خوشحالی کی جتنی بیان بازی ہے، ذلت اتنی ہی شدت اختیار کر رہی ہے۔ ''روشن پاکستان‘‘ کے نام پر اندھیر مچایا جارہا ہے۔ ''فروغ تعلیم‘‘ کے نئے منصوبے پیش ہو رہے ہیں اور شرح خواندگی دو فیصد مزید کم ہو کر 58فیصدپر آگئی ہے۔ صحت کے جتنے پروگرام ہیں، علاج اتنا ہی مہنگا ہوتا چلا جارہا ہے۔غریب آدمی کے لئے بیمار ہونا ہی جرم بنا دیا گیا ہے، صرف میڈیکل ٹیسٹ ہی خاندان کو دیوالیہ کر کے سڑک پر لے آتے ہیں۔ نجی شعبے کے منافعوں کے لئے عوامی سہولیات برباد کی جارہی ہیں۔ سرمائے کی چوکھٹ پر انسانیت کی بَلی چڑھانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ علاج اور تعلیم کے لئے جی ڈی پی کا 4فیصد مختص کیا جاتا ہے لیکن اس کا بھی قلیل سا حصہ ہی خرچ ہوتا ہے۔ اتنے بجٹ میں اساتذہ، ڈاکٹروں اور نرسز کی تنخواہیں بھی پوری نہیں ہو سکتی۔
ریاست جس نظام پر کھڑی ہے وہ اتنا گل سڑ چکا ہے کہ وسائل کو برباد تو کر سکتا ہے، بروئے کار نہیں لا سکتا۔ایک طرف ہوس تو دوسری طرف محرومی نے بدعنوانی کو طرز زندگی کا حصہ بنا ڈالا ہے۔ سرمایہ دار بھلا دیوانے ہیں کہ مجبوری سے منافع نہ کمائیں؟آئی ایم ایف جیسی اجارہ داریاں نئی سرمایہ کاری ٹیکنالوجی یا مشروبات میں نہیں بلکہ سکولوں اور ہسپتالوں میں کر رہی ہیں۔ دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ ریاستیں سماجی خدمات کے یہ بنیادی شعبے نجی شعبے کی بھینٹ چڑھا رہی ہیں۔ ہمارے حکمران بھلا کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں؟ خبر ہے کہ پنجاب میں ویران پڑے ''بنیادی مراکز صحت‘‘ کی نجکاری کا جارحانہ منصوبہ شروع کیا جارہا ہے۔ اس کاروباری عمل سے یہ مراکز آباد تو شاید ہوجائیں لیکن عوام کے لئے ان کے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ نوٹوں سے بھری جیب کے بغیر علاج تو دور کی بات ، کوئی اندر بھی داخل نہ ہوپائے گا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی ''عوامی حکومت‘‘ عوام دشمنی کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑنے کا پختہ ارادہ کئے ہوئے ہے۔ یہاں سکولوں اور ہسپتالوں کی نجکاری کا عمل پنجاب سے بھی پہلے شروع ہے۔ پختونخوا میں ''انقلاب‘‘ آکر گزر گیا ہے، عوام وہیں کھڑے ہیں۔ بلوچستان میں ''ترقی پسند‘‘ حکومت چھت سے عاری سکولوں میں ''شفاف امتحانات‘‘ کے لئے کلوز سرکٹ کیمرے لگا رہی ہے!
آئی ایم ایف سے 6.6ارب ڈالر قرضے کی اگلی قسط کے لئے ہونے والے مذاکرات میں سامراجی آقائوں نے اسحاق ڈار کو خوب شاباش دی ہے۔ مذاکرات میں طے پانے والی ''پوشیدہ شرائط‘‘ پر اب سرعام عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔ گیس پر 145ارب روپے کا ٹیکس لگایا گیا ہے اور بجلی کی سبسڈی میں 250ارب روپے مزید کٹوتی کی جارہی ہے۔ عوام بھی سوچتے ہوں گے کہ آئی ایم ایف کو آخر ہم سے دشمنی کیا ہے؟ سامراج کے یہ مالیاتی ادارے کوئی دشمنی نہیں بلکہ اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔ عوام دشمن یہ نظام ہے جس کے اوزار آئی ایم ایف جیسے ادارے ہیں۔ 1944ء کے بریٹن ووڈز معاہدے کے نتیجے میں قائم کئے جانے والے ان اداروں کا مقصد ہی سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی تقاضے، یعنی شرح منافع میں مسلسل اضافے کو یقینی بنانا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں جب تک کچھ گنجائش تھی تب تک محنت کشوں کی بغاوت سے بچنے کے لئے حکمران تھوڑی بہت سہولیات اور سبسڈی وغیرہ دے دیا کرتے تھے۔لیکن معاشی زوال کے اس عہد میں سرمایہ داری کا حقیقی کردار سامنے آرہا ہے۔ اس نظام کی اساس ہی محنت کش عوام کا خون نچوڑ کر حکمران طبقے کی تجوریاں بھرنا ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک وغیرہ کا کام اسی استحصالی معیشت کو ''ریگولیٹ‘‘ کرنا ہے جو عالمی کردار کی حامل ہے۔نظام زر رکھنے والے ہر ملک کی معیشت اس عالمی منڈی کے تابع ہے اور اس کی جکڑ اور جبر سے بچ نہیں سکتی۔ اس نظام میں رہنا ہے تو وہی کرنا ہو گا جو اس کا تقاضا ہے۔ حکمران تو ویسے بھی سامراج کے کمیشن ایجنٹ ہیں۔ ان کی اطاعت بے مثال ہے!
کسی زمانے میں لوگ بجٹ کو سنجیدہ لیتے تھے۔ لیکن یہ معیشت اس قدر گل سڑ چکی ہے کہ ایک سال تو دور کی بات ایک مہینے کی بجٹ سازی ممکن نہیں ہے۔ اب تو ہر روز بجٹ پیش ہوتا ہے، ہر روز نیا ٹیکس لگتا ہے، ہر روز نئی واردات ہے۔یہاں کا سرمایہ دار ٹیکس دینے نہیں، لینے والوں میں سے ہے۔بجلی، گیس کی چوری اور دوسری لوٹ مار تیسری دنیا کے سرمایہ داری طبقے کا تاریخی کردار ہے۔ملک کے مجموعی ٹیکس ریونیو کا 85سے 90فیصد بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے عوام کا خون پسینہ نچوڑ کر حاصل کیا جاتا ہے۔ پھر یہ سارا پیسہ حکمرانوں کے کمیشن اور ٹھیکوں سے بھرپور منصوبوں، سامراجی قرضوں پر سود کی ادائیگی اور تباہی کے آلات پر اڑا دیا جاتا ہے۔ بجٹ خسارہ ہر سال بڑھتا چلا جاتا ہے جسے پورا کرنے کو مزید قرضے لئے جاتے ہیں۔ نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ پرانے قرضوں پر صرف سود کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے درکار ہیں اور مزید قرضوں کا مطلب مزید ٹیکس اور مہنگائی ہے۔ عوام کو کبھی رنگ، نسل، مذہب، فرقے کے تعصبات میں الجھا کر تو کبھی جھوٹے دلاسے دے کر اس خونی گھن چکر میں الجھائے رکھنے کے لئے ان حکمران کے پاس بڑے ''ماہرین‘‘ ہیں۔ لیکن سامراجی اداروں اور عسکری اشرافیہ کے سامنے ان کی ایک نہیں چلتی۔ یہاں ایک پائی کی معافی نہیں ہوتی!
ورنہ اب کہ نشانہ کمان داروں کا...
اس پس منظر میں اگر آنے والے بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو سب کچھ سیاہ مذاق معلوم ہوتا ہے۔ اسمبلی کا سیشن ہوگا۔ سینکڑوں صفحات کی دستاویزات چھاپ کر ممبران کو دی جائیں گی جو ان کو کھول کر بھی نہیں دیکھیں گے۔اس سیشن، سیاہی اور کاغذ کا خرچہ بھی عوام ہی بھریں گے۔ وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر پر ڈیسک بجیں گے، لعن طعن اور چھیڑ خانی ہوگی، واک آئوٹ ہوں گے۔عوام جھلسا دینے والی تپش میں مشقت کر رہے ہوں گے اور کروڑوں روپے کی بجلی سے ایئر کنڈیشنڈ ہال میں ''اختلاف رائے‘‘ کے رنگ برنگے جمہوری ڈراموں کے بعد بجٹ پاس ہوجائے گا۔ کارپوریٹ ٹیکسوں میں چھوٹ دی جائے گی اور عوام پر نیا ٹیکس نہ لگانے کے دعوے کئے جائیں گے کیونکہ ٹیکس بجٹ سے پہلے ہی لگ چکے ہوں گے اور رہی سہی کسر بجٹ کے بعد پوری کی جائے گی ۔تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے اعلان ہوں گے لیکن مہنگائی میں اضافہ اس اضافے سے کہیں زیادہ ہوگا۔شرمناک حد تک ''کم از کم اجرت‘‘ ویسے ہی اس ملک کے 80فیصد محنت کشوں کو نہیں ملتی۔ اس اعداد و شمار کے اس گورکھ دھندے کے گرد کارپوریٹ میڈیا پر لایعنی بحثوں کا لامتناہی سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔
اس نظام میں اور ہو بھی کیا سکتا ہے؟ یہ حکمران اس کے علاوہ بھلا کیا کرسکتے ہیں؟ محنت کش عوام کے لئے ''پاس کر یا برداشت کر‘‘ کی آپشن ہی ہے۔ پاس کروانے والے سیاسی اور ٹریڈ یونین لیڈر برداشت کروانے والوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ محنت کش طبقہ پسپا ضرور ہے، مرا نہیں۔جبر، وحشت اور استحصال کے اس راج کے خلاف انسانیت کی لڑائی لڑنے والے آج تھوڑے ضرور ہیں لیکن انہوں نے ہار ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کیفیت پر خالد علیگ کا ایک شعر ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے:
جو موسم شب ٹھہر گیا ہے تو خوں چراغوں میں بھر دیا ہے
دیے دلوں کے جلا دئیے ہیں، یہ اپنا طرز عمل رہا ہے
یہ نظام جس وحشت کا روپ دھار رہا ہے اس سے تہذیب اور نسل انسان کا وجود ہی خطرے میں پڑ چکا ہے۔ دشمن کا حقیقی روپ جب بے نقاب ہو جائے تو اگلا قدم اسے نیست و نابود کرنے کا ہوتا ہے!