"DLK" (space) message & send to 7575

زندگی سے بیزاری

بی بی سی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے ہسپتالوں میں خود کو اذیت دینے والے بچوں اور نوجوانوں کی تعداد گزشتہ پانچ سال میں کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ ہیلتھ اینڈ سوشل کیئر انفارمیشن سنٹر کی ایک تحقیق کے مطابق 2009-10ء کی نسبت 2013-14ء میں لڑکیوں اور لڑکوں کے ایسے کیسز میں اضافے کا یہ تناسب بالترتیب 93 فیصد اور 45 فیصد بنتا ہے۔ یہ اعداد و شمار آج کے نوجوان کی مایوسی کا انتہائی قابلِ مذمت اظہار ہیں‘ لیکن سرمایہ دارانہ بحران کے اس دور میں یہ سمندر میں موجود پہاڑ کا سطحِ آب پر نظر آنے والا صرف ایک سرا ہے۔ 
ایک فرد کے خود اذیتی کی جانب مائل ہونے کی بہت سی وجوہ ہوتی ہیں۔ ایک اہم وجہ‘ جس پر اس قسم کی تحقیق کرنے والے تمام محققین متفق ہیں‘ یہ ہے کہ لوگوں کا خیال ہوتا ہے اْن کے جسم اور ان کی زندگیوں پر ان کو مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ اس احساس میں کہ وہ اپنی زندگی اور اپنے اردگرد پھیلی دنیا میں کوئی مثبت تبدیلی لانے میں ناکام ہیں، لوگوں کے پاس صرف ایک ہی ردِعمل باقی رہ جاتا ہے جس کا اظہار وہ اپنے ہی جسم پر کرتے ہیں۔ یہ سوچ کہ اْن کا اپنے جسموں پر مکمل کنٹرول ہے، کچھ تبدیل نہ کر سکنے کی بے بسی اور انتہائی مایوسی کے جذبات کے وقت، انہیں اپنے اس غصے کے اظہار کا راستہ فراہم کرتی ہے۔ کاٹنا، جلانا، جسم کو نشہ آور ادویات کے ذریعے نقصان پہنچانا، مکے مار کر خود کو زخمی کرنا یا پھر کسی اور طرح سے خود کو نقصان پہنچانا، یہ سب اسی سوچ کے نتائج ہیں۔ خود اذیتی کا یہ عمل جذباتی کرب سے نکلنے کا فوری ذریعہ بن جاتا ہے۔ خود اذیتی کا مطلب درحقیقت مدد کی پکار ہے، ایسے افراد خود کو قتل نہیں کرنا چاہتے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ لوگ، بالخصوص نوجوان اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے ہوئے خود کو دنیا سے الگ تھلگ کر لیتے ہیں اور خیال کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہ کچھ تبدیلی لا سکتے ہیں تو وہ صرف اس قسم کی تخریبی سرگرمی ہی ہو سکتی ہے۔ ایک ایسا سماج‘ جس میں نوجوان نسل کے لیے امید کی ہر کرن ختم ہو رہی ہو، جس میں روزگار سکڑتا جا رہا ہو، اجرتیں کم ہوتی جا رہی ہوں اور یہ بھی عیاں ہو رہا ہو کہ سماج کے ہر پہلو پر بالائی طبقے کے ایک چھوٹے سے حصے کی خواہشات ہی غالب ہیں، تو کیا ایسے میں بیگانگی اور ڈپریشن کے جذبات کا پیدا ہونا کوئی حیران کن بات ہے؟
عالمی ادارہ صحت (WHO) کی 2015ء میں منظرِ عام پر آنے والی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں آخری عشرے کی نسبت خود اذیتی کا شکار ہونے والے نوجوانوں کی تعداد تین گنا بڑھ گئی ہے۔ سکول جانے والے بچوں کے متعلق کی جانے والے ایک تحقیق میں 15 سال کی عمر کے 22 فیصد بچوں نے یہ تسلیم کیا کہ وہ کسی نہ کسی وجہ سے خود اذیتی کا شکار ہوئے ہیں۔ 
2008ء کے بعد ترقی یافتہ مغربی ممالک میں عوام پر مسلسل معاشی حملے کیے جا رہے ہیں۔ فلاحی ریاست کی اتنے بڑے پیمانے پر تباہی اور اجرتوں کے مسلسل گرنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے دباؤ نے لوگوں کے لیے زندگی کی بقا کا مسئلہ پیدا کر دیا ہے‘ جس کے سماجی نتائج بھی اپنا اظہار کر رہے ہیں۔ آنے والے سال اس سے بھی زیادہ تلخیاں لائیں گے۔
خود اذیتی سے متعلق دیے گئے یہ اعداد و شمار جہاں بوکھلا دینے والے ہیں وہاں یہ پریشان کن اور مایوس کن بھی ہیں لیکن ان سے صورت حال کی مکمل تصویر کشی نہیں ہوتی۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار اْن لوگوں کے بارے میں پتا دیتے ہیں‘ جن میں نفسیاتی مرض شدید ہے یا پھر وہ جو ہسپتال پہنچ پاتے ہیں۔ بہت سے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ خود اذیتی کی صورت میں لگائے گئے 'زخم‘ کی تعریف بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ یہ وضاحت کرتی ہے کہ لڑکے خود کو چوٹ لگا کر یا گھونسے مار کر ضرر پہنچانے کی طرف مائل ہوتے ہیں اور کچھ ہسپتال تو ایسے اقدام کو خود اذیتی میں شامل ہی نہیں کرتے۔ کثرت شراب نوشی، منشیات سمیت بہت سے دوسرے ایسے طریقے بھی ہیں جو بالواسطہ طور پر خود کو اذیت پہنچانے کے لیے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے خود اذیتی سے متعلق پیش کردہ ان تمام اعداد و شمار کو صرف سماجی گراوٹ کی عمومی علامت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
اگرچہ خود اذیتی اور خود کشی میں کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہے لیکن ایسی صورت حال‘ جو ایک فرد کو خود اذیتی کی طرف کھینچ لیتی ہے، وہی دوسرے کو خود کشی کی طرف لے جا سکتی ہے۔ 2008ء کے بعد سے خود اذیتی کے واقعات کی ہی طرح خود کشی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
2013ء میں برطانیہ کے طبی جریدے کے ماہرین نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک میں بھی معاشی بحران اور خودکشی کے درمیان براہِ راست تعلق پایا جاتا ہے۔ اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے بی بی سی کا کہنا تھا کہ ''2008ء کے معاشی بحران کے بعد جب یورپی ممالک اور امریکہ میں تحقیق کی گئی تو پتا چلا کہ خود کشی کرنے والوں میں مرد حضرات اور وہ بھی ایسے مرد جن کا روزگار چلا گیا تھا، کا تناسب زیادہ تھا‘‘۔ اس جریدے نے 2008ء کے بحران کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے 54 ممالک کے اعداد و شمار جمع کیے۔ بحران کے فوری بعد کے سال میں مردوں کی خود کشی کی شرح میں مجموعی طور پر 3.3 فیصد اضافہ ہوا۔ بعد کے سالوں میں، وقت کے ساتھ بحران کے گہرا ہونے سے خود کشی کی شرح میں ہونے والا اضافہ کہیں زیادہ ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی اور لندن سکول آف ہائی جین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن نے 24 یورپی ممالک، کینیڈا اور امریکہ میں جمع کردہ اعداد و شمار پر رپورٹ مرتب کی ہے جس کے مطابق ''2007ء تک یورپی ممالک میں خودکشی کی شرح کم رہی۔ 2009ء میں اس میں 6.5 فیصد تک اضافہ ہو گیا اور 2011ء تک یہ شرح برقرار رہی۔ کینیڈا میں بھی خود کشی سے اموات کی شرح کم ہو رہی تھی لیکن 2008ء کی معاشی زوال پذیری کے بعد اس میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا، یعنی 250 اموات سالانہ بڑھ گئیں۔ امریکہ میں اپنی جان لینے والے افراد کی تعداد بڑھ رہی تھی تاہم اس معاشی بحران کے بعد اس کی رفتار میں مزید اضافہ ہوا جس کے باعث 4750 اضافی اموات ہونے لگیں۔
عالمی ادارہ برائے صحت نے اپنی 10 سال کی تحقیق۱ور جمع کیے گئے اعداد و شمار کی روشنی میں بتایا کہ ہر 40 سیکنڈ میں دنیا میں کہیں نہ کہیں خود کشی کا واقعہ ہو جاتا ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق ہر سال تقریباً 800,000 لوگ اپنی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں۔ 15 سے 29 سال کے نوجوانوں میں موت کی دوسری بڑی وجہ یہی ہے۔ ان میں سے ایک تہائی اموات متوسط اور کم آمدنی والے ممالک میں ہو رہی ہیں۔ 
سرمایہ دارانہ نظام صرف معاشی طور پر ہی نہیں، سیاسی اور سماجی طور پر بھی دیوالیہ ہو چکا ہے۔ ٹیکنالوجی کے اس عروج پر جہاں ہر انسان کو زندگی کی تمام سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں، یہ نظام نسل انسان کو محرومی اور ذلت کے ہاتھوں قتل کر رہا ہے۔ محنت کشوں کی اجتماعی طاقت کے ذریعے سے ہی عوام ظلم و جبر اور استحصال کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں اور معیشت کو اپنے جمہوری کنٹرول میں لے سکتے ہیں۔ اسی طریقے سے ہی ہم بلند معیار پر سماج کی تعمیر نو کر سکتے ہیں۔ تنخواہوں میں کٹوتیاں کیے بغیر کام کرنے کے اوقاتِ کار کو پہلے مرحلے میں ہی کم کر کے فی ہفتہ 25 گھنٹے تک لایا جا سکتا ہے۔ بیروزگاری کو چند ہفتوں میں یکسر ختم کیا جا سکتا ہے۔ اوقات کار میں کمی سے لوگوں کو وہ وقت بھی میسر آ سکتا ہے جو سیاسی اور جمہوری عمل میں شرکت کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ایسے سماج کے قیام کے بعد پہلی بار ایسا ہو گا کہ لوگ جس دنیا میں رہ رہے ہیں، خود کو اس سے بیگانہ تصور نہیں کریں گے بلکہ اس میں ترقی اور تبدیلی کے مؤثر کارکن کے طور پر سامنے آئیں گے۔ منافع کا عنصر ختم کرکے تعمیرات، تعلیم، صحت اور سماجی بہبود کے دیگر منصوبوں کے لیے بے پناہ دولت میسر آئے گی۔ ایسے سماج میں کوئی انسان بے آسرا، محروم یا بے کار نہیں رہے گا بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی تکمیل کرے گا۔ سوشلسٹ سماج میں بیگانگی، ڈپریشن ، ذہنی دباؤ، خود اذیتی اور خود کشی جیسے مسائل قصہ ماضی ہو جائیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں