"DLK" (space) message & send to 7575

دشمنی کے بندھن

شنگھائی کو آپریشن تنظیم کے سربراہان مملکت کے حالیہ اجلاس کے وقفے میں میاں نواز شریف اور نریندرا مودی کی ملاقات کو ڈرامائی انداز میں پیش کر کے تجسس بڑھانے کی کوشش کی گئی۔ پچھلے 68 سال سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ یا ہاکی کا میچ ہو، مذاکرات ہوں یا ان دونوں ممالک کے حکمرانوں کی کوئی ملاقات ہو‘ایسے واقعات میں جذبات ابھارے جاتے ہیں اور اُمیدیں لگوائی جاتی ہیں اور پھر ان دوستی یا دشمنی کے اظہار کے تبادلوں پر لا متناہی اور بے معنی بحثیں مسلسل کئی روز تک جاری رہتی ہیں۔چاہے تقسیم فلسطین‘ اسرائیل اور لیوانت کی ہو، مشرقی اور مغربی جرمنی کی ہو، شمالی اور جنوبی کوریا کی ہو یا پھر بر صغیر جنوب ایشیا کی ‘ان کے مضمرات کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود ختم نہیں ہوتے اس جبر کے نشان مٹتے نہیں ہیں۔ ملن اورتقسیم کے جذبوں پر سیاست اور کاروبار چلائے جاتے ہیں۔ مسائل کو دبانے اور چھپانے کے لیے ان دوستیوں اور دشمنیوں کے ناٹک رچائے جاتے ہیں۔مشرقی اور مغربی جرمنی کو دوبارہ یکجا ہوئے25سال گزر چکے ہیں لیکن دوبارہ جڑ کر بھی تقسیم کے گہرے گھائو مٹے نہیں ہیں۔آج بھی مشرقی جرمنی میں مغرب کی نسبت غربت زیادہ ہے، میعارِ زندگی پست ہے اور ایک ذہنی اور نفسیاتی تفریق مٹ نہیں سکی۔ لیکن کوریا سے لے کر مشرقِ وسطیٰ تک ان تقسیموں کے گرد جو حقارتیں تعصبات اور نفرتیں پیدا کی گئی تھیں ان کے زخم گل سڑ گئے ہیں ان میں سے آج بھی معصوم انسانوں کا لہو بہ رہا ہے۔
پاکستان اور ہندوستان کے سربراہان کی ملاقات کے دوران کی باڈی لینگوئج سے لے کر ان کے تیور اور چہروں کے مزاجوں تک پر تبصرے ہوتے ہیں۔ ان ممالک کے عام لوگوں کو دونوں ریاستوں اور سرکاروں کی جانب سے ایک مسلسل دشمنی کے بندھن میں جکڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔ جس میں وہ نا خوش ہی نہیں بیزار بھی ہیں۔لیکن اگر ہم ریاست کے ناخدائوں، سیاست کے آقائوں، ثقافت کے ستاروں اور معاشرے کے اہم شعبوں پر مسلط اس نظا م کے جغادریوں کے پاک و ہند تعلقات کو بالائے طاق رکھ کر عام لوگوں کی نفسیات اور سوچوں کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ باہمی دشمنی عوام میں بہت سطحی اور وقتی محسوس ہوتی ہے۔اس مسلط کردہ دشمنی کے اندر ان کے دلوں اور روحوں میں ایک ویرانی‘ ایک محرومی اور ایک ہجر کا دکھ بھی ملتا ہے۔وصال کی تمنا بھی محسوس ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کے بارے میں تجسس بھی بہت ہے اور شکوک اور شبہات بھی بے پناہ ہیں۔جب حکمران اس دشمنی کو بڑھانے کے لیے مختلف حادثات یا واقعات کرواتے ہیں تو میڈیا اور سماجی اکابرین ان کے ذریعے نفر توں اور دشمنی کی آگ کو بھڑکاتے ہیں‘ تنائو اور غصے کے جذبے ابھرتے ہیں اور اس قومی اور مذہبی شائونزم کے جنون میں محنت کش عوام کچھ وقت کے لیے اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ اس سارے کھلواڑ میں دونوں ممالک کے حکمران طبقات اور ان کے اکابرین ان مفلس عام انسانوں پر کیا کیا معاشی اور سماجی وار کر رہے ہوتے ہیں۔لیکن یہ دشمنی اس بر صغیر کے حکمرانو ں کے لیے ایک سیاسی اور پالیسی سازی کی ضرورت ہے۔اگر یہ دشمنی نہ ہو تو پھر جنگی اخراجات اور انسانی بربادی کے آلات پر عوام کے خون پسینے سے نچوڑی ہوئی بھاری رقوم کا خیال کیسے جواز حاصل کر سکتا ہے؟ اگر قومی اور مذہبی منافرتوں کی آگ بجھا دی جائے تو پھر نفرت ان سے ہوتی ہے جنہوں نے محنت کش عوام کی زندگیوں کو ظلم و استحصال کے ذریعے جہنم بنا دیا ہے! اگر غور سے دیکھا جائے تو کتنے ماہرین صرف اس کام پر مامور ہیں کہ اس دشمنی کو بڑھانے کے لیے کیا کیا منصوبے بنائے جائیں ‘کونسی کارروائیاں کی جائیں اور کیسے کیسے ہتھکنڈے اپنائے جائیں؟ حال ہی میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کے سابق سربراہ نے ایک بیان دیا ہے کہ انہوں نے کشمیر میں بھارتی استعمار کے خلاف ہونے والی مسلح لڑائی میں اپنے دہشت گرد گروہ تیار کر کے چھوڑ رکھے تھے‘جس سے تصادم اور خونریزی میں اضافہ کر کے اس ''دشمنی‘‘ کو مزید تقویت ملتی تھی۔ دشمنی کی وارداتوں کے ایک طویل تسلسل کے بعد جب عوام اس کے عادی ہو جاتے ہیں تو پھر اس دشمنی کی چھاپ اور زہر ان کے دل و دماغ میں اترنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ پھر ڈھونگ رچاتے ہیں۔ مذاکرات شروع ہوتے ہیں۔مسکراہٹوں کے تبادلے ہوتے ہیں تہواروں پر بارڈر پر فوجی حکمران ایک دوسرے کو مٹھائیوں کے تحفے دیتے ہیں اور درمیانے طبقے کے اصلاح پسند خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ اب دوستی اور ''امن کی آشا‘‘ روشن ہونے والی ہے۔پھر یہ سارا کچھ ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو کوئی بڑا دھماکہ، دہشت گردی کا واقعہ، سرحدوں پر جھڑپیں اور گولہ باری اور چند شہادتوں کے بعد دوبارہ برق رفتاری سے تنائو ابھارا جاتا ہے۔ دشمنی کو تازہ دم کیا جاتا ہے اس میں مزید رسیلا پن پیدا کیا جاتا ہے اور پھر اگلے مذ اکرات اور اگلی ملاقات کے درمیان کے متحارب وقفے کو طوالت دیے جانے کا عمل شروع کیا جاتا ہے۔
دشمنی کے ایشوز بہت ہیں۔ کچھ پرانے ہیں ‘کچھ نئے گھڑے جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا مسئلہ کشمیر کاہے۔ بھارت کے حکمران اور ریاست اسے اپنا''اٹوٹ انگ‘‘ گردانتے ہیں۔ کشمیریوں کی حالت اُدھر بھی خراب ہے اور اِدھر بھی۔ روٹی روزی سے محروم بنیادی ضروریات کے فقدان اور غربت‘ مہنگائی اور لا علمی کے شکار کشمیری عوام کے لیے مسلسل 68سال سے بر صغیر کے حکمران آزادی کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ برصغیر کے جن علاقوں میں سب سے زیادہ افراد یورپ مشرق وسطیٰ اور ہندوستان اور پاکستان کے شہروں کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ان میں کشمیر سر ِ فہرست آتا ہے۔۔لیکن بر صغیر کے باقی ڈیڑھ ارب انسانوں کے حالات زندگی بھی زیادہ مختلف نہیں ہیں۔اس خطے میں دنیا کی 22 فیصد آبادی بستی ہے جبکہ دنیا کی40فیصد بھی یہیں پائی جاتی ہے۔ دونوں ممالک کے سرمایہ داروں سیاست دانوں اور اہم ہستیوں سے تعلق رکھنے والے درمیانے اور بالا دست افراد کے لیے نہ ویزا کوئی مسئلہ ہوتا ہے اور نہ ہی آنا جانا۔ مودی اور نواز شریف کی حالیہ ملاقات میں جو اعلامیہ جاری ہوا ہے اس میں ''مذہبی ٹورازم‘‘ کے لیے اقدامات کرنے کی بات کی گئی ہے لیکن پاکستان اور بھارت کے عام انسانوں کے لیے ویزا حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ کیونکہ اگر عام لوگ ملیں گے تو پھر سطحی باتوں کے بعد جب زندگیوں کی اصل کیفیتوں پر بات ہوگی تو دکھ درد ایک ہی محسوس ہوں گے۔ ضرورتیں‘ مسائل اور ان کے حل پر جب مل بیٹھ کر محنت کش طبقے کے افراد سوچ بچار کریں گے تو ان کو آپس کے اصل رشتے کا ادراک ہو گا۔ یہ ادراک حکمرانوں کے لیے بڑا خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس لیے اپنے جبر و استحصال کا نظام جو انگریز سے انہوں نے وراثت میں حاصل کیا تھااس کے تسلط کو جاری رکھنے کے لیے یہ دشمنی ان کی بڑی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں لیکن دونوں ملکوں کی آبادی کی بھاری اکثریت بھوک‘ ننگ اور افلاس کا شکار ہے جو بڑھتی جا رہی ہے۔ اس نظام کو درکار اس دشمنی کو پروان چڑھانا اس سیاسی ڈھانچے کے ہر سیاست دان کا بنیادی فریضہ بن جاتا ہے۔اس کو مذہب کی بنیاد پر گرم کیا جاتا ہے اور سیکولر نیشنل ازم پر بھی۔قوموں اور مذہبوں کے اپنے وجود کی بقا کے لیے دوسری اقوام یا مذاہب سے حقارت اور نفرت کو مسلسل گرمانا ہوتا ہے ورنہ پھر ان مذاہب اور قوموں کے حکمرانوں کی پسے ہوئے محنت کش طبقات پر گرفت کمزور ہو کر ٹوٹنا شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ محنت کرنے والے انسان اس استحصال اور ظلم و جبر کو کب تک برداشت کر سکتے ہیں جو بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر بغاوتیں ہندوستان میں بھی ہوئی ہیں‘ پاکستان میں بھی۔ ایسی تحریکیں اگر ابھر کر ایک انقلابی فتح حاصل کر لیتی ہیں تو پھر جبر کا یہ نظام اور دشمنی کا یہ بندھن بھی ٹوٹ جائے گا۔ کیونکہ بھوک ‘غربت اور ذلت کا کوئی دیس کوئی مذہب کوئی فرقہ نہیں ہوتا۔ ان انسانوں کے درمیان ایک رشتہ ضرور بنتا ہے جن کو یہ اذیتیں لاحق ہوں اور زندگی کا سب سے بڑا رشتہ ان عذابوں سے نجات کی جدوجہدکی جڑت کا رشتہ ہوتا ہے۔ جہاں کوئی اس نظام کے طوق سے آزادی حاصل کر کے آدمی سے انسان بن سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں