"DLK" (space) message & send to 7575

غربت کی تضحیک !

جب کوئی نظام تاریخی طور پر متروک ہو کر سماج کو ترقی دینے سے قاصر ہو جاتا ہے تو اس کے معذرت خواہان اور حکمران طبقے سے صرف جھوٹ اور فریب کی امید ہی کی جا سکتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے زہر کو آب حیات ثابت کرنے کے لیے سامراج کے تھنک ٹینک، سامراجی مالیاتی ادارے اور کارپوریٹ میڈیا کی جانب سے پروپیگنڈا کی بوچھاڑ مسلسل کی جاتی ہے۔ ان چالبازیوں کا حتمی مقصد رائج الوقت سیاست اور معیشت کا نفسیاتی غلبہ رعایا پر برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ تاریخ میں کئی سماجی و معاشی نظام آئے اور مٹ گئے، ہر عہد کا حکمران طبقہ اپنے طرزحکمرانی کو حتمی و آخری ثابت کرنے کے لیے مذہب، اخلاقیات اور روایات کے جواز تراشتا رہا‘ لیکن سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے! آج عالمی سرمایہ داری ''آزاد منڈی‘‘ میں اپنے وجود کا سہارا تلاش کرتی ہے جو آبادی کی وسیع اکثریت کو غربت میں غرق کرتی چلی جا رہی ہے اور اس کے برعکس واویلا یہ کیا جارہا ہے کہ غربت کم ہو رہی ہے۔ ہٹلر کے پروپیگنڈا منسٹر جوزف گوبلز نے کہا تھا کہ ''جھوٹ بولو تو اتنا بڑا اور اتنا زیادہ بولو کہ سچ معلوم ہونے لگے‘‘۔ سامراج کے پالیسی ساز اپنے پرکھوں کی اس نصیحت پر پوری دلجمعی سے عمل پیرا نظر آتے ہیں۔
یکم جون 2013ء کو شائع ہونے والے ''اکانومسٹ‘‘ کے شمارے کا سرورق بہت دلچسپ تھا۔ سرخی کا عنوان ''غربت کے خاتمے کی طرف دنیا کی اگلی بڑی چھلانگ‘‘ تھا۔ متعلقہ مضمون میں انسانیت کو یہ 'خوشخبری‘ سنائی گئی تھی کہ غربت بہت جلد قصہ ماضی ہونے والی ہے اور ''1990ء سے 2010ء کے درمیان ترقی پذیر ممالک میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی آبادی کی تعداد آدھی ہوگئی ہے...ایک ارب انسانوں کو خطِ
غربت سے اوپر اٹھا لیا گیا ہے‘‘۔ اکانومسٹ نے مزید لکھا کہ ''کرہ ارض پر بسنے والے 7ارب انسانوں میں سے 1.1ارب عالمی طور پر تسلیم شدہ 1.25ڈالر روزانہ کے انتہائی خطِ غربت سے اب بھی نیچے ہیں۔ مختلف حکومتوں کے نمائندگان اور عالمی اداروں کی ملاقاتیں اس ہفتے سے شروع ہو کر اگلے سال تک جاری رہیں گی جن میں ملینیم ڈویلپمنٹ گولز (MDGs)کی جگہ نئے ٹارگٹ طے کیے جائیں گے۔ ملینیم ڈویلپمنٹ گولز کا اجرا ستمبر 2000ء میں ہوا تھا اور یہ 2015ء میں ختم ہو رہے ہیں۔ اب حکومتوں کو مزید ایک ارب افراد کو 2030ء تک انتہائی غربت سے نکالنے کے منصوبے بنانے ہوں گے‘‘۔
اکانومسٹ کا یہ مضمون درحقیقت عالمی سطح پر سامراجی اداروں کی جانب سے شروع کی گئی وسیع پروپیگنڈا مہم کی کڑی ہے جس میں دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ''ملینیم ڈویلپمنٹ گولز‘‘ (ہزار سالہ ترقیاتی منصوبہ جات ) کے ذریعے غربت میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے تحت نسلِ انسان 'سست روی سے ہی سہی‘ لیکن ترقی کی منزلیں عبور کرتی چلی جا رہی ہے۔ MDGsکا اجرا 2000ء میں اقوام متحدہ کی 'ملینیم سمٹ‘ میں کیا گیا تھا جس میں اقوام متحدہ کی اس وقت کی ممبر تمام 189ریاستوں اور 23 بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندگان نے 2015ء تک آٹھ مقاصد پورے کرنے کا 'عزم‘ کیا تھا۔ ان گولز میں 2015ء تک انتہائی غربت کی شرح کو نصف کرنا، تمام بچوں کو پرائمری تعلیم تک رسائی دلانا، جنسی برابری، بچوں کی شرح اموات میں کمی اور مائوں کی صحت میں بہتری، ایڈز اور ملیریا جیسی بیماریوں کا تدارک اور ''ترقی کی عالمی شراکت داری‘‘ شامل تھے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے بعد ازاں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور افریقی ڈویلپمنٹ بینک کے ذریعے غریب ممالک کے لیے ''امداد‘‘ اور معاشی اصلاحات کے ذیلی منصوبے شروع کئے گئے۔
MDGsکے نتائج کی حقیقت اکانومسٹ کے اسی مضمون میں ہی بالواسطہ طور پر کچھ یوں عیاں کی گئی ہے کہ ''نومولود بچوں کی اموات میں کمی اور مائوں کی صحت وغیرہ کے حقیقی گولز پورے نہیں ہو پائے ہیں تاہم غربت کو نصف کرنے کا گول پانچ سال پہلے ہی پورا ہو گیا ہے‘‘۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان نیو لبرل معیشت دانوں کے نزدیک آخر ''غربت‘‘ کس بلا کا نام ہے؟ یہ کیونکر ممکن ہے خواتین اور بچوں کی صحت جیسے انتہائی بنیادی سماجی اشاریے گراوٹ کا شکار ہیں لیکن ایک ارب لوگ غربت سے باہر نکل آئے ہیں؟ تاریخی متروکیت اور بڑھتے ہوئے معاشی زوال کے اس عہد میں کون سا ایسا جادوئی نسخہ سرمایہ داری کے ہاتھ آگیا ہے جس کے ذریعے دس بارہ سالوں میں ہی عالمی غربت کو آدھا کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے؟ اعداد و شمارکو ذرا سا کریدنے پر ان دعووں کا پول کھل جاتا ہے۔
2000ء میں MDGsکے اجرا سے پہلے دنیا بھر کی حکومتوں نے 1996ء میں روم میں منعقد ہونے والے 'ورلڈ فوڈ سمٹ‘ میں غذائی قلت کے شکار افراد کی تعداد 2015ء تک نصف کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ اس وقت کی آبادی کے مطابق اس کا مطلب 83کروڑ 60 لاکھ افراد کو غربت سے نکالنا تھا۔ بہت سے ناقدین نے تب بھی اس ٹارگٹ کو اس بنیاد پر ڈھونگ قرار دیا تھا کہ دولت کی مساوی تقسیم نو پر مبنی معاشی پالیسیوں سے غربت کا مسئلہ چند سالوں میں ہی ختم ہو سکتا ہے‘ لیکن محروم انسانوںکے 'غم سے نڈھال‘ سربراہان مملکت اور سامراجی پالیسی سازوں کا یقین اپنے نظام پر اس قدر پختہ تھا کہ اس بے جان سے ٹارگٹ پر بھی پانی پھیرا جانے لگا۔ 2000ء میں غربت میں کمی کے اس ٹارگٹ کو ''تھوڑا رد و بدل‘‘کر کے ''ملینیم ڈویلپمنٹ گول 1‘‘ قرار دیا گیا جس کے تحت کل آبادی میں ایک ڈالر روزانہ پر رہنے والے افراد کی شرح کو نصف کیا جانا تھا۔ ''ہاتھ کی صفائی‘‘ یہاں سے ہی شروع ہوتی ہے جس کے ذریعے غربت کی تعریف کو غذائی قلت سے ہٹا کر آمدن کے ساتھ منسلک کر دیا گیا اور غربت میں غرق انسانوں کی مطلق (Absolute)تعداد کی بجائے کل آبادی میں ان کی شرح پر توجہ مرکوز کروا دی گئی۔ چنانچہ کل آبادی میں اضافے کے پیش نظر 16کروڑ 70 لاکھ غریب انسان ویسے ہی اس گول میں سے باہر ہو گئے‘ لیکن یہ صرف آغاز تھا جس کے بعد بھی اعداد و شمار کے ہیر پھیر یا تعریف کی تبدیلی کے ذریعے ''غربت میں کمی‘‘ کا تاریخی عمل جاری رہا۔
2000ء میں جاری ہونے والے گول کو بھی بعد ازاں تبدیل کر دیا گیا اور مجموعی عالمی آبادی میں غریب انسانوں کی شرح کو نصف کرنے کی بجائے ترقی پذیر ممالک میں غریب انسانوں کی شرح کو نصف کرنے کا گول اپنایا گیا۔ اس کے بعد گول کا نقطہ آغاز ہی 2000ء سے تبدیل کر کے 1990ء مقرر کر دیا گیا جس کے ذریعے چین میں سرمایہ دارانہ معاشی سائیکل میں آنے والے افراد کو بھی غربت سے نکلنے والے افراد میں شامل کر لیا گیا۔ یاد رہے کہ سرمایہ دارانہ دانشوروںکے مطابق 1978ء سے پہلے پورا چین ہی ''غریب‘‘ تھا۔ گول کے نقطہ آغاز میں اس تبدیلی کے ذریعے 32کروڑ مزید افراد کو غربت سے نکال لیا گیا۔ یوں 1996ء میں38کروڑ 60 لاکھ افراد کو غربت سے نکالنے کے گول کو 34کروڑ50 لاکھ افراد تک محدود کر کے عالمی سطح پر غربت کو نصف کر دیا گیا!
لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ سامراجی پالیسی ساز غربت کی تعریف ہی اس طرح کرتے ہیں کہ ''غربت میں کمی‘‘ کا تاثر دیا جا سکے۔ غربت کا پیمانہ ''عالمی خطِ غربت‘‘ (International Poverty Line)کو بنایاجاتا ہے۔ 1990ء میں ورلڈ بینک کے معیشت دان مارٹن روالین کی تجویز پر ورلڈ بینک نے پہلی بارایک ڈالر یومیہ (1985ء کی ''پرچیزنگ پاور پیریٹی‘‘ یا PPPپر) کو عالمی خطِ غربت قرار دیا۔ آسان الفاظ میں اس خطِ غربت کی تشریح کچھ یوں ہے کہ1985ء میں امریکہ میں 1.25ڈالر کی جتنی قوت خرید تھی اس کے مساوی یا زیادہ قوت خرید یومیہ رکھنے والا انسان (کسی بھی ملک میں) غریب نہیں ہے۔ لیکن یہ عالمی خطِ غربت الٹا ورلڈ بینک کے گلے پڑ گیا اور 2000ء میں بینک کی سالانہ رپورٹ کے مطابق '' ایک ڈالر یومیہ سے کم پر رہنے والوں کی تعداد 1987ء کی 1.2ارب سے تجاوز کر کے اب 1.5ارب ہوچکی ہے اور 2015ء تک یہ تعداد 1.9ارب تک پہنچ جائے گی‘‘۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں