"DLK" (space) message & send to 7575

پہنچی وہیں پہ خاک!

تحریک انصاف کا واپس اسمبلیوں میں آنا اتنا حیران کن نہیں ہونا چاہئے۔ نواز شریف کو ہٹانے کی مہم کی ناکامی کے بعد یہی کچھ ہونا تھا۔ طاہرالقادری کا ''انقلاب مارچ‘‘ اور عمران خان کا ''آزادی مارچ‘‘ ریاست کے شدید داخلی تضادات کی پیداوار تھے۔ جمود کے باوجود معاشی اور سماجی بحران کی شدت کی حکمران طبقے میں سرایت ناگزیر ہوتی ہے۔ اس کیس میں ان کی درپردہ لڑائیاں کھلی سیاسی محاذ آرائی میں بدل گئیں۔ادھر سے اُدھر بھٹکتے درمیانے طبقے کو بھی اپنا کیتھارسس ظاہر کرنے کا کچھ موقع ملا‘ اگرچہ اس میں کوئی مواد تھا نہ کوئی ٹھوس نظریہ یا پروگرام۔ حرکت تیز تر تھی لیکن قافلہ ایک قدم آگے بڑھنے سے عاری۔
اس نظام میں سطحی اور کاسمیٹک اصلاحات کے نعرے تھے جس میں ریڈیکل اصلاحات کی گنجائش بھی اب نہیں بچی۔ بنیادی معاشی، اقتصادی و سماجی تبدیلی کی کوئی سوچ تھی، نہ نیت اور حکمت عملی۔ تحریک کم اور تماشا زیادہ تھا۔ تھرل اور سنسنی پر مبنی ''بریکنگ نیوز‘‘ ہر دوسرے منٹ چلانے والے نیوز چینل بھی حکمرانوں کے اس کھلواڑ کی طرف عوام کی عدم توجہ اور بے نیازی کو نہیں توڑ پائے۔ ان دھرنوں میں محنت کشوں کی زندگی سہل ہونے کی کوئی امید تھی نہ اس جبر و استحصال کے نظام سے نجات کی کوئی راہ اجاگر ہوتی تھی۔
جوش بہت تھا لیکن جذبے سچائی سے محروم۔ارادے بڑے ظاہر کئے گئے، حقیقت بہت چھوٹی تھی۔آغاز بڑا دھواں دار بنایا گیا تھا لیکن انجام شرمناک ہوا۔ منزلیں بہت تھیں لیکن بے مقصد۔سہانے خواب بڑے دکھائے گئے، تعبیر جن کی بھیانک تھی۔انتظامات بہت خریدے گئے لیکن ڈسپلن نہ تھا۔ پیسے کے بل بوتے پر ہونے والے یہ ''لانگ مارچ‘‘ دھرنوں میں جکڑ کر مقید ہوگئے اور ''تحریک‘‘ طوالت کا معمولی سا تھپیڑا بھی برداشت نہ کر پائی۔ ملک کو بند کرنے
کے دعوے بہت کئے گئے لیکن محنت کشوں کے ہاتھ رکے نہ ملوں، ٹرینوں اور گاڑیوں کا پہیہ جام ہوا۔ اس ''انقلاب‘‘ میں کرپٹ اور کھوکھلے دشمن کو گرانے کی طاقت سرے سے نہیں تھی۔ بہادری اور دلیری کی باتیں بہت ہوئیں لیکن کسی کی شہ اور ''یقین دہانی‘‘ پر۔ لڑنے مرنے کے نعرے بھی لگتے رہے مگر مذاکرات بھی ساتھ ساتھ جاری رہے۔ ایک کے بعد دوسری ڈیڈ لائن‘ لیکن عمل کسی ایک پر بھی نہ ہوا۔ بھٹو بننے کا ناٹک بھی رچانے کی کوشش ہوئی لیکن بھٹو کا نظریہ کس کے پاس تھا؟ جو تحریکیں کسی طبقے کی نمائندگی یا نمائندگی کا دعویٰ تک نہ کرتی ہوں، ان کا کردار کیا ہوسکتا ہے؟ لبرل ازم اور ملائیت کا بھونڈا امتزاج تھا۔ حکمران طبقے کے خونخوار نمائندوں کے بیچ کھڑے ہو کر، ان کی زبان بول کر عوام کو بھلا کیسے دھوکہ دیا جاسکتا ہے؟ یہ لٹے پٹے لوگ اب اتنے بھی گئے گزرے نہیں ہیں۔
مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ انقلاب کے نام پر انقلاب کو سبوتاژ کرنے کا کام جن ''انقلابیوں‘‘ کو سونپا گیا وہ دھاندلی کی بیساکھی پر کھڑی کمزور ترین حکومت کو بھی نہ ہٹا سکے۔ یہ شور مچاتے رہے وہ اندر بیٹھ کر مسکراتے رہے۔ اتنے کائیاں تو اب وہ بھی ہوچکے کہ ریاست اور سیاست کا کھوکھلا پن جانچ سکیں۔ انہیں اگر اپنی کمزوری کا احساس تھا تو اپنے طبقے کے متحارب گروہوں کی کمزوری کا ادراک بھی تھا۔ نواز لیگ کا پرانا وتیرہ ہے کہ معاشرے میں بربادیوں کی انتہا ہی کیوں نہ ہو جائے وہ ''ترقی ‘‘کے شادیانے بجاتے رہتے ہیں اور ''جمہوریت‘‘ کی عظمت کے گن گاتے رہتے ہیں۔ اس جمہوریت سے بڑا کوئی اوزار حکمران طبقے کے پاس ہے؟ نہیں!
اس پارلیمنٹ کی جو ساکھ ہے اور عوام کی اس سیاسی اشرافیہ سے نفرت کا جو عالم ہے اس کے پیش نظر حکمران طبقے کے سارے دھڑے ڈر بھی رہے ہیں اور لڑ بھی رہے ہیں۔ لیکن اس لڑائی کو‘ عوام کی بغاوت کو‘ اپنی نورا کشتیوں میں الجھانے اور زائل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کو گالیاں نکال کر یہ عوام کے غصے کو ''سیفٹی والو‘‘ بھی فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔حکمرانوں کے آپسی گالی گلوچ میں بعض اوقات عوام کی بھڑاس نکل بھی جاتی ہے۔ یوں اس نظام کو درپیش خطرات وقتی طور پر ٹل جاتے ہیں۔ اس چکر میں اپنے ہی طبقے کے دوسرے دھڑوں کو برا بھلا کہنے اور بے نقاب کرنے والے عارضی مقبولیت بھی حاصل کر لیتے ہیں۔
انقلابات میں محنت کش طبقے اور نوجوانوں کا کردار ان کے معاشی اور سماجی کردار کی بنیاد پر متعین ہوتاہے۔ جو طبقہ اس نظام کا پہیہ گھماتا ہے صرف وہی طبقہ اسے جام کر سکتا ہے۔ محنت کش جب انقلابی تحریک میں ابھرتے ہیں تو بڑھک بازی کرتے ہیں نہ ''ڈیڈ لائن‘‘ دیتے ہیں۔ انقلابی ادوار میں حکومتیں نہیں ریاستیں منہدم ہوتی ہیں، چہرے نہیں نظام بدلتے ہیں۔انقلابی پارٹی کی شکل میں موضوعی عنصر اگر موجود ہو تو ملکیت کے رشتے ہی بدل جاتے ہیں، تاریخ کا رخ ہی بدل جاتا ہے۔
انقلاب تبھی برپا ہوتے ہیں جب فیکٹری کی مشین اور کمپیوٹر بند ہوتے ہیں، جہاز اڑتا ہے نہ ریل چلتی ہے،حکمرانوں کے ایوانوں کی بجلی کاٹ دی جاتی ہے‘ فون خاموش ہوجاتے ہیں اور بندوقوں کے رخ بھی مڑ جاتے ہیں۔ محنت کش طبقے اپنی معاشی اور سماجی قوت سے معاشرے کو روک بلکہ تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن اس تبدیلی کے لئے انقلابی نظریات، لائحہ عمل اور قیادت درکار ہوتی ہے جو ایک بالشویک پارٹی کے ذریعے ہی فراہم ہوسکتی ہے۔ انقلابی پارٹیاں دہائیوں کی محنت اور مستقل مزاجی سے رجعت اور وحشت کی آگ میں تپ تپ کر فولاد بنتی ہیں۔ صبر اور برداشت سے ذلت اور حقارت کے سمندر پار کرنے پڑتے ہیں۔ انقلابی مارکسزم کے نظریات پر عبور اور غیر متزلزل یقین درکار ہوتا ہے۔ یہ صلاحیتیں خداداد نہیں ہوتیں بلکہ انقلابی پارٹی اپنے عمل، تنظیمی ڈھانچوں، طریقہ کار اور نظریات کے ذریعے کیڈرز میں پیدا کرتی ہے۔ پرولتاریہ کی انقلابی سیاست کی فیکٹری میں ہی وہ جوہر تیار ہوتے ہیں کہ انقلاب جن کے دل و دماغ، رگ و پے میں سرایت کر چکا ہوتا ہے۔ بظاہر گوشت پوست کے یہی انسان اس تربیت اور نظریاتی عبور سے وہ کچھ کر گزرتے ہیں جو عام حالات میں سوچنا بھی محال ہوتا ہے۔
تحریک انصاف اور ''انقلاب‘‘؟ سرمائے کی طاقت کے بغیر اس کی سیاست ہی کیا ہے؟ اس گلے سڑے نظام میں کرپشن کے خاتمے کی بات کی جارہی ہے جو کرپشن کے سہارے پر ہی چل رہا ہے؟ کرپشن اس مفلوج سرمایہ داری کی زنگ آلود مشینری کا تیل ہے۔ صنعت سے لے کر زراعت اور سروسز تک، منافع کا حصول بھلا بدعنوانی کے بغیر کیسے ممکن ہے؟ کلرک یا تھانیدار کے گھر کا چولہا بھلا رشوت کے بغیر چل سکتا ہے؟ سرکاری اعداد و شمار میں درج معیشت سے کہیں بڑی معیشت تو جرائم، منشیات اور کرپشن کے کالے دھن پر مشتمل ہے جو اس ملک کا 73فیصد روزگار پیدا کرتی ہے۔ سرکار ی معیشت‘ کالی معیشت کے بغیر ایک دن نہیں چل سکتی۔ اسی مافیا سرمایہ داری کی بنیاد پر یہاں کی سیاست اور ریاست کا ہر ادارہ کھڑا ہے، یہی کالا دھن کئی دوسرے اداروں میں بھی چلتا ہے۔ امید ہے خان صاحب کو سمجھ آگئی ہو گی۔ ویسے اتنی سمجھ بوجھ تو انہیں پہلے بھی تھی‘ بس اوپر والوں نے ان کی ''ڈیوٹی‘‘ لگا دی تھی لیکن غلط وقت پر غلط کام کا ذمہ لے بیٹھے اور اب بھگت رہے ہیں۔ عوام اتنے بھی بھولے نہیں ہیں۔ وہ ان انقلابوں اور مارچوں میں آئے ہی نہیں؛ بلکہ حکمرانوں کے تماشے میں مڈل کلاس کا ناچ دیکھتے اور عبرت پکڑتے رہے۔ ان محنت کشوں نے بہت دھوکے کھائے ہیں ، ان کی سیاسی روایت اور روایتی قیادت نے ان کے جسم اور روح پر گھائو لگائے ہیں، انہوں نے بہت کچھ دیکھا اور سیکھا ہے۔ وہ اس نظام اور اس کے سیاسی مداریوں کی حقیقت خوب جانتے ہیں۔
حکمرانوں کا یہ سیاسی تماشا بری طرح ناکام و نامراد ہوا۔ عمران خان واپس اسمبلی آن پہنچے۔ مرزا جواں بخت کے بقول ع
ّّّّّّّّّّّّّٓٓٓپہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا!
یہ حکمران سیاست کی بربادی ہے۔ میاں صاحب سے لے کر خان صاحب اور زرداری صاحب سے لے کر مولانا صاحب کو اب محنت کش عوام کی تحریک کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب ان کی باری آئے گی۔ اس مرتبہ یہ تماشا کر سکیں گے نہ تماشائی بن سکیں گے۔ کیونکہ خود یہی لوگ‘ اس انقلابی تحریک کا ہدف ہوں گے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں