حلقہ این اے 246کے ضمنی انتخاب کا بڑا شور تھا۔ میڈیا پر اسے کسی معرکے کے طور پر پیش کیا جارہا تھا‘ جو پاکستان نہیں لیکن کم از کم کراچی کے عوام کی تقدیر تو بدل ہی دے گا‘ لیکن ''آزادی‘‘ اور ''انقلاب‘‘ مارچوں کی طرح یہ سیاسی ڈرامہ بھی خاصا پھیکا ثابت ہوا۔ اس الیکشن میں تحریک انصاف جیتی ہے نہ ایم کیو ایم ہاری ہے۔ عوام کے سامنے کوئی متبادل منشور تھا‘ نہ ہی یہ کوئی ملک گیر انتخابات تھے کہ لوگ بادل نخواستہ ہی سہی کسی بہتری کی امید باندھ لیتے۔ اگر مروجہ نظام،'سٹیٹس کو‘ اور ایک سیاسی مافیا کی جگہ دوسرے نئے ابھرتے ہوئے سیاسی مافیا کو ہی ووٹ دینا ہے تو کیوں نہ انہیں ووٹ دیا جائے جنہیں تین دہائیوں سے جانتے ہیں اور برداشت کرنے کی عادت پڑ گئی ہے! بہتری کی امید کسی کو نہ تھی لیکن تھانہ کچہری کی فریاد، روزگار کے لئے منت سماجت، گلی محلے کے چھوٹے موٹے مسائل کے حل کے لئے انہی کو ووٹ ملا‘ جن کا غلبہ تھا۔ پہلے کے عذاب بڑھ ہی نہ جائیں لہٰذا مروجہ سیاسی جبر کو ہی خوش کرنے کی کوشش کی گئی۔ کم از کم ان کے عادات و اطوار، طریقہ کار اور رویوں سے تو واقفیت تھی۔ ان سیاسی حکمرانوں سے گذارشات کرنے کا فن تو گئی نسلوں کے تجربات نے سکھا ہی دیا ہے۔ عام حالات میں مظلوم طبقات کی سوچ کا محور یہی ہوتا ہے کہ کس طرح حاکموں کے استبداد سے ممکنہ حد تک بچا بھی جائے اور زندگی گزارنے کی تھوڑی بہت رعایت بھی لے لی جائے۔
1970ء سے اس ملک میں الیکشن ہوتے آئے ہیں۔ سوائے اس پہلے الیکشن کے بعد ہونے والی ریڈیکل اصلاحات کے، کسی بھی انتخابات سے کچھ نہیں بدلا۔ پیپلز پارٹی جیسی روایتی پارٹیوں نے بار بار جو کھلواڑ عوام سے کیا، ان کی تحریکوں اور امنگوں کو جس طرح سر بازار نیلام کیا گیا، اس کے نتیجے میں نہ صرف بددلی، یاس اور پراگندگی پھیلی بلکہ محنت کشوں کا اپنی طاقت سے ہی اعتماد ایک عرصے کے لئے اٹھ گیا۔ اس مایوسی اور نامرادی نے سماجی جمود کی کیفیت کو جنم دیا‘ جس کی عکاسی سیاست سے بیگانگی اور بیزاری میں ہوتی ہے۔ اس نظام میں معاشی آسودگی اور اصلاحات کی امید تو مٹ چکی ہے‘ لیکن بقا کی لڑائی بہرحال جاری ہے۔ فی الحال یہ لڑائی دفاعی نوعیت کی ہے اور ایسی صورتحال میں استحصال سہنے والے ، استحصال کرنے والوں سے سیاسی و سماجی طور پر مغلوب رہتے ہیں۔ حکمران طبقات کے خلاف نفرت اگرچہ دل کی گہرائیوں میں سلگتی رہتی ہے لیکن ''گزارہ کرنے‘‘ اور وقت گزارنے کی نفسیات جبر کی اطاعت کرواتی ہے۔
غلام داری اور جاگیر داری پر مبنی معاشروں میں ایسے حالات سینکڑوں سال چلتے تھے لیکن پھر بغاوتیں بھی ہوتی تھیں۔ وہ کچلی بھی جاتی تھیں لیکن طویل ادوار کے بعد ہی سہی، دوبارہ سے پھوٹتی ضرور تھیں۔ آخر کار غلام داری کا خاتمہ سلطنت روم کے انہدام سے شروع ہوا لیکن اس کا مکمل خاتمہ آج تک نہیں ہوسکا۔ اسی طرح جاگیر دارانہ نظام کے خلاف مزارعوں اور کچلے ہوئے طبقات کی جدوجہد کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔یورپ میں سرمایہ دارانہ انقلابات نے جاگیر داری کا خاتمہ کیا۔ سب سے اہم بورژوا انقلاب 1789ء کا انقلاب فرانس تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام بہت کم عرصے تک ہی کوئی ترقی پسندانہ کردار ادا کر سکا۔ اس نظام کے تحت دنیا کے ایک چوتھائی سے کم حصے میں جدید صنعتی قومی ریاستیں تعمیر ہوسکیں۔خصوصاً سامراجیت کے ابھار کے بعد سے سرمایہ داری کا کردار یکسر رجعتی ہوگیا۔ آج بھی دنیا کے وسیع و عریض خطوں پر جاگیرداری کی باقیات موجود ہیں۔ اگرچہ مکمل اور کلاسیکی شکل کی جاگیرداری نہیں ہے۔
پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔ یہاں کے حکمران جاگیرداری کا مکمل خاتمہ کر سکے ہیں نہ ہی سامراجی محکومی کی زنجیریں توڑ کر خودمختار اور ترقی یافتہ قومی ریاست تعمیر کر سکے ہیں۔ تاریخ میں تاخیر سے قدم رکھنے والا یہاں کا سرمایہ دار طبقہ معاشی، تکنیکی اور ثقافتی طور پر کمزور اور پسماندہ تھا۔ انہو ں نے جاگیرداری کا خاتمہ کرنے کی بجائے اس کی باقیات سے الحاق کر لیا۔ سامراج سے لڑ کر آزادی حاصل کرنے کی بجائے اس کی گماشتگی شروع کر دی۔ اس لولی لنگڑی سرمایہ داری پر سامراج کی معاشی یلغار نے معاشرے کو ترقی دینے کی بجائے اسے مسخ کر دیا ہے۔ یہاں کی سرمایہ داری کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنے قوانین اور اصولوں کے تحت بھی چلنے سے قاصر ہے۔ اس کی شرح منافع برقرار رکھنے کے لئے بدعنوانی لازم ہے۔ کالے دھن پر چلنے والی معیشت کی سیاست اور ریاست بھی کالی ہی ہوسکتی ہے۔ جرائم پیشہ مافیا گروہ اس سیاست کا لازمی جزو ہیں جنہوں نے عوام کی زندگی کو عذابِ مسلسل بنا دیا ہے۔
18ویں صدی کے اواخر میں، مغلیہ سلطنت کے حتمی زوال کے عہد میں دہلی کی خونریزیوں سے جان بچا کر میر تقی میر جب لکھنو پہنچے تو ان کے پھٹے پرانے کپڑے، گھائل جسم اور خستہ حالی‘ بربادی کی داستان سنا رہے تھے۔ کوئی انہیں شاعر ماننے کو تیار نہ تھا اور لکھنو کے لونڈے ان کا مذاق اڑا رہے تھے۔ ان کو رسوا کرنے کی شرارت کے تحت کسی مشاعرے میں بٹھا کر شمع محفل سب سے پہلے ان کے سامنے رکھ دی گئی۔ میر نے چند لمحوں کی گہری خاموشی کے بعد ارشاد کیا:
کیا بودو باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دہلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
میر کے یہ اشعار آج کے کراچی پر بھی صادق آتے ہیں۔ کراچی صرف پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہی نہیں بلکہ اس ملک کے صنعتی مزدوروں کا گڑھ بھی ہے جس کے باسی خوف در خوف کی فضا میں گھٹ کے رہ گئے ہیں۔ یہ حالات اس گلی سڑی سرمایہ داری کا ناگزیر نتیجہ ہیں جس کی سیاست ، وحشت اور بربریت کے بغیر نہیں چل سکتی۔ اس نظام سے جنم لینے والی سیاسی پارٹیوں کے صرف نام اور پرچم ہی مختلف ہیں۔ مذہبی بنیاد پرستی سے لے کر لسانی، قومیتی ، فرقہ وارانہ اور نام نہاد ''سیکولر‘‘ سیاسی رجحانات تک، سب اسی نظام کے رکھوالے ہیں۔ ان تعصبات کے ذریعے محنت کش عوام کو تقسیم در تقسیم کیا جاتا ہے اور پھر انہی کا خون بہایا جاتا ہے۔ اس مافیا سیاست کے لئے درکار مالیاتی وسائل کا ماخذ جرائم کی معیشت کا کالا دھن ہے۔ ایسے میں یہ امید کرنا کہ اس نظام کے الیکشن اس نظام کی ذلتوں سے نجات دلا سکتے ہیں، سراسر خوش فہمی ہے۔ سرمایہ دارانہ سیاست کے افق پر صرف سرمائے کی سیاسی پارٹیاں ہی حاوی ہو سکتی ہیں۔ ان کی آپسی لڑائیاں بھی اس سرمائے کے لئے ہیں‘ جس میں محنت کشوں کو الجھانے کا کام کارپوریٹ میڈیا اور وظیفہ خوار دانشوروں سے لیا جاتا ہے۔ دوسری طرف دہائیوں سے زخم سہتے سہتے کراچی کے محنت کش بھی فولاد ہو چکے ہیں۔ سطح کے نیچے لاوا پک رہا ہے جو انقلاب بن کر پھٹے گا تو اس نظام زر کے ساتھ اس کے ہر سیاسی نشان کو بھی جلا ڈالے گا۔