آج شب ایران اور چھ 'بڑی طاقتوں‘ کے درمیان 2اپریل کو ہونے والے معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کی شرائط طے کرنے کے لئے ویانا میں جاری مذاکرات کا وقت ختم ہو جائے گا۔ ظاہری طور پر یہ تو یہ مذاکرات ایران کے جوہری پروگرام کو عسکری طاقت کی بجائے 'پر امن مقاصد‘ کے لئے استعمال کرنے سے متعلق ہیں لیکن ان سے خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال اور طاقت کے توازن کے بہت سے پہلو سامنے آ رہے ہیں۔
مذاکرات میں حصہ لینے والے تمام ممالک میں سامراجی حکمران طبقے کی حاکمیت ہے اور عوام استحصال اور محکومی کا شکار ہیں۔ لہٰذا ایک حقیقت بالکل واضح ہونی چاہئے کہ اس پرفریب سفارت کاری کا کسی ''قوم‘‘ کے مفادات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے بلکہ کارپوریٹ سرمائے کے نمائندہ مختلف سیاستدانوں کے درمیان لین دین اور سودے بازی ہو رہی ہے۔ یہ دوستیاں اور دشمنیاں بھی مفاد پرستی کے تحت بدلتی رہتی ہیں۔ اپنی حاکمیت برقرار رکھنے کے لئے اس طبقے کو دشمنی بھی بنانی اور ابھارنی پڑتی ہے اور پھر ''امن و آشتی‘‘ اور دوستی کے ڈھونگ بھی رچانے پڑتے ہیں۔
1979ء میں ایران میں ہونے والی دھماکہ خیز تبدیلیاں اور ایک انقلاب کا ملائیت کے رد انقلاب میں بدل جانے کا عمل تاریخ کے بڑے واقعات تھے۔ اس کے بعد کے عرصے میں ایران کی ملاں اشرافیہ اور امریکی سامراج نے آپسی ''دشمنی‘‘ کو اپنے اپنے داخلی اور خارجی مفادات کے لئے خوب استعمال کیا۔ 37سال تک امریکی ریاست اور اس کے مغربی حواریوں نے ایران کو ایک سیاہ قوت کے طور پر پیش کیا۔ مغربی کارپوریٹ میڈیا ایران کو دنیا بھر کے عوام کے ایک خطرہ اور خوف کی علامت بنا کر پیش کرتا رہا۔ اس عہد میں سوویت یونین ٹوٹ رہا تھا، پوری دنیا میں سٹالن اسٹ بایاں بازو منہدم ہو رہا تھا، تحریکیں پسپائی کا شکار تھیں اور معاشرے جمود اور پراگندگی کا شکار تھے لہٰذا پراپیگنڈے کی اس یلغار کا شعور میں کسی حد تک سرائیت کر جانا کوئی حیران کن بات نہیں۔
2014ء میں بی بی سی ایک سروے کے مطابق دنیا کے سب سے قابل نفرت ممالک ایران، شمالی کوریا اور پاکستان تھے۔ باقی ممالک میں جو دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، امریکی سامراج اور اس کے دم چھلوں نے افغانستان اور پورے مشرق وسطیٰ کو برباد کر دیا ہے لیکن سامراج کو ہمیشہ خارجی دشمن درکار ہوتے ہیں جنہیں اکثر اوقات مصنوعی طور ''تخلیق‘‘ بھی کیا جاتا ہے اور اس مقصد کے لئے دہائیوں پر مبنی پراپیگنڈا مہمات چلا کر رائے عامہ بھی ہموار کی جاتی ہے۔ پھر اسی ''دشمن‘‘ کے خوف کو استعمال کر کے اپنے عوام پر بھی جبر کیا جاتا ہے اور بیرونی جارحیت کے راستے بھی ہموار کئے جاتے ہیں۔ اسرائیل ایک عرصے سے ایٹمی طاقت ہے جس کے پاس سینکڑوں جوہری ہتھیار ہیں لیکن کارپوریٹ میڈیا اس پر کبھی بات کرے گا نہ کوئی ''مذاکرات‘‘ ہوں گے۔ اسرائیل کی تخلیق کا مقصد ہی مشرق وسطیٰ میں مسلسل عدم استحکام برقرار رکھنا تھا۔
اس نظام میں سفارت کاری بھی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک صرف دکھاوے کے لئے اور دوسری عملی پالیسیاں لاگو کرنے کے لئے۔ عملی سفارت کاری ہمیشہ پوشیدہ ہی ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ 1215ء کے ''میگنا کارٹا‘‘ سے شروع ہوا تھا۔ حقیقی معاملات عوام کے سامنے دہائیوں یا صدیوں کے بعد ہی کسی ''وکی لیکس‘‘ کی شکل میں آتے ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار تمام عوام دشمن معاہدوں کو بے نقاب کرنے کا سہرا بھی 1917ء کے انقلاب روس کے سر جاتا ہے۔لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویک پارٹی نے برسر اقتدار آ کر زار شاہی کی تمام خفیہ سرکاری دستاویزات شائع کی تھیں تاکہ عوام کو ہاتھی کے کھانے اور دکھانے کے دانت معلوم پڑیں۔
مشرق وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر سعودی عرب، کویت، قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک مسلسل اسرائیلی ریاست سے خفیہ مذاکرات کر رہے ہیں حالانکہ ان کے درمیان ''سفارتی تعلقات‘‘ اور سفارت خانے ہی موجود نہیں ہیں۔ ایران امریکہ تعلقات میں بھی اچانک ''گرمجوشی‘‘ آگئی ہے اور عراق، شام اور لبنان کی صورتحال کے تحت ان کے مذاکرات بھی ضروری ہو گئے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ کوئی پہلی مرتبہ بھی نہیں ہو رہا ہے۔ داخلی مزاحمت کو کچلنے کے لئے ایسی بیرونی سفارتکاری کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ امریکہ اور ایران کے درمیان ظاہری اور ''جزوی‘‘ دشمنی کے طویل عرصے میں بھی رابطے اور کچھ پالیسیوں پر مفاہمت رہی ہے۔ 1983ء کا کرنل اولیور نارتھ سکینڈل، 2001ء میں ہرات پر امریکی قبضہ کروانے میں معاونت یا پھر عراق پر امریکی جارحیت کے بعد بصرہ میں مقتدالصدر اور اس کی ملیشیا کو قابو کرنے کا مسئلہ اسی خفیہ سفارتکاری کی کڑیاں ہیں۔
عراق میں امریکی سامراج کی اپنی ہی تخلیق کردہ داعش کے بے قابو ہو جانے کے بعد یہ تعلقات نئی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ امریکہ کی تخلیق کردہ عراق کی '' قومی فوج‘‘ داعش کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی ہے۔ ان حالات میں ایران کی تربیت یافتہ شیعہ ملیشیا اور پیرا ملٹری ''انقلابی گارڈز‘‘ کو استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہاں مفادات یکجا ہیں۔ ایٹمی مسئلے پر مذاکرات کے ذریعے ایران کے قریب آنے کی دو اہم وجوہ ہیں۔ 2008ء کے مالیاتی کریش کے بعد سے امریکہ کا معاشی بحران اور اقتصادی کمزوری اس کی سفارتی اور عسکری پسپائی میں نظر آتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پچھلے 12سال کی اقتصادی پابندیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امریکی اور یورپی اجارہ داریاں اندر خانے ایران کے ساتھ تجارت کرتی رہی ہیں۔ اب عالمی معیشت کا بحران بڑھ رہا ہے، چینی معیشت بیٹھ رہی ہے اور سامراجی اجارہ داریوں کو زیادہ بڑے پیمانے پر ایرانی منڈی اور خام مال وغیرہ کی ضرورت ہے۔ ایران کی منڈی کھلتی بھی ہے تو عالمی سرمایہ داری کو بہت قلیل عرصے کی تقویت ہی ملے گی۔
ایران کی ملا اشرافیہ کا جبر اور عوام کی معاشی ذلت اس لئے بھی ماند پڑ جاتی ہے کہ اس کے آس پاس عراق اور شام جیسی ریاستیں ہی دھڑام ہو گئیں ہیں اور بربریت کا ننگا ناچ جاری ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران کی 70فیصد سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ایران کے وزیر محنت و سماجی بہبود علی راعبی نے تسلیم کیا ہے کہ ''ایک کروڑ 20لاکھ افراد نیم قحط کا شکار ہیں۔‘‘ وزیر صحت علی اکبر سیارائی کے مطابق ''ہمیں افسوس ہے کہ ایران کی 78فیصد آبادی غذائی اجناس کے فقدان کا شکار ہو کر مختلف بیماریوں میں مبتلا ہے۔‘‘(ایران فوکس، 21فروری 2015ء)
ایران میں بلند افراط زر اور مہنگائی کی شدت عوام کے عذاب مسلسل بن چکے ہیں۔ اپنی حاکمیت کو مسلط رکھنے کے لئے ملائوں نے لمبے عرصے تک بیرونی حملوں، امریکہ دشمنی (مرگ بر امریکہ) اور جنگی لفاظی کا سہارا لیا ہے۔ امریکی اگر ایران کو ''سیاہ باطل قوت‘‘ قرار دیتے رہے ہیں تو ایران کے حکمران امریکہ کو ''شیطان اعلیٰ‘‘ کے لقب سے نوازتے رہے ہیں۔ اب ''باطل سیاہ قوت‘‘ اور ''شیطان اعلیٰ‘‘ کا اشتراک ہو رہا ہے!
ایران کی ملا اشرافیہ اب زیادہ تر ارب پتی سرمایہ داروں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ماضی میں ریاستی جبر کے ساتھ ساتھ ایرانی ریاست مہنگے تیل کی آمدن کا کچھ حصہ عوام پر خرچ کر کے بغاوت کو زائل کرتی رہی ہے۔ پھر تقریباً ایک دہائی تک ایران عراق جنگ کا جنگی جنون اور قومی شاونزم عوام کو دبائے رکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا۔ سعودی عرب دشمنی کا کارڈ اب بھی کھیلا جاتا ہے لیکن یہاں بھی امریکہ دشمنی کی طرح کئی معاملات میں پوری مفاہمت موجود ہوتی ہے۔ 'دی اکانومسٹ‘ کے مطابق ''سعودی ایران خفیہ مذاکرات میں پہلے 48گھنٹے میں ہی طے پا گیا تھا کہ سعودی عرب یمن میں کہاں بمباری کرے گا اور کہاں نہیں۔‘‘
ایران اور امریکی سامراج کا معاہدہ اگر عملی شکل اختیار کرتا ہے اور ایران کی معیشت عالمی سرمایہ کاروں کے لئے کھلتی ہے تو بھی غربت، مہنگائی، بیروزگاری کم نہیں ہو گی۔ ملاں اشرافیہ، ملٹی نیشنل اجارہ داریوںکی کمیشن ایجنٹ بنے گی اور لوٹ مار کا وسیع سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ امریکہ اور چین کی جیسی معیشتیں ڈوب رہی ہیں، یورپی یونین ٹوٹنے کے آثار واضح ہیں ۔ ایسے میں ایران کی خستہ حال سرمایہ داری بھلا کیا ترقی کر سکتی ہے؟ پورے خطے میں کہرام مچا ہے، مشرق وسطیٰ علاقائی اور عالمی سامراجی قوتوں کی بھڑکائی آگ میں جل رہا ہے، اس آگ سے ایران اور سعودی عرب کی ریاستیں بھی بچ نہیں پائیں گی۔ ایران کی ملاں اشرافیہ کے خلاف گزشتہ ایک دہائی میں کئی بڑی تحریکیں (بالخصوص 2009ء میں)اٹھی ہیں۔ یہ انقلابی تحریکوں کے احیا کا عہد ہے۔ یونان اور سپین میں عوامی بغاوت کا سماں ہے۔ ایران میں بھی انقلابی تحریک ایک بار پھر بلند پیمانے پر ابھرے گی۔ایران کا انقلاب ناگزیر طور پر پورے خطے کے انقلاب سے جڑا ہے جسے اسرائیل کی صہیونیت اور عرب بادشاہتوں سے نبرد آزما ہو کر سرمائے کے جبر و جارحیت کا خاتمہ کرنا ہو گا!