نئے مالی سال کے بجٹ میں ہمیشہ کی طرح سب سے محروم شعبہ پھر صحت ہی رہا ہے جس کے لیے جی ڈی پی کا صرف 2 فیصد مختص کیا گیا ہے۔ نام نہاد ''اپوزیشن‘‘ اور تجزیہ کاروں کا بہت شور ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اس مختص رقم کو دوگنا یا تین گنا بھی کر دیا جائے تو کیا اس سے ملک کی 82 فیصد سائنسی علاج سے محروم آبادی کو صحت کی سہولیات مل سکتی ہیں؟ صحت اور تعلیم جیسے بنیادی شعبوں کا ریاستی انفراسٹرکچر از سر نو تعمیر کرنے کے لیے جو وسیع سرمایہ کاری اور منصوبہ بندی درکار ہے، کیا اس کی سکت اس دیوالیہ معیشت میں ہے؟ سرکاری شعبے سے مریضوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد کو علاج تو کیا ملے گا یہاں تو معالج کو تنخواہ بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ نوجوان ڈاکٹروں کی تحریکیں اور نرسزکی ہڑتالیں ظاہر کرتی ہیں کہ اس نظامِ زر نے مسیحائوں کو ہی روٹی کی فکر ڈال دی ہے۔
سرکاری ہسپتالوں میں نہ صرف ادویات ناپید ہیں بلکہ ایم آر آئی کی مشینوں سمیت دوسرے کئی تشخیصی آلات یا تو موجود ہی نہیں، اگر موجود ہیں تو نجی ہسپتال اور ٹیسٹوںکے کمرشل ادارے ایسی مالیاتی واردات کرتے ہیں کہ ٹھیک آلات ''خراب‘‘ ہوجاتے ہیں۔ 18ویں ترمیم کی عیاری کا کمال یہ ہے کہ اس سے حکمرانوں کو یہ موقع مل گیا ہے کہ ان مسائل کا الزام صوبائی حکومتیں مرکز پر عائد کردیں اور مرکز ہر خرابی کا ذمہ دار صوبائی محکموں کو ٹھہرائے۔
پورے ملک میں علاج بڑی حد تک نجی شعبے کومنتقل ہو کر کمرشلائز ہوچکا ہے۔ یہ طاعون کی طرح پھیلنے والا کاروبار ہے جس نے انسانی درد کی تجارت کو منافع بخش بنا دیا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی اور حکومت پر انہی پرائیویٹ ہسپتالوںکے مالکان ہی براجمان ہیں۔ یہ سرمایہ دار بھلا کب چاہیں گے کہ عوام کو مفت اور مناسب سرکاری علاج میسر آئے اور ان کے منافع بخش کاروبار برباد ہوں؟ جہاں انسان کی جذباتی اور نفسیاتی مجبوری کے تحت اخراجات کرنا لازم اور ناگزیر ہو، اس شعبے کو نجی سرمایہ بھلا کس طرح اپنی گرفت سے نکلنے دے گا۔ وہ ان بیش بہا منافعوں کا بڑا حصہ بھی اقتدار کے حصول کے لیے صرف کردینے سے گریز نہیں کرتے۔
علاج میںنجی شعبے کی مداخلت سماجی نفسیات اور اخلاقیات کو بدل دیتی ہے۔ سستے علاج کو گھٹیا سمجھا جانے لگتا ہے۔ اس نظامِ زر کا سب سے المناک ظلم یہ ہے کہ مرض اور لواحقین علاج کے لیے زیادہ اخراجات کرکے تشفی محسوس کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ وحشیانہ کردار کسی نظام کا کیا ہوسکتا ہے؟ فائیو سٹار ہوٹلوں سے مہنگے پرائیویٹ ہسپتالوں کے کمروں سے لے کر کسی دیہات کے ڈسپنسر کلینک تک، ہر جگہ یہی سوچ حاوی ہوتی ہے۔ جہاں ان سیون سٹار ہسپتالوں کے مالکان درمیانے طبقے سے کروڑوں لوٹتے ہیں وہاں غریب عوام کی اکثریت علاج سے یکسر محروم ہے۔ نجی شعبے میں نوجوان ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈیکل سٹاف سے قلیل ترین اجرتوں پر وسیع بیروزگاری کا فائدہ اٹھا کر دن رات کام لیا جاتا ہے۔ مریض اور معالج لٹتے ہیں، سرمایہ دار لوٹتے ہیں۔ نجکاری کے یہی فضائل ہیں۔
پاکستان کی پوری تاریخ میں، ما سوائے 70ء کی دہائی کے آغاز میںبھٹو حکومت کے کچھ سالوں کے، صحت کی سہولیات پر نہ ہونے کے برابر رقم خرچ کی گئی ہے۔20کروڑ سے زائد کی آبادی کے لیے صحت پر جتنی رقم خرچ کی جاتی ہے وہ بڑے شہروں کے چند ہسپتالوں کے لیے بھی ناکافی ہوتی ہے۔ در اصل سماجی ترقی کے مختلف شعبوں کے بنیادی انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کے لیے ہزاروں ارب روپے کی رقم درکار ہے جو یہاں کے حکمران طبقات کے لیے اپنی تاریخی نااہلی کی وجہ سے نا ممکن ہے۔ تعلیم ، ٹرانسپورٹ اور بجلی کے بنیادی ڈھانچوں کے لیے بھی خطیر رقم درکار ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق بڑے شہروں میں بجلی کی زیرِ زمیں تاریں بچھانے کے لیے4200 ارب روپے کی رقم درکار ہے جبکہ پاکستان کا کل بجٹ 4400 ارب روپے ہے۔ اسی طرح ہسپتالوں کی تعمیر، ادویات کی فراہمی ،جدید لیبارٹریاں اور اتنی بڑی آبادی کے لیے درکار ڈاکٹروں کی تنخواہوں کی مد میں جتنے سرمائے کی ضرورت ہے یہاں کی سرمایہ داری وہ پیدا ہی نہیں کر سکتی۔ پاکستان میں 1326 لوگوں کے لیے ایک ڈاکٹر، 22,662 لوگوں کے لیے ایک نرس موجود ہے۔ 44 فیصد عورتیں حمل کے دوران ایک دفعہ بھی ڈاکٹر سے معائنہ نہیں کرا سکتیں، 67 فیصد عورتیں غیر سائنسی اور غیر محفوظ حالات میں بچوں کو جنم دیتی ہیں، 1000میں سے 86 بچے پانچ سال تک کی عمر تک پہنچنے سے پہلے فوت ہوجاتے ہیں، ہر تین میں ایک بچے کا وزن نارمل سے کم ہوتا ہے،46 فیصد بچوں کی ذہنی وجسمانی نشو و نما مکمل نہیں ہوتی جس کی وجہ سے آنے والی نسل کا اوسط قد پچھلی نسل سے آدھا انچ کم ہو گا۔
دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت نوزائیدہ بچوں میں شرح اموات کے حوالے سے آٹھویں نمبر پر ہے۔ دارالحکومت اسلام آباد کی میلوڈی مارکیٹ میں ہر جمعے نواحی علاقوں کے غریب لوگوں کا تانتا بندھا ہو تا ہے جو ایک صاحب سے پھونک مروا کرہیپاٹائٹس کا علاج کروانے آتے ہیں کیونکہ پھونک50 روپے کی ہے اور ڈاکٹر کی فیس 1000 روپے۔ یہی صورتحال باقی پورے ملک کی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ صرف ہسپتال بنانے سے بھی بیماریاں ختم نہیںہوں گی اور نہ ہی ادویات کی ریل پیل کرنے سے کیونکہ 40 فیصد جان لیوا بیماریاں گندہ پانی پینے کی وجہ سے ہوتی ہیں ۔ آلودہ پانی ہیپاٹائٹس کی بڑی وجوہ میں سے ایک ہے، یہاں 14کروڑ سے زائد لوگوں کو پینے کا صاف پانی ہی میسر نہیں ہے۔ جا بجا گندگی کے ڈھیر اور نکاس کے ذرائع نہ ہونا کئی مہلک بیماریوں کے موجب ہیں۔ سماج کے ہر شعبے کو نئے سرے سے تعمیر کیے بغیر ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہو سکتا۔ حکمرانوں ، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی دولت کو ضبط کرکے انسانی ضروریات کے تحت معاشی منصوبہ بندی کے ذریعے مسائل کے انقلابی حل کے علاوہ کوئی اور راستہ ہے ہی نہیں۔ مکمل غذا، صحت مند ماحول اور صاف ستھرے معاشرے میں نہ صرف بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑا جا سکتا ہے بلکہ انسان طویل زندگی جی سکتا ہے۔ اس وقت کیوبا میں مفت اور دنیا کا سب سے بہترین نظام صحت موجود ہے، یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پھیپھڑوں کے کینسر کی ویکسین موجود ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہاں صحت کا بیوپار نہیں ہوتا۔
آج کروڑوں لوگ قابلِ علاج بیماریوں سے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے مر جاتے ہیں ۔ ٹی بی جیسی غربت کی بیماری ایک مرتبہ پاکستان سے مکمل ختم ہونے کے بعد دوبارہ زیادہ شدت سے لوٹ آئی ہے، اس ملک میں خسرے سے لوگ مر جاتے ہیں اور پولیو کیسز کے حوالے سے پاکستان دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ سائنسی ترقی کے اس دور میں جن بیماریوں کو قصۂ پارینہ ہو جانا چاہیے تھا آج وہ لاکھوں لوگو ں کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہیں۔ منافع کے اس نظام میں انسانی اذیت اور درد کو بھی کاروبار بنا لیا گیا ہے۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی اس مقام پر ہے کہ دوسری تمام بنیادی ضروریاتِ زندگی کی طرح علاج کی جدید ترین سہولیات بھی سماج کے ہر فرد کو میسر ہو سکتی ہیں اور انسان کی صحت مند عمر میں حیران کن حد تک اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن شرط ہے کہ صحت سمیت سماج کے ہر شعبے سے منافع کا عنصر ختم کیا جائے جس کے لیے سرمایہ داری کا خاتمہ لازم ہے۔