٹ مار کئی گنا زیادہ ہے اور 67 سال سے جاری ہے۔ گزشتہ کچھ دہائیوں کے دوران ریاست کے طاقتور دھڑے بھی معیشت کے میدان میں ''گلیڈی ایٹرز‘‘ کی طرح داخل ہو کر ''مناپلی‘‘ کا درجہ اختیار کر گئے ہیں۔ ہر بڑے ٹھیکے میں سامراجی اجارہ داریوں کے ساتھ بعض ریاستی اداروں کی ذیلی کمپنیاں شامل نظر آتی ہیں۔ مفلوج اقتدار پر براجمان سویلین حکمرانوں کے لیے بچے کھچے ٹکڑے ہی بچے ہیں۔ لوٹ مار کے ''کلاسیکی‘‘ طریقوں کی زوال پزیری کا ہی نتیجہ ہے کہ قبضہ گروپ اور بھتہ مافیا سیاست کے 'فنانسر‘ ہیں اور ہر بڑی سیاسی پارٹی ان دھندوں میں ملوث ہے۔ سیاست جس پیسے سے فنانس ہوتی ہے اس کا مالیاتی کردار ہی سیاست کے مزاج، ترجیحات اور مفادات کا تعین کرتا ہے۔
ماضی کی طرح حالیہ دنگل بھی اس لحاظ سے مضحکہ خیز ہے کہ عمران خان اور 'ان داتا‘ کے الزامات بڑی حد تک سچائی پر مبنی ہیں۔ عوام کو ان حقائق کا اندازہ تو پہلے ہی تھا، اب یقین ہو گیا ہے۔ انسانیت سے عاری سرمائے کے یہ پجاری بلدیہ ٹائون میں زندہ جلائے گئے محنت کشوں کے لیے مگر مچھ کے جتنے بھی آنسو بہاتے رہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہاتھیوں کی اس لڑائی میں محنت کش طبقے کو کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔ کراچی میں دہشت گردی اور خونریزی کا جو بازار گرم ہے‘ وہ بنیادی طور پر بھتہ مافیا کی گینگ وار کا شاخسانہ ہے۔ اس ملک کی معیشت میں کلیدی کردار رکھنے والا کراچی اس لیے برباد ہے کہ یہاں کی صنعت، تجارت اور سروسز کا شعبہ ملک کے دوسرے حصوں کی طرح صحت مند سرمایہ دارانہ بنیادوں پر چلنے سے قاصر ہے۔ تیسری دنیا کی سرمایہ داری وہ بنیادیں فراہم ہی نہیں کر سکتی جس پر جدید سماجی انفراسٹرکچرکھڑا ہو سکے۔
کراچی کی بربادی کا باقاعدہ آغاز ضیاء الحق کے دور آمریت میں ہوا تھا۔ اس وحشی آمریت کو پاکستان کے پیٹروگراڈ کا درجہ رکھنے والے صنعتی مزدوروں کے اس گڑھ سے خطرہ لاحق تھا کیونکہ محنت کش طبقہ تحریک میں ابھرتا ہے تو ریاستی جبر پاش پاش ہو جاتا ہے۔ ایوب خان کی مثال ضیاء الحق کے سامنے تھی؛ چنانچہ ممکنہ بغاوت کو قبل از وقت کچلنے کے لیے کراچی میں نسلی، مذہبی اور قومیتی تضادات کا زہر گھولا گیا اور ان تعصبات پر مبنی 'سیاست‘ کو پروان چڑھایا گیا۔ یہ کم و بیش افغان جہاد جیسا ہی عمل تھا جس میں افغانستان کے ثور انقلاب کو کچلنے کے لیے امریکی سامراج نے بعض ممالک کے ذریعے مذہبی انتہا پسندوں کو ریکروٹ کر کے دہشت گردی کا بازار گرم کیا تھا۔ افغانستان اور پختونخوا کے عوام سامراج کی بھڑکائی ہوئی اس آگ میں آج تک جل رہے ہیں۔ کراچی میں لسانی نفرت کی سیاست کو پروان چڑھا کر ریاست نے وقتی مفادات تو پورے کیے‘ لیکن ان آلہ کاروںکی فنانسنگ مسلسل جاری نہیں رکھی جا سکتی تھی۔ ڈالر بند ہونے کے بعد جنگجوئوں نے منشیات اور اغوا برائے تاوان کے دھندے کو وسعت دی تو کراچی میں ''ہاتھ ‘‘ اٹھ جانے کے بعد بھتہ مافیا اور قبضہ گروپ کا راج قائم ہونے لگا۔
سیاسی پارٹیوںکے ''عسکری دھڑے‘‘ کا چرچا تو بہت ہوتا ہے لیکن اصل مال بھتہ ونگ، قبضہ ونگ، اغوا ونگ اور ڈکیت ونگ سے آتا ہے۔ لوٹ مار کرنے والے یہ گروہ دہشت اور وحشت کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے۔ تشدد، بربریت اور خوف کے بغیر کالا دھن اکٹھا نہیں ہو سکتا۔ پارٹیوں کے ''نظریات‘‘ اور سیاسی شناخت کے ذریعے اس دھندے کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ اس تحفظ کے لیے اقتدار کی ضرورت پڑتی ہے‘ جس کے لیے ہر پارٹی نے ''انتخابی ونگ‘‘ بھی پال رکھے ہیں، جن کی دہشت جہاں زیادہ ہو گی وہاں ووٹ بھی ملیں گے اور سیٹ بھی۔ ادھر عوام کو ''جمہوریت‘‘ کے تقدس کا درس دیا جاتا ہے، جمہوری لوٹ مار کو ''وقت‘‘ دینے اور صبر کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔
میرے خیال میں ایم کیو ایم کا مسئلہ اب یہ ہے کہ یہ اقتدار کے بغیر یکجا نہیں رہ سکتی اور پیپلز پارٹی کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے بغیر کراچی اور شہری سندھ کا اقتدار زیادہ دیر چلا نہیں سکتی۔ مقصد انتہا پسند گروہوں کو ختم کرنا نہیں بلکہ بوقت ضرورت ان کا الحاق کروانا یا توڑنا ہے۔ کاروبار میں مقابلہ اگر نقصان دہ ہو تو شراکت ہو جاتی ہے اور شراکت میں جب حصہ داری کی لڑائی بڑھ جائے تو الحاق ٹوٹ جاتے ہیں۔ اپنے لڑکھڑاتے اقتدار کو سہارا دینے کے لئے نازک صورت حال سے دوچار پارٹی کے ساتھ رحمان ملک نے اسی لیے سمجھوتہ کروایا ہے۔ ایک شخص اس ملک کی معیشت اور سیاست کا چلتا پھرتا تشخص ہے۔ اس کی شکل اور عقل اس عہد کے کردار کی غماز ہے۔
عمران خان بھی اب ''پاور پالیٹکس‘‘ میں داخل ہو گئے ہیں۔ ''تبدیلی‘‘ کی 'ہوا‘ توقع سے بھی پہلے 'ہوا‘ ہو گئی ہے۔ کراچی کی سیاست میں وہ اہم حصہ دار بن کے ابھرے ہیں اور اب شاید اپنا حصہ بڑھانے کے چکر میں ہیں۔ گالی گلوچ کے اس شور شرابے میں میاں صاحب ہمیشہ کی طرح اپنی واردات کر گئے ہیں۔ پنکھوں سے لے کر کھانے کے تیل تک، بنیادی ضروریات زندگی پر 5 فیصد مزید ٹیکس لگا کر قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں۔ کیسے کیسے فنکار ہیں! لیکن یہ فنکاری بھی اب بے نقاب ہوتی جا رہی ہے۔ عوام سب جانتے ہیں، پہچانتے ہیں۔ محنت کش طبقہ اس غلیظ سیاست کے کینوس کو کب پھاڑتا ہے، بس یہی دیکھنا ہے۔ دیر شاید کم ہی رہ گئی ہے۔ یہ اندھیر زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکتا۔