پسماندہ سماجوں میں ایڈوانس ٹیکنالوجی کی پیوند کاری اکثر اوقات سہولت سے زیادہ مصیبت کا باعث بنتی ہے۔کچھ دہائیاں پہلے تک یہاں کا انفراسٹرکچر پسماندہ ہونے کے باوجود عمومی ترقی کے معیاروں سے زیادہ متضاد نہ تھا۔ ترقی اور پسماندگی کا فرق اورناہمواری اتنی نہ تھی۔ آج غیر ہموار ترقی اپنی انتہائوں پر ہے۔ جدید موٹر ویز ہیں جن سے نیچے اتریں تو محسوس ہوتا ہے کسی اور ہی ملک آگئے ہیں۔ پہلی دنیا سے تیسری دنیا تک کا فاصلہ چند قدموں میں سمٹ گیا ہے۔ بڑی شاہراہوں کے نئے منصوبوں کے اعلان کیے جارہے ہیں تو ملک کے بیشتر حصوں (پنجاب سمیت) کی سڑکیں چاند کی سطح سے مشابہت رکھتی ہیں۔ اتنے کھڈے ہیں کہ ڈرائیور کو دائیں، بائیں، آگے اور نیچے بیک وقت دیکھنا پڑتا ہے۔ ذرا سے چُوک بڑی گڑ بڑ کر سکتی ہے۔ سونے پہ سہاگہ ہے کہ سڑکوں پر کھڈوں (ٹویوں) کے ساتھ سپیڈ بریکر بھی بڑھتے جارہے ہیں۔
یہاں سپیڈ بریکر بھی حکمرانوں کے لیے مال بنانے کا ذریعہ ہیں۔جگہ جگہ دھات اور پلاسٹک کے شیشوں سے بنی کیٹ آئیز (Cat Eyes) (ریفلیکٹر)نصب ہو رہی ہیں۔ یہ ساز و سامان بنانے یا درآمد کرنے والے سرمایہ داروں اور ٹھیکیداروں کی خوب چاندی ہورہی ہے۔ جہاں حکمرانوں کی ''جدت‘‘ اور ''ماڈرن ازم‘‘ کی خلش پوری ہورہی ہے وہاں عوام کا پیسہ سرمایہ داروں کی تجوریوں میں بھرنے کی نئی واردات بھی جاری ہے۔ یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ڈرائیونگ کو مبینہ طور پر ''محفوظ‘‘ بنانے کے لئے کیٹ آئیز نصب کرنے کا یہ رواج ٹائر بنانے والی ملٹی نیشنل اور مقامی اجارہ داریوں نے شروع کروایا ہے کیونکہ گڑھوں، کھڈوں اور غیر تکمیل شدہ سڑکوں کے بعد ٹائروں میں اگر کچھ جان بچتی تھی تو وہ ان کیٹ آئیز کی نذر ہورہی ہے۔ بوسیدہ میٹریل سے بنی نئی سڑکیں بھی ایک آدھ بارش میں ہی بہہ جاتی ہیں لیکن اب جس طرح جگہ جگہ کیٹ آئیز کو بلا مقصد نصب کیا جارہا ہے اس کے پیش نظر اندازہ لگانا مشکل ہو گیا ہے کہ گڑھے زیادہ ہیں یا کیٹ آئیز والے ''جدید‘‘سپیڈ بریکر۔ اور پھر ان کیٹ آئیز کا سائز اس قدر غیر مناسب اور ''غیر انسانی‘‘ ہے کہ کار یا موٹر سائیکل تو دور کی بات پیدل آدمی بھی جھٹکا کھائے بغیر نہیں گزر سکتا۔ جہاں ضرورت ہے وہاں بھی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے کہ کس جگہ پر، کس سائز کی کیٹ آئیز نصب ہونی چاہئیں۔
یہ صورتحال تیسری دنیا کی گلی سڑی سرمایہ داری کے تحت اس ملک کے سماجی و معاشی ارتقا کا عمومی کردار بھی واضح کرتی ہے۔لاہور کی جن ''کارپٹڈ روڈز‘‘ پر حکمران سفر کرتے ہیں انہیں پھر سے کارپٹڈ کیا جارہا ہے۔ لیکن شہر کے اکثریتی پسماندہ علاقوں میں گٹر ابل رہے ہیں، راہگیروں کا گزرنا تو محال ہے ہی لیکن بارشوں میں یہ پانی گھروں اور دکانوں میں بھی بھرجاتا ہے اور سیلاب کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔''تخت لاہور‘‘کے بیشتر علاقوں میں یہ صورتحال ہے تو باقی کے پنجاب اور پھر پورے ملک کی حالت زار کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔سڑکوں پر جگہ کم پڑتی جارہی ہے اور گاڑیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ اس ملک کے سب سے منافع بخش (قانونی) شعبے بینکنگ کے مالکان کے ہوشربا منافعوں کو اور بھی ہوشربا کرنے کے لئے ''آسان‘‘ اقساط پر کار لیزنگ کا جو کھلواڑ شروع کیا گیا تھا اس نے سماج کو اور بھی مسخ کر دیا ہے۔سستی، آرام دہ اور باکفایت پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام وضع کرنے کی بجائے شور، ٹریفک جام، آلودگی، انتشار، ڈپریشن اور بیگانگی میں پورے معاشرے کو غرق کیا جارہا ہے۔ لاہور کی شاہراہوں پر لاکھوں کروڑوں روپے کے ''دیہی روڈ پراجیکٹ‘‘ کے اشتہار لگانے سے سڑکوں کا یہ جال بچھنے والا نہیں۔ مفلوج معیشت اور بدعنوان ریاست میں اتنی سکت ہی نہیں ہے۔
'آزاد کشمیر ‘ کی آزادی کے67سال بعد راولپنڈی سے راولاکوٹ جانے والی سڑک آج بھی ''زیر تعمیر‘‘ ہے۔ یہاں سیاسی پارٹیوں کے نام کچھ بھی ہوں، ہر پارٹی ٹھیکیداروں کی پارٹی ہے۔ اب پتا نہیں یہ کیسی آزادی ہے جس میں اس خطے کے ساتھ کیا جانے والا سلوک سوتیلو ں والا ہے۔ پھر بلوچستان میں ''ترقی‘‘ کا شور ہے۔ کیسی ''ترقی پسند‘‘ حکومت اور کیسی ترقی ہے کہ عوام پناہ مانگتے پھر رہے ہیں۔ایک طرف گوادر سنکیانگ سلک روڈ جیسے نئے منصوبوں کے شوشے چھوڑے جارہے ہیں تو دوسری طرف بلوچستان کے عوام کی اکثریت کو پتھر کے زمانے دھکیل دیا گیا ہے۔ علاج، تعلیم، روزگار نا پید ہیں۔ اس بیگانگی سے جنم لینے والی مزاحمت اور نفرت کو ''بیرونی ہاتھ‘‘قرار دینے سے للکار مٹ تو نہیں جائے گی۔ معدنیات سے مالا مال خطہ پورے ملک میں سب سے زیادہ پسماندہ ہے۔اس ظلم و ناانصافی کے ذمہ دار ہر قومیت کے وہ بالادست طبقات ہیں جن کے مالی اور سیاسی مفادات اس طبقاتی اور علاقائی ناہمواری کو جنم دینے والے نظام سے وابستہ ہیں۔یہاں ایٹمی دھماکے تو ہوسکتے ہیں لیکن عوام کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں۔ سامراج خیراتی نہیں ہیں بلکہ 20ڈالر نکالنے کے لئے ہر ایک ڈالر انویسٹ کرتے ہیں۔ لوٹ مار کے ان سامراجی منصوبوں سے بلوچستان کی پسماندگی تو ختم ہونے سے رہی لیکن سامراجی اور علاقائی قوتوں کی چپقلش مزید بڑھے گی، پراکسی جنگیں شدت اختیار کریں گی اور مزید کشت و خون ہوگا۔
سندھ میں بھی محرومی اور پسماندگی کی کمی نہیں ہے۔ سندھی محنت کش عوام کو کبھی ان کی صوفی ثقافت کی عظمت سے سہلایا جاتا ہے تو کبھی لسانی تعصب اور قومیتی منافرت کو ہوا دے کر حقیقی مسائل اور ان کی وجوہ کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سندھ میں آخری پناہ گاہ تلاش کرنے والی پیپلز پارٹی کی قیادت گراوٹ اور عوام دشمنی کا ہر ریکارڈ توڑنے کی سرتوڑ کوشش میں اب ہسپتالوں اور سکولوں کی نجکاری پر اتر آئی ہے۔ نئے پختونخوا میں صرف حکومت ہی نئی ہے، عوام کی ذلت پرانی ہی ہے۔ یہ ایسی ''تبدیلی‘‘ ہے جس میں نظام تو دورکی بار چہرے بھی نہیں بدل پائے۔
پاکستان کے شہروں میں جتنے پلازے، اوور ہیڈ برج اور انڈر پاس بن رہے ہیں، ٹریفک کا انتشار اتنا ہی بڑھ رہا ہے۔ لیکن صرف ٹرانسپورٹ ہی تو خستہ حال نہیں ہے۔اکثریتی آبادی کی پہنچ سے تو ہر بنیادی ضرورت دور ہوتی جارہی ہے۔ انفراسٹرکچر ٹوٹ کر بکھر رہا ہے۔ شہری آبادیاں کچرے کے ڈھیروں میں بدل گئی ہیں۔ شہر پھیلتے جارہے ہیں، نفسا نفسی وحشت انگیز ہو رہی ہے۔زیادہ پرانی بات نہیں ہے لوگ گھروں کو صاف کرنے کے ساتھ گلی میں بھی جھاڑو لگا دیا کرتے تھے ، اپنے آنگن کی طرح محلے کو بھی صاف ستھرا رکھتے تھے۔آج آنگن بھی پورا صاف نہیں ہوتا اور کوڑا گلی میں پھینک دیا جاتا ہے۔یہ ثقافتی گراوٹ درحقیقت سماجی بیگانگی اور معاشی بحران کی پیداوار ہے جس نے انسان سے حس لطافت اور تہذیب ہی چھین لی ہے۔
دیہات کبھی فطرت سے قربت کی علامت ہوا کرتے تھے، آج یہ حسن بھی مسخ ہو گیا ہے۔ زرعی زمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں۔ جتنی ہائوسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں، رہائش اتنی ہی مہنگی ہورہی ہے۔ شہروں کی طرح دیہاتوں میں بھی زر نے رشتوں میں زہر گھول دیا ہے۔ ہر گھرانہ جائداد کے مقدمے میں جکڑا ہوا ہے اور پہلے سے بدحال خاندان جمع پونچی کچہریوں میں لٹا رہے ہیں۔ کچے گھروں کی جگہ کنکریٹ کی بدنما کوٹھیوں نے لے لی ہے لیکن مروت، احساس اور انسانیت دم توڑ گئی ہے۔
یہ کیسا ارتقا ہے؟ کیسی ترقی ہے؟ کیسا نظام ہے؟ جس کی ''جدت‘‘ نے پسماندگی کی بچی کھچی خوشیاں بھی چھین لی ہیں۔ جبر و استحصال تب بھی تھا لیکن اس کے خلاف لڑائی بے لوث اور جدوجہد میں ساتھ چلنے والے مخلص تھے۔ اب ذلت ہے یا ''جمہوریت‘‘۔ جمہور سے متضاد سرمائے کی اس ''جمہوریت‘‘ میں لڑائیاں بھی حکمران طبقے کی ہیں اور ''مصالحت‘‘ کے نام پر ہونے والی دوستیاں بھی انہی کی۔ لوٹ مار کے اس سیاسی ڈھونگ کو عوام پر مسلط کرنے کا کام ''آزاد‘‘ میڈیا کا ہے۔ ریاستی آقائوں کا ہر قدم اور ہر بیان دھوکہ، فریب اور فراڈ ہے۔اپنے بحران کی شدت میں اس نظام نے ہوس بڑھا دی ہے، رشتوں سے سچائی چھین لی ہے، ہر جذبے کو مجروح کر دیا ہے۔ دولت کی اندھی دوڑ ہے جس میں انسان کہیں گم ہوگیا ہے۔ اس کی تلاش کے لئے ایک انقلاب درکار ہے!