"DLK" (space) message & send to 7575

پاکستان:عہد ِنو کے تقاضے سوال کرتے ہیں!…(آخری قسط)

ایسے میں تحریک انصاف بھی کسی قسم کی عوامی حمایت لینے سے قاصر ہے۔ الٹا اس نے‘ مڈل کلاس میں جو بنیادیں گزشتہ کچھ سالوں میں بھاری 'سرمایہ کاری‘ کے ذریعے حاصل کی تھیں، وہ بھی سکڑ رہی ہیں۔ دوسری پارٹیوں کے بچے کھچے ظالم جاگیردار اور وڈیرے، منافع خور اور بد عنوان سرمایہ دار، قبضہ مافیا کے سرغنہ اور منشیات کا کاروبار کرنے والے تمام تر لوٹ مار میں اپنا حصہ لینے کے لیے اس پارٹی کو ذریعہ بنا رہے ہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سماج کے کسی بھی طبقے کی وسیع پرت نے اس کی حمایت نہیں کی۔محنت کش طبقے کے لیے اس پارٹی کے پاس نہ تو کوئی پروگرام ہے اور نہ محنت کشوں کے لیے اس میں کوئی امید۔ کرکٹ میچ کی طرز پر سیاست کا معصوم خواب دیکھنے والے درمیانے طبقے کے نوجوان منشیات فروشوں ، قبضہ گروپوں اور پیشہ ور لوٹوں کی پارٹی کے عہدوں اور پختونخوا حکومت میں ٹھیکوں کی لڑائی سے زیادہ متاثر نہیں ہو پا رہے ہیں۔
یہ پارٹی اور اس سے وابستہ اداکار عوام کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اگر ملک میں شفاف انتخابات کرا لیے جائیں تو ان کے حقیقی نمائندے منتخب ہو کر ان کی خدمت کریں گے‘ لہٰذا انہیں تمام مسائل بھول کر شفاف جمہوریت کے حق میں تحریک انصاف کا حصہ بننا چاہیے۔محنت کش طبقے نے شفاف اور غیر شفاف الیکشنوں کے ڈرامے اور آئینی شقوں کی بحث کو واضح طور پر رد کیا ہے۔محنت کش عوام واضح طور پر جانتے ہیں کہ یہ الیکشن کروڑوں روپے کا کاروبار ہے جس میں وہی کامیا ب ہو گا جس نے بدترین جرائم اور بد عنوانی سے اتنی بڑی رقم جمع کر رکھی ہو گی۔ بلدیاتی الیکشن سے لے کر سینٹ تک اس کاروبار میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں کا حتمی مقصد بھی زیادہ تر اپنی دولت میں اضافہ کرنا 
ہوتا ہے۔ اس لیے محنت کش عوام اپنے ووٹ کا صحیح استعمال چند سو روپے یا سیوریج وغیرہ کی مرمت کے عوض کر دیتے ہیں۔اس نظام اور اس کی ''جمہوریت‘‘ کی یہی اوقات ہے۔1970ء کے انتخابات گواہ ہیں کہ جب محنت کشوں اور نوجوانوں کو یقین تھا کہ ان کے ووٹ سے تبدیلی آ سکتی ہے تو انہوں نے کسی تھانے کچہری کے ڈر، خوف یا روپے پیسے اور دیگر مفادات کے لالچ میںووٹ نہیں دیا تھا بلکہ اسے ایک تبدیلی کے اوزار کے طور پر استعمال کیا تھا۔آ ج کسی تحریک کی عدم موجودگی میں الیکشنوں کے نتائج خود حکمران اپنی مرضی سے طے کرتے ہیں اور کرائے کے تجزیہ نگار ان نتائج کے ذریعے عوام کی پسند و ناپسند کے جھوٹے تجزیے کرکے مختلف سیاسی پارٹیوں کے قد ماپتے ہیں‘لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام اس انتخابی ناٹک سے مکمل طور پر بیزار ہو چکے ہیں اور اس سے انہیں کوئی امید نہیں۔
اس ملک میں ابھرنے والی کوئی بھی حقیقی تحریک ان تمام تر جھوٹے ووٹ بینکوں کا پول کھول دے گی اور سیاسی افق پر موجود گزشتہ عہد کی ان تمام پارٹیوں کو کوڑے دان میں پھینکے گی۔ایسے میں تحریکوں کے دوران جو نئی سماجی ترتیب بنے گی اس میں نئی پارٹیوں کے ابھرنے کے بڑے پیمانے پر امکانا ت موجود ہیں۔کوئی بھی ابھرنے والی تحریک داخلی تضادات سے بھی بھری ہوتی ہے اور سماج کی طبقاتی تقسیم، دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں کی شکل میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ایسے میں جہاں بڑے پیمانے پر بائیں بازو کی پارٹیوں کے ابھرنے اور عوامی حمایت حاصل کرنے کے امکانات موجود ہیں وہاں دائیں بازو پر بھی نئی بنتر اور سیاسی عمل کا اظہارممکن ہے۔لیکن اس تمام تر صورتحال کو مصنوعی اور میکانکی انداز میں دیکھنے کی بجائے جدلیاتی انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔نئی سیاسی قوتوں کا ابھار ناگزیر طور پرجمود کی کیفیت کے خاتمے اور تحریک کے ابھرنے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ پھر ا ن قوتوں کے کردار کا تعین سماج کی مخصوص کیفیت کرے گی وہاں یہ عنصر بھی اہم ہے کہ تحریک سماج کے کس حصے سے ابھرتی ہے۔دوسری جانب سیاسی خلا کی موجودگی میں مزدور تحریک اور طلبہ تحریک بھی تذبذب کا شکار رہے گی۔نجکاری اور مزدور دشمن کارروائیوں کے خلاف اس وقت بھی بکھری ہوئی تحریکیں موجود ہیں لیکن ان کے پاس نہ تو اس لڑائی کو لڑنے اور فتح یاب کرنے کے لیے کوئی نظریاتی بنیادیں موجود ہیں اور نہ ہی ایسا کوئی سیاسی پلیٹ فارم ہے جہاں وہ اپنے غم و غصے اور حکمرانوں سے نفرت کا اظہار کر سکیں۔اسی طرح طلبہ تحریک بھی ابھرنے کے لیے بیتاب تو ہے لیکن بغاوت کا کوئی استعارہ ، کوئی نشانِ منزل یا چراغِ راہ ان کی راہنمائی کے لیے موجود نہیں۔ایسے میں یہ کہنا بھی سراسر غلط ہو گا کہ تحریک اس وقت تک ابھر ہی نہیں سکتی جب تک کوئی قیادت فراہم نہ ہو بلکہ تحریکیں اور انقلابات اپنی قیادتیں خود تراشتے ہیں۔میڈیا پر قیادت کی ہانڈی پکا کر تحریکوں کے منہ میں انڈیلی نہیں جا سکتی بلکہ تحریک کے مد و جزر سے گزر کر ہی کوئی بھی انقلابی قیادت تعمیر ہوتی ہے۔
ایسے میں جمہوریت کی بساط لپیٹ کر آمریت کے ذریعے بکھرتی ہوئی ریاست اور ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کی آپشن بھی سامراجی آقاؤں اور یہاں کے حکمران طبقات کے پاس کسی حد تک موجود ہے‘ لیکن ریاست کی شکست و ریخت اور داخلی خونریزخانہ جنگی کے باعث اس کی کامیابی کے امکانات انتہائی معدوم ہیں۔ پہلے بھی متعدد دفعہ اس بوسیدہ اور خستہ حال سماج پر آمریتوں کے ذریعے ریاست کے جبر کو قائم رکھا گیا۔کھوکھلی ہو چکی سیاسی پارٹیوں اوران کی تعفن زدہ قیادتوںکی ناکامی کا متبادل عسکری اشرافیہ کے کاندھوں پر پیتل کا مزید بوجھ ڈال کر فراہم کرنا اب اس نظام میں ممکن نہیں رہا ۔ اس سیاسی افق کے زوال اور حکمرانی کے بحران کے ساتھ اس ریاست کے مستقبل کا سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے۔عالمی سیاست و معیشت میں آنے والے مزید ہولناک زلزلوں سے اس نحیف ریاست اور دیوالیہ معیشت کو بچائے رکھنا طویل مدت تک ممکن نہیں ہو سکے گا۔ ساتھ ہی مشرقِ وسطیٰ میں جاری فرقہ وارانہ خونریزی‘ یمن میں فوج منگوانے کے مطالبے کے ساتھ یہاں پہلے ہی پہنچ چکی ہے‘ لیکن یمن کا محاذ آخری نہیں‘ موجودہ کیفیت میں بہت سے نئے محاذ کھلنے والے ہیں ۔
یہ سماج جس کیفیت میں داخل ہو چکا ہے اب اس کی روش سے ہم آہنگ ہونے کے لیے پرانے تمام طریقے فرسودہ ہو چکے ہیں۔اس سیاسی حبس اور جمود کی کوکھ سے نکلنے والی نئے عہد کی تحریکیں سماج کی نئی کیفیت سے مطابقت رکھنے والی سیاسی قوتوںاور قیادتوں کو بھی جنم دینے کی جانب بڑھیں گی‘ لیکن اس عمل میں اس فرسودہ نظام کی متروکیت اور نئے معاشی وسماجی نظام کے نظریات ہی سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اصلاح پسندی کے تمام تر نظریات کی گنجائش ختم ہو چکی ہے اور بھوک ، بیماری ، بیروزگاری اور تمام بنیادی ضروریات کی فراہمی کی مکمل یقین دہانی کروانے والے نظریات ہی عوام کے وسیع تر حصوں کے دلوں میں جگہ بنا پائیں گے۔ اس نظام میں رہتے ہوئے کسی بہتری کے امکان کی گفتگو کو بھی اب سخت نفرت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ سماج ایک بہت بڑی تبدیلی کو پکار رہا ہے۔ اس تبدیلی کے رستے میں موجود تمام تر پرانے ریاستی ڈھانچے اور اس کے زیر سایہ سیاست لڑکھڑا رہی ہے ۔ سطح کے نیچے ایک تحریک پنپ رہی ہے جو جلد یا بدیر اپنا اظہار کرے گی۔ اس تحریک کی قیادت وہی کرے گا جو اس نئے عہد کے نظریات اور آرزوؤں سے لیس ہو گا۔ درحقیقت یہ عہد سرمایہ دارانہ نظام کے انہدام اور خاتمے کا عہد ہے۔ اس نظام کو دفن کرنے کے لیے ان نئی تحریکوں کو سوشلسٹ انقلاب کی منزل تک لے جانا ہوگا۔ ایسا صرف ایک مارکسی نظریات سے لیس اجتماعی قیادت پر مبنی انقلابی پارٹی ہی کر سکتی ہے جومحنت کش طبقے کی تحریکوں میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے وسیع تر عوامی حمایت کو اپنے دامن میں سمیٹ لے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں