"DLK" (space) message & send to 7575

مشرق وسطیٰ کے تباہ کار؟

امریکہ کے سیکرٹری دفاع نے رمادی پر داعش (دولت اسلامیہ) کے قبضہ کو عراقی افواج کی بددلی اورپست حوصلے کا نتیجہ قرار دیا ہے جبکہ عراق کی حکومت سقوط رمادی کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہرا رہے ہیں۔ الجزیرہ کے مطابق ''عراقی حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ داعش کے حملے سے پہلے امریکہ نے ضروری اسلحہ فراہم نہیں کیا۔ ‘‘ شام اور عراق میں داعش اور دوسرے گروہوں سے برسر پیکار ایران کے طاقتور جرنیل قاسم سلیمانی نے بھی امریکہ پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''امریکہ نے رمادی کی جنگ میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔‘‘
امریکی سیکرٹری دفاع کے بیان سے جہاں امریکی سامراج کی روایتی منافقت اور دھوکہ دہی کی بو آرہی ہے‘ وہاں عراق کی کٹھ پتلی حکومت اپنے آقائوں کے سامنے کھوکھلی بڑھک بازی میں مصروف نظر آتی ہے۔ پورا خطہ جس وحشت سے آج لہولہان ہے اس کے بیج سو سال قبل ان سامراجیوں نے ہی اپنی کٹھ پتلی ریاستوں میں مشرق وسطیٰ کو تقسیم کر کے بوئے تھے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سامراج کا جبر کہیں زیادہ خونخوار ہو گیا ہے۔
تیل کے ذخائر یا پھر مالیاتی اور جغرافیائی اہمیت رکھنے والا کوئی ملک اگر سامراجی گدھوں کو لوٹ مار کی کھلی اجازت نہ دے تو اسے برباد کرنے کی باقاعدہ مہم شروع کردی جاتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یہ دنیا کا معمول ہے جس کا آغاز 1953ء میں ایران کے جمہوری صدر محمد مصدق کی سی آئی اے کے ہاتھوں معزولی سے ہوا تھا۔ مصدق نے تیل کی سامراجی کمپنیوں کی چھٹی کروا کر تیل کی صنعت کو قومی تحویل میں لے لیا تھا۔ سامراج کی یہ غارت گری دنیا کے دوسرے خطوں کی طرح عراق، افغانستان، فلسطین، مصر، لیبیا اور شام میں بدستور جاری رہی ہے۔ اپریل 1978ء کے ثور سوشلسٹ انقلاب کو کچلنے کے لئے افغانستان میں شروع کئے جانے والے ''جہاد‘‘ کی آگ میں آج پاکستان بھی جل رہا ہے۔لبنان، جو مشرق وسطیٰ کا ثقافتی مرکز سمجھا جاتا تھا، 1982ء میں اسرائیل کی جارحیت کے بعد سے خانہ جنگی اور انتشار سے دوچار چلا آرہا ہے۔صدام حسین جو کبھی سی آئی اے کا ایجنٹ تھا، اس کے تمام تر ریاستی جبر کے باوجود مفت (یا انتہائی سستی) علاج، تعلیم، رہائش، پانی،خوراک اور بجلی وغیرہ کی سہولیات عراقی عوام کو میسر تھیں۔آج اس ملک کو پتھر کے دور میں دھکیل دیا گیا ہے۔ یہی صورتحال شام میں ہے جہاں امریکی قیادت میں رجعتی عرب حکمران شام کی نیم فلاحی ریاست کو برباد کرنے کے درپے ہیںاور ملک کے حصے بخرے کر دئیے گئے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں وسائل پر قبضے کی جنگوں میں دوست اور دشمن مسلسل تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔عراق اس کی واضح مثال ہے۔ ''تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت پورے خطے میں داخلی تنازعات کو پیدا کیا جاتا ہے جنہیں بھڑکا کر فرقہ وارانہ جنون اور خانہ جنگیوں کی شکل دی جاتی ہے۔اسی دوران بے پناہ منافع کمایا جا رہا ہے ، وسائل اور زمینوں پر قبضے جاری ہیں، مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے، منڈی کی ہیرا پھیری اور ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کی جانب سے عوامی اثاثوں اور دولت کی لوٹ مار کا بازار گرم ہے جبکہ سماجی ڈھانچہ تباہ ہو گیا ہے۔
مہذب سماجوں اور وسائل کو لوٹنے اور برباد کرنے کا سلسلہ کہیں پرانا ہے جس کی جدید ترین شکل سرمایہ داری کا بے قابو کینسر ہے۔ 1991ء کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں کہیں بھی بہتری نہیں ہوئی، الٹا حالات پہلے سے کہیں بدتر ہوگئے ہیں۔امریکہ کے جیو سٹریٹجک منصوبہ ساز پاگل پن کا شکار ہیں۔مختلف ممالک میں ان کی بھڑکائی ہوئی داخلی جنگیں اور دوسری مداخلت، وسائل پر نجی کارپوریٹ کنٹرول کے لیے ہے۔ان جنگی اخراجات کے بوجھ تلے امریکی عوام کو دبایا جارہا ہے جبکہ اسلحہ ساز صنعت اور امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی شرح منافع مسلسل بلند ہو رہی ہے۔ ماضی میں کسی حد تک ہونے والی سماجی ترقی کی حاصلات کو بھی آج تباہ کیا جارہا ہے ۔ یہ کوئی سازش نہیں بلکہ اس نظام کے تاریخی ارتقا کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ کارپوریٹ جبر و وحشت آج کا معمول ہیں۔
عرب تہذیب کے عروج کی علامت سمجھے جانے والے غرناطہ اور قرطبہ جیسے شہر سائنس، فنون لطیفہ ، ادب، فلسفے اور جدید ترقی یافتہ ثقافت کے مراکز تھے۔بعد ازاں سرمائے کے ارتکاز سے ان ریاستوں کے گلنے سڑنے کا عمل شروع ہوا اور رجعت حاوی ہو گئی۔
مطلق العنان بادشاہ ہو ں یا پھر جنونی دہشت گرد، ان کی توجیحات جو بھی ہوں ،یہ عناصر در پردہ کارپوریٹ گلوبلائیزیشن کے کھیل کے مہرے ہیں۔یہ رجعتی قوتیں درمیانے طبقے اور سماج کی پسماندہ پرتوں کو توہمات میں الجھا کر تشدد اور خوف کے ذریعے اپنا تسلط برقرار رکھتی ہیں۔مذہبی رسومات کی تکرار اور بے بس لوگوں کے قتل عام سے سرمائے کے بت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔تیل کی تجارت، ہتھیاروں کی خرید و فروخت، مالیاتی لین دین، فوجی خدمات اور بربادی کے بعد تعمیرنو کے ذریعے کمائی گئی دولت سامراج کی کٹھ پتلیوں کے تسلط کو مضبوط کرتی ہے۔دوسری طرف اطاعت گزاری اور فرقہ وارانہ منافرت رعایا میں سماجی بیگانگی کو جنم دیتی ہیں۔
کارپوریٹ میڈیا، دانشور اور سیاست دان سامراج اور اس کے نظام کے خلاف اٹھنے والی بغاوتوں کو بدنام اور داغدار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔حقیقی مسائل کو مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ہر چیز کا الزام دشمن پر ڈالنے کا طریقہ ہر جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ثبوت اور دلیل اسی الزام تراشی میں غرق ہو جاتے ہیں۔سماج پر مسلط کردہ سوچ کو تقویت دینے اور مسخ شدہ معلومات سے موافقت قائم رکھنے کے لیے نا پسندیدہ حقائق کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ عوام کی سوچ کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے یہ طریقے تباہ کن جنگوں اور جبر کے نظام کو قائم رکھتے ہیں۔ روز مرہ کے پروپیگنڈا میں انہیں استعمال کیا جاتا ہے۔ نام نہاد 'تعلیم یافتہ‘ دانشور بھی سازشی تھیوریاں پیش کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت نہیں کرتے۔ اشرافیہ کے ماہرین اب ہر حملے اورتوجیح کے لیے ان بنیادوں پر گھڑی گئی نفرت کو استعمال کرتے ہیں۔ مظلوموں کے حق میں استعمال ہونے والی ہر طرح کی معلومات کو ہزاروں طریقوں سے دبا دیا جاتا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں ان آوازوں کو دبانے کے لیے ڈرون طیارے، خفیہ پولیس، بم حملے، سپیشل فورسز، قتل اور دہشت کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمیشہ ہر مسئلے کا الزام دشمن پر لگایا جاتا ہے، خواہ وہ دشمن مظلوم ہی کیوں نہ ہو۔اسرائیل جیسا جابر سامراجی ملک خود کو مظلوم بنا کر پیش کرتا ہے۔ اپنے جرائم کے لیے مظلوموں کو موردِ الزام ٹھہرانا اور اعلانیہ دشمن کو ہر خرابی کا ذمہ دار ٹھہرانا، آج مشرقِ وسطیٰ کو تاراج کرتی ہوئی قوتوں کا وتیرہ ہے۔ مسلسل تبدیل ہوتی ہوئی جنگوں اور منافرتوں کا عمل ماضی کی نسبت کہیں زیاہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔
منطقی سوچ کے مطابق تو ہر طرف بربادی اور مایوسی نظر آتی ہے۔لیکن جدلیات کا تناظر اس سے مختلف ہے۔ نہ تو ہمیشہ سے حالات ایسے تھے اور نہ ہی سامراجی جارحیت اور بنیاد پرستی کا عفریت اس خطے کے لوگوں کوہمیشہ کے لیے برباد کرسکتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے دور میں کئی ممالک میں انقلابی تحریکیں ابھریں اور یمن اور شام سمیت کئی ممالک میں سرمایہ داری کا خاتمہ کر دیا گیا۔جن سماجوں میں منڈی کی معیشت کی جگہ منصوبہ بند معاشی ڈھانچوں نے لی‘ وہاں تیزترقی ہوئی اور فلاحی ریاستیں قائم ہوئیں، اگرچہ آمرانہ حکومتوں کے پیش نظر یہ سوشلزم کی مسخ شدہ شکل تھی۔2011ء کا عرب انقلاب بھی سماجی و معاشی تبدیلی کی سلگتی ہوئی خواہش کا اظہار تھا۔مارکسی پارٹی اور قیادت کی عدم موجودگی میں اسے ''جمہوریت‘‘ کے نام پرزائل کر دیا گیا۔ ایسی کئی اور بغاوتیں افق پر منڈلا رہی ہیں۔لیکن اس بربادی اور خون ریزی کو ختم کرنے کا واحد اور فیصلہ کن طریقہ اس بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہے جس میں سامراجی جارحیت اور مذہبی انتہا پسندی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں