"DLK" (space) message & send to 7575

دوستی یا کاروبار؟

بہت شور و غل تھا۔ کارپوریٹ میڈیا کا ہر ٹیلی وژن چینل اور اخبار''ہمالیہ سے اونچی اور سمندر سے گہری پاک چین دوستی‘‘ کے گن گاتا نظر آیا۔ لمبا انتظارکروانے کے بعد چینی سربراہ مملکت نے آخر پاکستان کو اپنے دورے کا شرف بخش ہی دیا۔ کئی برسوں میں کسی چینی صدر کا یہ پہلا دورہ تھا۔ شی چن پنگ کے لیے سرخ قالین بچھائے گئے۔ صدر، وزیراعظم، وفاقی وزرا، ملٹری قیادت‘ سب چکلالہ ایئربیس پر موصوف کے استقبال کے لیے بنفس نفیس موجود تھے۔ اس سے قبل پاکستان کی حدودمیں داخل ہوتے ہی ایئرفورس کے JF-17 تھنڈر طیاروں نے چینی صدر کے بوئنگ 737کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ شی چن پنگ اکیس توپوں کی گھن گرج میں اپنے جہاز سے اترے جس کے بعد گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور ایئر فورس کے طیارے سلامی دیتے ہوئے محو پرواز رہے۔
بھارت کے قومی دن (26جنوری) کی تقریب میں جب بارک اوباما نے شرکت کی تو پاکستانی حکمرانوں میں بھی تڑپ جاگ اٹھی تھی کہ چینی صدر 23 مارچ کی تقریب میں ''جوابی شرکت‘‘کریں‘ لیکن یہ خواہش پوری نہ ہو پائی اور اس صورتحال نے انہیں خاصا مایوس کیا۔
یہ پہلا موقع تھا کہ چین کی کسی بڑی ریاستی شخصیت نے پاکستان کی پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔ مسٹر شی چن پنگ نے پاک چین تعلقات کی تاریخ بڑے گرمجوش انداز میں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس دوستی کو ''پاکستانی بھائی ہمالیہ سے بلند، سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی قرار دیتے ہیں جبکہ چین کے عوام پاکستان کے عوام کو اچھے دوست، اچھے پارٹنر اور اچھے بھائی سمجھتے ہیں... دونوں ممالک کو علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر سٹریٹیجک ہم آہنگی برقرار رکھنی چاہیے۔ چین ، افغانستان میں پاکستان کے تعمیری کردار کو سراہتا ہے‘‘۔
وزیراعظم نوازشریف نے مگر اصل صورتحال واضح کردی اور بے صبری میں سب کچھ کہہ گئے۔ خیر مقدمی تقریر میں موصوف نے فرمایا کہ ''یہ ایک ایسی شراکت داری تخلیق کرنے کے لیے ہمارے عزم کی علامت ہے جس میں ہر فریق کی جیت ہو، سب کا فائدہ ہو اور کسی کا نقصان نہ ہو‘‘۔ میاں صاحب درحقیقت ''سب دا بھلا، سب دی خیر‘‘ کی آواز لگا رہے تھے۔ لگتا تھا سیاست کے لبادے میں چھپاکاروبار لپک لپک کر باہر آ رہا ہے۔ پاکستان کی ہر بڑی سیاسی جماعت کے رہنما اپنی'توتو میں میں‘ پس پشت ڈال کر 'یکجا‘ نظر آئے۔ یہاں کی سیاسی اشرافیہ کی شعوری سطح کے پیش نظر ان میں بیشتر شاید واقعی ''چینی معجزے‘‘ سے زوال پذیر پاکستانی سرمایہ داری کو بحال کرنے کے خواب دیکھ رہے ہوں گے۔ ہر کوئی چین کے نودولتی مگر کھرب پتی سرمایہ دار طبقے کے نمائندے کی راہ میں بچھ بچھ جانے کو بے تاب تھا۔
اس دورے کے ہر اعلامیہ، اعلان اور تقریر سے تاثر ابھر رہا ہے کہ معاملات دو ممالک کے عوام نہیں بلکہ اشرافیہ کے درمیان طے ہو رہے ہیں۔ مجوزہ 'میگا پروجیکٹس‘ میں چینی کمپنیوں، نجی ٹھیکیداروں، ذیلی ٹھیکیداروں اورکمیشن ایجنٹوں کے لیے مال ہی مال ہے‘ لیکن معاملات اتنے سیدھے اور آسان بھی نہیں ہیں۔ یہ خیال کج فہمی نہیں تو خوش فہمی ضرور ہے کہ ان ''باہم اتفاق کی یادداشتوں‘‘ (MOUs)کے ذریعے پاکستان کی مفلوج معیشت اپنے پیروںپر کھڑی ہو جائے گی۔
چین کا حکمران طبقہ کسی ''ہمالیہ سے بلند دوستی‘‘ کے چکر میں خیرات نہیں بلکہ خطے میں اپنے دور رس سٹریٹیجک مفادات اور بلند شرح منافع کے لیے سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ان کا سب سے اہم ہدف جغرافیائی اور کاروباری لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل گوادر پورٹ پر اپنی گرفت مضبوط کرنا ہے جس کے ذریعے خلیج اومان اور بحیرہ عرب پر چین کا اثر و رسوخ بڑھایا جائے گا۔ یہ معاشی راہداری ان کے لیے نئے کاروباری مواقع پیدا کرے گی۔ چین کے نسبتاً کم ترقی یافتہ مغربی علاقوں کا سمندر سے فاصلہ کم ہوجائے گا، گوادر کے ذریعے تجارت سے چین کی درآمدات اور برآمدات کو کم و بیش 10ہزار میل کم فاصلہ طے کرنا پڑے گا اور ایک مہینے کا سفری وقت بچے گا۔ خطے میں چین کی عسکری دھاک میں بھی اضافہ ہوگا،گوادر اور کراچی کی بندرگاہوں پر چینی بحری بیڑہ براجمان کرنے کے امکانات بڑھیںگے۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے قدرتی وسائل اور منڈی تک چینی کمپنیوں کی رسائی آسان ہوجائے گی۔
پاکستان کو اسلحے کا سب سے بڑا برآمد کنندہ چین ہے۔ افغانستان میں چین کی سرمایہ کاری کسی دوسری سامراجی طاقت سے زیادہ ہے۔ افغانستان سے امریکی فوجوںکے انخلا کے ساتھ چین کا اثرورسوخ خطے پر اور بھی بڑھ رہا ہے۔ افغانستان میں اس کی سرگرمی فی الوقت کاپر اور لوہے وغیرہ کے ذخائر تک رسائی کے لیے ہے۔ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک مسلسل شکوہ کرتے رہے ہیں کہ سکیورٹی کے اخراجات وہ اٹھا رہے ہیں جبکہ منافع چینی کمپنیاں کما رہی ہیں۔ اب جبکہ نیٹو افغانستان سے جانے کی تیاریوں میں ہے تو چین اپنا کنٹرول بڑھانے کے لیے سرگرداں ہے۔ مزید برآں افغانستان میں استحکام چین کے زنجیانگ (سنکیانگ) صوبے میں جاری انتشار پر قابو پانے کے لیے بھی ضروری ہے۔ اپنے ان مقاصدکے لیے پاکستان کی عسکری مشینری کو خریدنے یا کرائے پر لینے میں بھی چین دلچسپی رکھتا ہے۔ بھارت پر دبائو برقرار رکھنے کے لیے بھی چین کے لیے پاکستان کی ''دوستی‘‘ بہت اہم ہے۔ امریکی صدر کا حالیہ دورہ بھارت اشارہ دیتا ہے کہ امریکہ بھی چین کے خلاف ایسا ہی کھیل کھیل رہا ہے۔ بھارت کو خطے میں چین کا حریف بنا کر ابھارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اپنے سامراجی عزائم کی وجہ سے دونوں ممالک کا ٹکرائو موجود ہے لیکن سفارتکاری کے ذریعے ''اچھے تعلقات‘‘ کی خواہش کا ناٹک بھی جاری رہتا ہے اور اگلے مہینے چین، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی میزبانی کرے گا۔ اپنی معاشی قوت اور سفارت کاری کے ذریعے چین خطے پر اپنی 'نرم گرفت‘ بڑھا رہا ہے۔ چین کے پھیلتے اثر و رسوخ کی اہم وجہ، جس کا تذکرہ کم ہی ہوتا ہے، وہاںکا سیاسی استحکام اور ایک پارٹی کی حکومت بھی ہے‘ لیکن چینی معیشت کی اپنی حالت کو دیکھا جائے تو 45 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا تناظر ڈانواں ڈول ہی لگتا ہے۔ اتنی دیوہیکل سٹریٹیجک پالیسیوں اور سرمایہ کاری کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت چینی معیشت تیزی سے کھو رہی ہے۔
2008ء کے بعد سے چین کا حکمران طبقہ تیزی سے گرتی ہوئی معاشی شرح نموکو بحال کرنے کی سرتوڑکوشش کررہا ہے۔ 2014ء میں چین کی شرح نمو 25 سالوں کی کم ترین سطح پر آگری تھی۔ آئی ایم ایف کے مطابق 2015ء میں یہ شرح نمو مزید گراوٹ کے ساتھ 7.1 فیصد سے 6.8 فیصد پر آ جائے گی۔ فنانشل ٹائمزکے مطابق ''چین کے 31 میں سے 30 صوبے 2014ء میں معاشی شرح نموکا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ صرف تبت میں یہ ہدف حاصل کیا گیا جو چین کی سب سے چھوٹی معاشی اکائی ہے۔
2008ء میں عالمی مالیاتی کریش کے بعد چین کی سالانہ معاشی شرح نمو 14.2فیصد سے 9.6فیصد پر آن گری تھی۔ یورپ اور امریکہ میں منڈی کے سکڑائو کا ازالہ کرنے کے لیے چینی حکومت نے 586 ارب ڈالرکے ''سٹیملس پیکج‘‘ کا آغاز کیا جس کے تحت انفرا سٹرکچر کے بڑے منصوبوں کا آغازکیا گیا تاکہ صنعتی کھپت کو برقرار رکھا جاسکے۔ معیشت میں پہلے سے موجود زائد پیداوار، صلاحیت میں مزید اضافے اور سٹہ بازی کے بلبلے بننے کے باوجود چینی ریاست نے یہ عمل جاری رکھا جس سے شرح نموکسی حد تک بحال ہوئی لیکن وقتی طور پر۔ پاکستان میں کی جانے والی سرمایہ کاری درحقیقت گرتی ہوئی معیشت کو' کینشین اسٹ‘ طریقہ کار سے سہارے دینے کی ہی کڑی ہے‘ لیکن بحران کو جتنا ٹالا جائے گا یہ اتنی ہی شدت سے ابھرے گا۔ یہی جدلیات کا قانون اور سرمایہ دارانہ معیشت کا تاریخ ہے۔ منڈی کی کوئی معیشت سرمایہ داری کے قوانین سے فرار اختیار نہیں کر سکتی۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں